لکھ یار

بول کے لب آزاد ہیں تیرے……..محمد طلحہ صدیقی

موضوع دیکھا تو میں نے سوچا ‘ارے واہ نہایت مضحکہ خیز موضوع ہے’ بول کے لب آزاد ہیں تیرے کیسے بولوں! میرے لب آزاد ہیں! لیکن یہ وہ بولتے ہیں جو میرے دل میں خیال آتا ہے یا میرے دماغ میں سوچ آتی ہے یا میری آنکھ معاشرے میں دیکھتی ہے یا جو میرے کان سنتے ہیں ….. آخرالذکر دونوں ملاوٹ شدہ ہو سکتے ہیں لیکن اول الذکر کے خالص ہونے میں میرے ناقص علم کے مطابق کوئی رکاوٹ نہیں !!! میری سوچ اغیار کے شکنجے میں ہے میں ذہنی غلام ہوں میرے لب پھر کیسے آزاد ہیں.. مجھے ایسے آزاد لبوں کے خواب دکھانے تھے تو مجھے ایسے معاشرے سے کہیں اور لے جائیے جہاں سچ پہ دار اور جھوٹ پہ ہار ملتے ہیں! میں سچ کیسے بولوں! مجھے لوگ منہ پھٹ کہتے ہیں تو میں ہنستا ہوں لیکن تنہائی میں روتا ہوں! ارے جانے دیجیے لب آزاد ہیں ہنسی آتی ہے مجھے کہ کس کے لب آزاد ہے !!! یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں کی صورت اگر کوئی مل بھی جائے جس کے لب حقیقت میں آزاد ہوں تو پھر وہ دنیاوی جھنجھٹوں سے آزاد ہو گا ….. میں نے اپنی چھوٹی سی عمر میں سیے ہوئے لبوں کو آزاد دیکھا ہے …… سہانےخوابوں والی دنیا بھی جھوٹوں کا پلندہ ہے!!! 22656272_10213053484306007_2081476303_n

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button