Mumtaz Mufti by Arif

ممتاز مفتی کے ساتھ گزارے کچھ لمحے

(عارف)

arif۱۹۹۰ کی دہائی کی بات ہے ، میں کرسی پر بیٹھا، اپنے سامنے رکھے کالے ڈائل گھمانے والے فون کو گھور رہا تھا – میرے ہاتھ میں ایک پرچی تھی جس پر ممتاز مفتی کا فون نمبر درج تھا – یہ پرچی اسلام آباد آتے ہوے نجیبہ نے میرے ہاتھ میں اس تاکید کے ساتھ تھما دی تھی کہ آپ مفتی صاحب سے اسلام آباد کے قبرستان کا راستہ پوچھ لیجیے گا ، جہاں قدرت اللہ شہاب دفن ہیں اور وہاں فاتحہ پڑھنے ضرور جائیے گا ۔ اور میرا سلام بھی کہ دیجیے گا۔

ممتاز مفتی،  الفاظ سے مصوری کرنے کے ماہر ، ہر لفظ کی نوک پلک سنوارنے والے ، اردو زبان میں نت نئے الفاظ متعارف کروانے والے ، میں بھلا کس طور اُن سے بات کر پاؤں گا، مجھ سے کہیں کوئی لفظ غلط  ادا نہ ہو جاے یا میرے کسی لفظ کا تلفظ ہی غلط نہ ہو ۔ ان سے بات کرنے کے  لیے الفاظ کے چناؤ میں پریشان، میں مسلسل فون کو گھورے جا رہا تھا

ڈرتے ڈرتے فون کا ریسیور کریڈل سے اٹھایا اور کانپتی انگلیوں سے میں نے پرچی پر درج نمبر ڈائل پر گھمانا شروع کیا ۔ ڈائل کے ایک نمبر پر انگلی رکھ کر میں اسے آخری حد تک گھما کر چھوڑتا تو ڈائل ایک مخصوص آواز کے ساتھ واپس اپنی جگہ پر آ جاتا ، اس گھومتے ڈائل کے ساتھ ساتھ مجھے کمرے میں رکھی ہر چیز ہی گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی،

جی آپ کون بول رہے ہیں ۔۔۔۔

 دوسری طرف سے آنے والی ایک با رعب، گونجتی ہوئی آواز نے جیسے میری آواز ہی گم کر دی ہو ۔ اپنی ساری طاقت اور اردو جمع کرتے ہوے بولا۔ ’’سر،  میں عارف بول رہا ہوں ، مجھے قدرت اللہ شہاب صاحب کی تدفین کی جگہ ، ان کی آخری آرام گاہ کا راستہ معلوم کرنا تھا آپ سے،  حاضری دینا چاہتا ہوں، ان کی لحد پر۔۔۔۔۔  ‘‘

مجھےیہاں اپنی اردو ختم ہوتی محسوس ہو  رہی تھی ، الفاظ جیسے چھپ گئے ہوں ، ذہن بالکل خالی تھا ۔ ہاتھوں میں پسینے آ رہے تھے۔

تسی  شہاب دی قبر تے جانا اے ۔۔۔۔؟

  ممتازمفتی کی کھنکتی ہوئی آوازمسکراتے ہوہے مجھے آنکھ ماررہی تھی ۔ اس آواز نے جیسے مجھے نئی زندگی دے دی ہو ۔ اس قدر اپنائیت اوربے تکلفی تھی ان کے بات کرنے کے انداز میں۔ جیسے ہمارے بیچ برسوں کی یاری ہو۔

آبپارہ توں ۲۲ نمبر ویگن تے بیھ کے زیرو پوائنٹ ایگرکلچر بنک دے سٹاپ تے اتر جانا ۔ اوتھوں اگے قبرستان تک پیدل آنا پہے گا ۔ اک نمبر گیٹ دے نال ای پہلے پلاٹ وچ شہاب دی قبر اے۔ قبر تے وڈا وڈا قدرت اللہ شہاب لکھیا اے۔

انہوں نے تو جیسے میری ساری اردو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں تھما دی تھی۔

میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہ رہا تھا، لیکن دوسری طرف سے فون بند ہو چکا تھا۔  ممتاز مفتی  سے یہ میرا پہلا آواز کا رشتہ تھا، جو اب تک آواز کا رشتہ ہی ہے۔ کبھی کتاب کا رشتہ نہیں بن سکا۔

ممتاز مفتی کسی بھی تکلف کے بنا  سیدھی اور کھری بات کرنے کے عادی تھے، جس کا مشاہدہ بعد میں، میں کچھ سال ان کی قربت میں رہنے کے دوران کرتا رہا۔ شادی کے فوراً بعد پہلی بار نجیبہ کے ساتھ اسلام آباد ان سے ملنے آیا  اورایک خوشگوار ملاقات کے بعد جب واپسی کی اجازت چاہی تو کہنے لگے

ہنیرا بوہتا ہو گیا اے ہن تسی کدھر جاو گے

واپس لاہور سر، بس آپ سے ملنے آئے تھے، سو مل لیا،

ہمم۔۔۔ جے تہاڈی ڈیوٹی اسلام آباد ای لا دتی جاوے تے کیسا اے ، اے کڑی کالج اچ پڑھائے گی تے توں ایتھے کسے دفتراچ نوکری کرلئیں۔

ہم نے ان کی باتوں کو ان کی محبت اورخلوص جانتے ہوے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لے کر ان کی باتوں کی جگالی کرتے واپس لاہور آ گئے۔

اس ملاقات کے تقریباً ایک ماہ بعد نجیبہ کو اسلام آباد کے ایک کالج میں لیکچررشپ مل چکی تھی اور میں اسلام آباد کی سڑکوں پر نوکری کی تلاش میں پھر رہا تھا ۔ جب کچھ عرصے تک نوکری نہیں ملی تو تنگ آ کر کوشش کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ صبح نجیبہ کو کالج چھوڑتا اور سیدھا ممتاز مفتی کے پاس ان کے گھر آ جاتا ۔ دوپہر کالج بند ہونے تک ان کے پاس ہی رہتا ، اس دوران کبھی ممتاز مفتی مجھ سے بول کر بات کرتے اور کبھی خاموش رہ کر۔

میں دنیا کا واحد خوش نصیب ہوں جس نے ان کی لکھی ہوئی ایک بھی کتاب نہیں پڑھی ، لیکن یہ سب کتابیں ، چھوٹی چھوٹی کہانیوں اور واقعات کی صورت میں، ان سے ، ان ہی کی زبانی سن رکھی ہیں، چاہے یہ علی پورکے ایلی کے ایڈونچرز ہوں یا کالے کوٹھے سے بلاوا، شہاب صاحب کو اونٹوں والے کا پیغام پہنچانے کا واقعہ ہو یا الکھ نگری کی ممتاز بیتیاں ، مری روڈ کے ٹی ہاؤس کی گپ شپ ہو یا چھڈ یار کی آوارگیاں، باغبانپورہ کے سکول میں فرضی نام سے کہانیوں کی بات ہو یا اسلام آباد کی سڑکوں پران کے ویسپا سکوٹر کی اٹکھیلیاں۔  باتوں باتوں میں ممتاز مفتی نے مجھے وہ سب بتا دیا تھا جو وہ اپنی کتابوں میں لکھتے تھے، اورمیرا ان سے یہ آواز کا رشتہ گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ میں کہانی پڑھنے سے زیادہ کہانی سننے کا عادی ہو گیا۔

مجھے اسلام آباد میں جاب مل بھی گئی پر ان کے پاس جانے کی عادت نہیں چھوٹی اورہردوسرے دن، کسی نہ کسی حیلے بہانے ہم دونوں مفتی صاحب کے گھر ہی پائے جاتے۔ اسلام آباد میں ان کا گھر ہی ہمارا سب کچھ تھا ۔ ہمارا سسرال بھی اور ہمارا میکا بھی۔

شام کہیں گھومنے کے لیے جانا ہو تو ممتاز مفتی کا گھر

بیمار پڑ جائیں اور ڈاکٹر کے پاس جانا ہو تو ممتاز مفتی کا گھر

نجیبہ کو کوئی کتاب چاہیے ہو تو ممتازمفتی کا گھر

اور تو اورآج گھر میں کیا پکنا ہے ، چلو ممتاز مفتی سے پوچھتے ہیں۔

بعد میں معلوم ہوا کہ ہم اکیلے نہ تھے جو ممتاز مفتی کے دیوانے تھے۔ ہر ماہ ان کے نام ان کے پرستاروں کے آنے والے سیکڑوں خطوط اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ پاکستان بھر میں اور پاکستان سے باہر لوگ کس طرح پوجنے کی حد تک ان کو چاہتے تھے۔ ان کو چاہنے  والوں میں بہت بڑی تعداد نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تھی۔

کوئی خط ان کو اپنا پیر و مرشد مان کر سجدہ کر رہا ہوتا ، تو کوئی اوے مفتی کہہ کر ان کا گریبان پکڑتا۔ کسی خط میں اپنے بوائے فرینڈ کی بے رخی کا ذکر ہوتا تو کسی میں ٹیپ سے گرم پانی آنے کے انتظار میں ٹھنڈا پانی ضائع ہونے کا افسوس۔ کسی خط میں ان کے لیے نوری دومونہی چراغ کی نوید ہوتی تو کسی میں کتاب مکمل کرنے کی ہدایت۔

ممتاز مفتی ہر خط کو پڑھتے اور اس کا جواب لکھتے، مختصر اور ٹو دا پوائنٹ جواب۔

سردیاں ہوں یا گرمیاں ،ممتازمفتی اپنے گھر کے ساتھ لان میں،  دو رنگی شلوار قمیض پہنے، کرسی میں دھنسے، امتحانی گتے پر رکھے کاغذوں پر کچھ لکھتے رہتے، شیو اکثر بڑھی  ہوتی اور سفید ریشمی بال الجھے ہوئے، پان کھانا تو بیماری کی وجہ سے مدتوں پہلے چھٹ چکا تھا لیکن عادت نہیں چھٹی تھی،  اس لیے منہ میں بھنے ہوے چنے رکھتے تھے۔ جو پان کی مانند چباتے رہتے، اور ہر آنے والے کو پیش بھی کرتے، سامنے رکھی لکڑی کی میز پر کتابوں کے ساتھ ساتھ ایک سگرٹ اور ماچس کی ڈبیا بھی رکھی رہتی ، جو وہ سب سے نظر بچا کر سلگا بھی لیتے تھے، کوئی دیکھ لیتا تو کہتے ،

اے پتہ نییں کون اپنی ڈبی ایتھے بھل گیا اے، کوئی ملن آیا سی مینوں، جاندے ہوے ایتھے ای چھڈ گیا اے، میں تے ہنے لایاسی، سوادی نئیں اے، مٹھی اے، سگرٹ کوڑا ہونا چاہیدا اے، لے پھڑ سٹ دے اینوں!

منہ کی بیماری کی وجہ سے ڈاکڑ نے سگرٹ پینے سے منع کر رکھا تھا لیکن پھر بھی ہر روز کوئی نہ کوئی ان کی میز پر اپنی سگرٹ کی ڈبیا بھول جاتا تھا۔

موسم کی شدت میں گھر کے ڈرائینگ روم کے ایک کونے میں بچھی چٹائی پر گاؤ تکیے کے سہارے نیم دراز پوزیشن میں لیٹے زمین پر رکھے کاغذپر لکھتے رہتے یا کوئی کتاب ان کے ہاتھ میں ہوتی ، اور وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے کتاب کی ورق گردانی میں مصروف نظر آتے۔

وہ جہاں بھی ہوتے ملنے والوں کے لیے ان کی اوپن ڈور پالیسی تھی، ہر عمر کے لوگ ان کے پاس آتے ، کچھ اپنے مسئلے بتاتے اور کچھ صرف ملنے کی خواہش لے کر آتے، مفتی صاحب سب سے ملتے اور توجہ سے ان کی بات سنتے۔

     ایک نوجوان بولا سر مجھے اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے۔ میرے ذہن میں بری اور نیگیٹو  سوچوں کا غلبہ ہے ۔ میں بہت پریشان رہتا ہوں، میں برا سوچنا نہیں چاہتا ۔ لیکن ہمیشہ برا ہی سوچتا ہوں۔

مفتی صاحب نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور کہا۔ آپ نہایت بے ہودہ انسان ہیں۔ آپ خود کو برا سوچنے سے روکتے ہیں اسی لیے بری سوچ اٹکی ہوئی  ہے آپ کے دماغ میں۔ بری سوچ آتی ہے، سب کو آتی ہے ، اسے سوچیں اور آگے بڑھیں۔  موو فاورڈ! سڑک پر ہر قسم کی ٹریفک چلتی ہے، اگر آپ نے سست رفتار ٹریفک کو روکنا شروع کر دیا تو پیچھے آنے والی تیز رفتار ٹریفک بھی رک جاے گی ، ٹریفک کو چلتے رہنا چاہیے ، وقت آنے پر تیز رفتار ٹریفک یقیناً سست رفتار تڑیفک سے آگے نکل جاتی ہے۔ایک روز اچھی اور مثبت سوچ آپ کی بری سوچ پر غلبہ پا لے گی ۔

اور وہ نوجوان خوشی خوشی ہنستے مسکراتے واپس چلا گیا۔ جیسے اسے بری سوچ سوچنے کا پرمٹ مل گیا ہو۔

ایک جوان خوبرو، خوش لباس لڑکی آلتی پالتی مارے ممتاز مفتی کے سامنے بیٹھی تھی ، اس کی موٹی موٹی بادام جیسی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں، لگتا تھا بہت دیر روتی رہی ہے۔

مفتی جی میں ملتان میں رہتی ہوں، آپ سے ملنے کو بہت دل چاہتا تھا ، بڑی مشکل سے پہنچی ہوں آپ کے پاس۔ بہت رونا آتا ہے۔

تو ملتان سے نو گھنٹے کا سفر طے کر کے آپ یہاں میرے سامنے بیٹھ کر رونے آئی ہیں۔

 ممتاز مفتی اپنی شوخ آواز میں بولے۔

لڑکی کی آنکھوں میں پھرسے دریا امڈ آیا اوروہ اپنی ہتھیلی سے، بچوں کی طرح  آنکھیں پونچھتے ہوے بولی ۔ مفتی جی میرے والد ین نے سات ماہ پہلے میری شادی میری پسند سے کر دی ، میرا شویر بہت اچھا آدمی ہے، بہت محبت کرنے والا ، میرا بہت خیال رکھتا ہے ، میرے سسرال والے بھی  اچھے لوگ ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں ، مجھے ، کھانے پینے، کپڑے لتے، سونا چاندی کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے اس گھر میں۔ ماشااللہ بہت کھاتا پیتا گھرانہ ہے۔

جناب اگر سب اتنا ہی اچھا ہے تو کیا میری شکل اس قدر ڈراؤنی ہے جو آپ مسلسل میرے سامنے بیٹھی رو رہی ہیں۔

ممتاز مفتی کی آواز میں شوخی بدستورقائم تھی ۔

مفتی جی میں اپنی ڈگری مکمل کرنا چاہتی ہوں، آگے پڑھنا چاہتی یوں، آپ جیسا لکھنا چاہتی ہوں،  رایٹر بننا چاہتی ہوں ۔ میرے شوہر بھی سمجھتے ہیں کہ مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہیے، لیکن میری ساس سمجھتی ہیں کہ میں نے پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا اب مزید آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، اب مجھے صرف اور صرف گھر داری پر توجہ دینی چاہیے۔ گھر میں دولت کی ریل پیل ہے، مجھے پڑھ لکھ کر کونسا نوکری کرنی ہے جو میں ڈگری مکمل کروں۔

ھمم ۔۔۔ بہت اچھی بات ہے ۔۔ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ کی ساس صاحبہ ۔ اب تو آواز کے ساتھ ساتھ ممتاز مفتی کی آنکھوں میں بھی شوخی تھی۔

’’جی۔۔۔ ‘‘   لڑکی نے حیرت سے مفتی صاحب کی طرف دیکھا

محترمہ آپکی ساس اپنا کام بالکل ٹھیک کر رہی ہیں ، آپکو گھر اور گھر داری کا مشورہ دینا ہی ان کا کام ہے ۔ دیکھیں، سامنے کیاری میں خوشنما اورخوبصورت رنگوں میں کھلے پھول، یہ سب ایک ہی طرح کے پودے ہیں اور ایک ہی جیسی مٹی میں لگے ہیں، لیکن ایک پودے پر لال رنگ کا پھول کھلا ہے اور ایک پر پیلا ، ایک ہی زمین سے اگنے والے ایک بوٹے پر لیموں جیسا کھٹاس سے بھرا پھل آتا ہے اور دوسرے پر شہتوت کی طرح مٹھاس سے بھر پور، لیکن ہر پھول اور ہر پھل اپنی ایک شناخت اور اہمیت رکھتا ہے۔

ایک گھر میں رہنے والے لوگ بھی ان پھولوں اور پھلوں کی طرح لال گلابی ہو سکتے ہیں ،لیکن اپنی اپنی خوبصورتی ، شناخت اوراہمیت رکھتے ہوے۔

سامنے کھڑا یہ تناآور درخت ہمیشہ سے اتنا بڑا نہیں تھا ، ایک چھوٹا سا بیج زمین کو چیرتے ہوے پھوٹا تھا اور کشش ثقل کی ضد میں اس نے اوپرکی طرف بڑھنا شروع کیا تھا ، اگر صرف زمین کی گریویٹی ہی ہوتی تو بیج کو زمین میں ہی سموئے رکھتی ہمیشہ کے لیے ۔ اور اگر صرف بیج کی ضد ہی ہوتی تو یہ درخت اوپر آسمانوں کو چھو رہا ہوتا، اس میں ایک بیلنس ہے اور یہ بیلنس ہی اس درخت کی خوبصورتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس پودے کی جڑوں نے اپنے آپ کو اس زمین میں گہرا اور مضبوط کیا ہے جو اس کی اونچائی اور پھلنے پھولنے کا سبب بنی ہے۔

ممتاز مفتی کی باتوں میں پتہ نہیں کیا پیغام تھا، لڑکی کی آنکھوں میں اب سرخی کی بجاے شوخی تھی اور آنسوؤں کی بجاے چمک ، وہ ممتاز مفتی کے پاس سے اٹھی تو خود اعتمادی سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ شاید اسے اپنی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ مل گیا تھا۔

ایک مکتب کھول رکہا تھا ممتاز مفتی نے اپنے ہاں، جہاں لوگ پاؤں پاؤں چل کے آتے تھے اور ناچتے گاتے، چھلانگیں لگاتے واپس جاتے تھے۔ ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ ممتاز مفتی نے یہ رنگ کی پچکاری صرف اسی پر پھینکی ہے اور صرف و ہی ہے جو ان کے رنگوں میں رنگا گیا ہے۔ یہ کرم نوازی بس اسی پر ہوئی ہے ۔ نہایت ایمانداری اور سچائی سے جھوٹ بولتے، لیکن اپنے سامنے بیٹھے ہوے شخص کا کھویا ہوا کانفیڈ ینس اسے واپس دلا دیتے تھے۔

ہر کسی سے اسی کی بولی میں بات کرتے اور وہ ہی بات کرتے جو ہو سننا چاہتا، پتہ نہیں کیا جادو کرتے پر ہر ایک کواس قابل بنا دیتے کہ وہ سچائی اور ایمانداری سے پہلے سے بہترانسان بننے کی کوشش کرسکے۔  ہر طبقے اور عمر کے لوگ، زمانے کی مشکلوں سے چور ، دکھی دلوں کے ساتھ ان کے پاس آتے اور خود اعتمادی کے نشے میں دھت ، ہر مشکل سے بھڑ جانے کا حوصلہ لے کر واپس جاتے۔

ممتاز مفتی اپنے  گھر میں باقاعدگی سے ادبی محفلیں سجاتے اور ادب کے فروغ کے لیے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے، ہر نئے لکھنے والے کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ  لکھتے رہنے کی تلقین کرتے۔ آپ کو لکھتے رہنا چاہیے ، چاہے دن میں ایک لائین ہی کیوں نہ لکھیں پر لکھیں ضرور،[ یو آر دا ون، یو کین ڈو اٹ،] کا ایسا ٹیکہ لگاتے کہ سامنے بیٹھا شخص ،[ یس آئی کین ڈو اٹ] کے طلسم سے بھر جاتا اور کامیابی کے زینے پر اپنا پہلا پر اعتماد قدم رکھتا، مکمل خود اعتمادی کے ساتھ، [ یس آئی کین ڈو اٹ۔۔۔۔ ]

کسی نے ان سے کہ دیا کہ ممتاز مفتی صاحب! نوجوان لوگ آپ کو پیر و مرشد مانتے ہیں ، دینا بھر میں آپ کو پڑھتے ہیں ۔ آپکی لکھی ہوئی بات دل پر اثر رکھتی ہے۔ آپ کو إن کے لیے خاص طورپراسلام کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہیے ،جس سے إن کو اپنی بے سمت انرجیز کو چینلائز کرنے میں مدد ملے۔

بولے ہمارے اس دور کے نوجوان بہت زرخیز ذہن کے مالک ہیں ، بہت مثبت سوچ رکھنے والے، ہم سے بہت بہتر مسلمان، پریکٹسنگ مسلم، آپ  کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں روشن اور تابناک ہے۔  ویسے بھی میں نے جتنا لکھنا تھا میں لکھ چکا ہوں۔ اب تو بس میں ٹکٹ کٹائے،  اپنا سامان باندھے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں بیٹھا ہوں، کب گاڑی آئے اور میں اس پر سوار ہوں۔

میں ان کی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا، یہ بات وہ پہلے بھی کئی بار کہ چکے تھے بلکہ دو تین بار تو واقعی اپنا سامان اٹھاے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں جا بیٹھے تھے، پر کبھی تو ان کی گاڑی ہی کینسل ہو جاتی تھی اور کبھی ان کو اس گاڑی کا ٹکٹ ہی نہیں ملتا تھا اور وہ اپنا سامان اٹھائے واپس گھر آ جاتے تھے۔

اس باربھی میں نے ان کی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی ، کبھی سچ نہیں جانا تھا، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہماری زندگی سے وہ یوں اٹھ کر جا سکتے ہیں۔ بھلا وہ ایسا کیوں کریں گے، اتنا پیار کرنے والوں اتنا چاہنے والوں کے درمیان وہ رہتے ہیں، وہ کیسے یہ سب چھوڑ کر ایک انجان سفر پر جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بار میں غلط سوچ رہا تھا، اس بار نہ تو ان کی گاڑی کینسل ہوئی اور نہ ہی گاڑی کے ٹکٹ کم پڑے، اور یہ بات ان کو اور ان کے کچھ ہمرازوں کو پتہ تھی، شاید اسی لیے گاڑی اسٹیشن پر آنے سے کچھ دیر پہلے ان کے ایک ہمراز ساتھی نے ویٹنگ روم میں ان سے آخری ملاقات کی ، یہ ملاقات بھی عجب ملاقات تھی اس ملاقات میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا اور بہت سے پیغامات ایکسچینج ہو گے آخر میں اس ملاقاتی نے ممتاز مفتی کے ہاتھ سے ان کا قلم دان لے کر، اللہ اور محمد کا نور بکھیرتا ہوا دو مونہی چراغ ان کے داہنے ہاتھ میں تھما دیا ۔

اور پھر اسٹیشن پر گاڑی آ ہی گئی اور ممتاز مفتی ، نورونور، اپنے اس سفر میں ضرورت کا سامان اٹھائے  خوشی خوشی، گڈ بائے کہتے اس پر سوار ہو گئے۔  سامان کی ایک پوٹلی جس میں کچھ لکھے اور کچھ ان لکھے صفحے موجود تھے ،  پیچھے اسٹیشن پر ہی چھوڑ گئے۔ شاید اس کی ان کو اب کوئی  ضرورت نہیں تھی۔

ممتاز مفتی اسٹیشن پر کھڑی گاڑی میں کیا سوار ہوئے ، ایسا لگا اسلام آباد کے ہر گھر میں ہی مرگ کا سماں ہے، کسی کا باپ مرا تھا ، کسی کا بھائی، کسی کا محبوب تو کسی کا معشوق، کسی کا ہمرازتو کسی کا ہم خیال، کسی کا استاد تو کسی کا یار، کتنے ہی رشتوں میں جیتا تھا ممتاز مفتی۔

اس روز ممتاز مفتی کے گھر لوگوں کا ایک ہجوم جمع تھا، لڑکے لڑکیاں، مرد عورتیں۔ بڑے بڑے سفید داڑھی والے بزرگ وہاں آتے اور بھیں بھیں کر کے رونے لگتے، میں کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا یہ کون لوگ ہیں، میں نے تو آج سے پہلے کبھی ان کو ممتاز مفتی کے گھر میں نہیں دیکھا۔ یہ کہاں سے آئے ہیں۔ پھر میں نے وہاں الٹی گنگا بہتے دیکہی۔ عکسی مفتی ، ان روتے بھین بھیں کرتے لوگوں کو دلاسادے رہے ہیں، ان کو گلے سے لگاتے ہیں ، چپ کراتے ہیں، تسلی دیتے ہیں۔ حوصلہ کرو، ہمت کرو ، ممتاز مفتی یہاں سے بہت خوشی خوشی گئے ہیں، آپ کے اس طرح رونے سے وہ دکھی ہونگے، آپ کو معلوم ہے ممتاز مفتی نے مجھ سے وصیت کرتے ہوے کہا تھا کہ جب وہ اس دینا سے جا رہے ہوں تو ان کے جنازے کے آگے آگے ڈھول بجاتے رقص کرتے لوگ ہوں، آپ رو رہے ہیں،آپ کوتو خوش ہونا چاہیے کہ وہ ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار کر گئے ہیں۔ لیکن عکسی مفتی کی آواز ان روتی چیختی سسکیوں میں ہی ڈوب گئی اور ممتاز مفتی کا جنازہ ڈھول کی تھاپ کے بغیر ہی اٹھا۔

ممتاز مفتی آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کا عکس کلی طور ہمارے بیچ ہی موجود ہے۔ زندہ و جاوید، جیتا جاگتا، ہنستا بولتا باتیں کرتا۔  ممتاز مفتی کا قلم آج بھی اسی روانی اور بے باکی سے چلتا ہے اوراللہ کی تلاش میں ہی سرگرم  نظرآتا ہے۔۔ ان کا مکتب آج بھی آباد ہے۔ آج بھی وہاں سے اردو ادب کی خدمت ہو رہی ہے، ادبی محفلیں سجتی ہیں، دوست احباب اکٹھے ہوتے ہیں،  ادب تخلیق ہو رہا ہے، کتابیں لکھی جاتی ہیں ۔ کتابیں چھپتی ہیں، مقبول ہوتی ہیں، سراہی جاتی ہیں، لیکن ان کتابوں میں کہانیاں کیا باتیں کرتیں ہیں،  مجھے کچھ معلوم نہیں، میرا، آواز کا وہ رشتہ اب ٹوٹ چکا ہے۔۔۔ آئی مس یو۔۔۔۔    ممتاز مفتی

عارف 2015-11-18

Back to top button