لکھ یار

اختیار

#اختیار

چہرے پر زردی مائل اجالا ، لئے وہ اندر سے بجھتی جا رہی تھی
“میرا فون تو نہیں بجا ؟”
اماں :۔ نہیں ، سکون سے کھانا کھاؤ !
“کیا کروں اماں ،نوالہ حلق سے اترتا ہی نہیں ، پورے چھ مہینے ہو گئے اسے گئے ہوئے !
اماں :- کتنی بار سمجھا چکی ہوں بہتے لمحوں اور بیتے دنوں کا سراغ نہیں ملا کرتا ، “
لیکن اماں ،وہ میرا سب کچھ ہے ، میں کیسے جئیوں گی “؟
اماں :- اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی تمھارے لئے کیا ہے ،فرق اس سے پڑتا ہے کہ تم کسی کے لیے کیا ہو ؟

“پر اماں ! ساتھ چلنے کا فیصلہ اس نے بھی تو کیا تھا ،”
اماں :- ضرور کیا ہو گا ، لیکن وقت کا بہاؤ اسے کسی اور سمت لے گیا ۔۔۔اب تم یہ دیکھو کہ یہ پانی تمھیں کہاں کا اشارہ دے رہے ہیں “

“اماں ۔۔۔کیا یہ بے وفائی نہ ہو جائے گی ؟
اماں :- دیکھ بیٹی ! بے وفا کوئی نہیں ہوتا ، زندگی کی گلیاں بہت پر پیچ ہیں ، کب ،کہاں کون کھو جائے ،کچھ پتہ نہیں چلتا ، لوٹنے کی خواہش بھلے ہو ، بس نہیں ہوتا ، ،
“لیکن اماں ، لوگ نبھاتے بھی تو ہیں ، ساری عمر !!”
اماں :- ہاں میری جان ! نبھاتے ہیں ضرور نبھاتے ہیں ، اتفاقات کے اس سلسلے میں جس کسی کی خواہش اور راستوں کی مرضی ،ہم رنگ ہو جائے ،اسے نبھانے والا ہی کہتے ہیں !!”
“اس کے راستے کے پڑاؤ اور تمھاری تھکن کی گھڑی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو جائے، تو دونوں باوفا ہو جائیں گے ”
“کیا کروں اماں ، یہ کرب نہیں سہا جاتا , “
اماں :- راستوں کی مرضی ہے ، چاہے ساتھ چلنے والوں کو خواب و خیال کر دے ، چاہے کسی اجنبی مسافر کو ہمسفر کر دے ، کب کر دے پتہ نہیں چلتا”

“اور اگر راستوں کی مرضی میری مرضی کی نہ ہو تو ؟”

اماں :- تو پھر تو اپنی مرضی کو راستوں کی منشاء پر ڈھال لے ،
راہ کا روڑا نہ بن ،کوڑا ہو جائے گی ۔
وقت کے ریلے میں پتھر بن کے ڈوب رہنا ہے یا لکڑی بن بہتے جانا ہے ، اتنا ہی اختیار ہے ، بس اتنا ہی !!!

رفعت شیخ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button