لکھ یار

عالم سوزوساز: عشق سے تکمیلِ ذات تک۔۔

تحریر : سہیل تاج

آج کل کی محبت ،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے چلے تو چاند تک ورنہ شام تک، یعنی عاشق و معشوق دونوںہی وقت گزاری کے لئے پیار کی پینگیں بڑھاتے ishqہیں اور وقت آنے پر اپنا اپنارستہ ناپتے ہیں۔محبت کی اس قسم کو معاشرہ قبول نہیں کرتااور وقت بہ وقت اس قسم کے عاشقوں پر کڑی تنقید بھی کی جاتی ہے۔ نوجوانوں کی وہ عمر جس میں انہیں اپنی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مستقبل پر توجہ دینی چائیے اس وقت کونوجوان تخیلاتی محبت میں برباد کر دیتے ہیں جس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
یہ خیالات نہایت مثبت ہیں اور نوجوان نسل کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ عشق و محبت کے خوابوں سے نکل کرمحنت و جستجو سے دنیا میں اپنا ایک مقام پیدا کریں۔مگر یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے جو کہ محبت کو ایک سطحی جذبے اور خام خیالی کے طور پر پیش کرتا ہے، جیسا کہ غالب نے کہاتھا ،
کہتے ہیں جس کو عشق ، خلل ہے دماغ کا
تصویر کے دوسرے رخ کو شہوت پرستی اور وقت گزاری سے بالا تر ہو کر دیکھیں تو عشق و محبت سچ ہے، کرشمہ ہے، عطا ہے۔ اگر دنیاوی رشتوں میں کوئی رشتہ آسمانی ہے تو وہ محبت کا رشتہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی کے بڑے درخت کی ہی شاخ ہے یا شاید عشق حقیقی کی شروعات عشق مجازی سے ہوتی ہیں۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے:
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
حقیقت اور مجاز دو رستے ہیں جو بظاہر ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتے ہیں مگر یہ دونوں ایک ہی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ حقیقت کا رستہ طریقت سے ہو کر گزرتا ہے اور مجاز بلآخر حقیقت میں ڈھل جاتا ہے۔جیسے پرانے روم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ تمام سڑکیں روم کی جانب جاتی ہیں۔ یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس کے بر عکس محبوب بن جانے کا خیال غرور ہے، تکبر ہے، دھوکہ ہے، خود پسندی اور خود ستائشی ہے۔ یہ انسان کی شخصیت میں خود پرستی کا عنصر شامل کر تی ہے۔ خود پرست انسان خدا اور اس کی مخلوق سے دور ہو جاتا ہے اور انگریزی کے اس قول کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے۔ “First love and last love is self love”
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی میں فرق یہ ہے کہ مجاز میں انسان اپنی انا ایک انسان کے آگے پامال کرتا ہے۔ جبکہ عشقِ حقیقی کا مفہوم اپنی انا کو خالق حقیقی اور اس کے تمام بندوں کے آگے پامال کر دینے کا نام ہے۔ اس کی مزید وضاحت واصف علی واصف نے اس طرح سے کی ہے کہ ہیر اور رانجھا کا عشق تومجاز ہو سکتا ہے مگر وارث شاہ کا عشق حقیقی تھا۔ مصورکی تخلیق کا پیار ہی تخلیق کار کے قرب کا ذریعہ بنتا ہے ۔
اکژ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر عشق و محبت اتنا ہی پاکیزہ جذبہ ہے تو بربادی سچے عاشقوں کا مقدر کیوں بنتی ہے۔ لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہیوال تاریخ سے کسی بھی عاشق کا نام لے لیں، ظاہری کامیابی کسی کا مقدر نہیں بنی ۔ کسی کو پتھر مارے گئے۔ کسی کو دریا نگل گیا اور کسی کے نصیب میں صحرا آئی۔ ایسا کیوں ہے اس کا جواب منصور حلاج نے اس وقت دیا جب انہیں مقتل کی جانب لے جایا جا رہا تھا۔
منصور حلاج نے اناالحق (میں ہی حقیقت ہوں )کا نعرہ لگایا تو وقت کے تمام علماء، مشائخ اور اہل علم ان کے مخالف ہو گئے۔ وقت کے قاضی نے بھی منصور حلاج کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس موقع پر کسی درویش نے منصور حلاج سے پوچھا عشق کیا ہے؟ منصورنے جواب دیا: عشق کیا ہے یہ تم آج، کل اور پرسوں دیکھو گے۔ گویا انہیں پہلے دن دار پر چڑھایا گیا۔ دوسرے دن آگ لگا دی گئی اور تیسرے روز ان کی راکھ کوپانی میںبہا دیا گیا۔ یہ عشق کی حقیقت ہے جو کہ عقل اور حیرت کی بھی انتہا ہے اور جہاں کل کائنات کے رتبے اور درجے بے معنی نظر آنے لگتے ہیں۔ عشق کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو فنا کر دے اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات میں بقا پا جائے۔جیسے قطرہ سمندر میں شامل ہو کر اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ بقول اقبال،
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی
محبوب اس راہِ حق کی ایک کڑی ہے۔ بالکل اسی طرح جب پانی کو ایک حد سے زیادہ ابالا جائے تو وہ کڑوا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر شیرینی کی مقدار کو حد سے ذیادہ بڑھا دیا جائے تووہ بھی کڑوی ہو جاتی ہے جبکہ کڑواہٹ کو حد سے بڑھا دیا جائے تو اس میں ایک لذت پیدا ہو جاتی ہے۔ عمیرہ احمد نے اپنی تحریر  ’ پیرِ کامل‘ میں بیان کیاہے کہ لطف و سرور کی حد درد ہے اور درد کی حد کے بعد دوبارہ سرور آنے لگتا ہے۔ بقولِ غالب
رنج کا خوگر ہو گرانسان تو مٹ جاتاہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
عشق اگر کامل ہو جائے تو وہ مجاز نہیںرہتا بلکہ حقیقت بن جاتا ہے۔ حضرت شاہ نیاز نے اپنے کلام میں اس حقیقت کو ایسے بیان کیا
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
کہیں وہ در لباس ِ معشوقہ
برسرِ راز اور ادا دیکھا!
یہ حقیقت ہے کہ محبوب کی فطرت میں ناز و اداءہے۔ جب عاشق اپنے محبوب کی فطرت کو سمجھ کر اس کے ناز اٹھانا سیکھ لیتا ہے ایسے میں وہ جانتا ہے کہ اپنے محبوب کی رضا کو مان کر کیسے اسے خوش کیا جاتا ہے۔ رضا و تسلیم کا سبق بھی ایسے ملتا ہے ۔ انسان جان جاتا ہے کہ اس کا خالق و مالک اللہ ہے اور اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں سرک سکتا۔ انسان سمجھ لیتا ہے کہ اس کی تخلیق ایک مقصد کے تحت ہوئی اور دنیا میں اس کا وجود بے معنی نہیں۔ وہ خدا کا نائب ہے اور اسے خدا تعالیٰ اور راہ حق کے لئے اپنی زندگی وقف کرنی ہے، خدا اور اس کی رضا کا طالب بننا ہے۔
محبت کی انتہا پر محبوب بھی اسے تخت عطا کرتا ہے۔اپنے عاشق کی خواہشات کی قدر کرتا ہے اور پھر ۔۔ ۔ ۔ ایک وقت کے بعد اسے تخت محروم بھی کر دیتا ہے۔ یہی نعمت ہے، رحمت ہے اور عطا بھی! فراق عاشقوں کی شخصیت کوانسانیت کی تکمیل عطا کرتا ہے۔ اور عاشق تنہا ہو جاتے ہیں کیوں کہ خدا تنہا ہے، اکیلا ہے، یکتا ہے! خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ نہیں مجاز حقیقت سے آشنا کر دیتا ہے اور وہ لوگ جو مجاز کو وقت گزاری اور لذتِ دنیاوی سمجھتے ہیں وہ گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔
عالم سوزوساز میں، وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب

Related Articles

4 Comments

  1. ‘بہت ہی عمدہ اور بامقصد تحریر ۔ سپیشل شکریہ ان الفاظ کے چناو کے لیے ۔’ فراق عاشقوں کی شخصیت کوانسانیت کی تکمیل عطا کرتا ہے۔ اور عاشق تنہا ہو جاتے ہیں کیوں کہ خدا تنہا ہے، اکیلا ہے، یکتا ہے! خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ نہیں مجاز حقیقت سے آشنا کر دیتا ہے

  2. Ishq e majazi say isha e haqeeqi tak ka safar bayan kar dia Sohail Taj sb nay. Ishq zaat ki takmeel tak lay jata hai ager adhiq bhatkay na. Superb piece of writing, keep it up Sir.

  3. very nice , love of people is love of God, to deal with your fellow human beings, Love everybody and help everybody, respect your elderly. Jazakallah

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button