لکھ یار

بول میری مچھلی

#ایک_تصویر_سو_افسانے

 

ایک سکول کی طرف سے دو بچوں کو اعزازی کھانے کی دعوت دی گئی ، دو ٹیبل لگائے گئے ، دونوں بچے ایک ہی وقت میں دونوں میزوں پر پہنچے ، ایک میز پر ، ایک سادہ سا کھانا تھا اس میز کے بچے نے قسمت کا سمجھ کر کھانا شروع کر دیا جبکہ دوسرے میز پر پانچ طرح کے کھانے تھے اور وہ دوسرا بچہ پہلے بچے کی میز کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے اپنی میز کی طرف بڑھا۔ کیا دوسرے بچے کو قسمت کا لکھا سمجھ کر کھانا چاہیے یا اس فرق پر غور کرنا چاہیے۔

 

عالم محشر برپا تھا ، حق ، حق دار تک پہنچ رہا تھا ، انصاف کا دن تھا ، وہ انصاف دیا جا رہا تھا جس کا وعدہ کیا گیا۔

یہاں بھی دو مختلف بچے لائے گئے ، دونوں کو نہانے کے دو مختلف ٹب میں کھڑا کیا گیا اور کوئی فرشتہ آواز لگاتا ہے :

بول میری مچھلی کتنا کتنا پانی۔

اچانک سے ایک ٹب چھوٹا سا پانی کا تالاب بن جاتا ہے جبکہ دوسرا ٹب بہت بڑا سمندر۔

فرشتہ دونوں بچوں سے پوچھتا ہے : بول میری مچھلی بے مول نعمت کا کتنا کتنا حساب ، کہاں خرچ کیا اتنا پانی؟ تالاب والا بچہ کہتا ہے ، میری ضرورت سے کم تھی یہ نعمت پھر بھی میں شکر گزار کیا حساب دوں ؟

دوسرا سمندری بچہ کہتا ہے ، مجھے تو قدرت نے خود ہی بے حساب دیا ، میں نہ لے کر نا شکرا نہیں ہو سکتا تھا بھلا میرا کیا حساب؟

آواز آتی ہے : جنت تو تم دونوں کو ملے گی مگر کیوں نا ، دنیا کے غریب کو جنت میں امیر کر دیا جائے اور دنیا کے امیر کو جنت میں غریب بنایا جائے ، کیا کہتے ہو۔

 

دس پندرہ برس سے جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اس نے ہر سال کم از کم یہ خبر تو ضرور سنی تھی کہ تھر پارکر کے علاقے میں سو سے زائد بچے بھوک اور پیاس سے مر گئے ہیں ، جن کی رپورٹ ہی نہیں ہوئی ان کا حساب ہی نہیں اور اسے رہ رہ کر یہ خیال ضرور آتا تھا کہ ملک میں نا جانے ایسے کتنے پارکر تھر ہیں ، یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنے بچے جانے کس قوم کے لیے عبرت بنے یا رہ دکھانے آتے ہیں۔

 

بول میری مچھلی کتنا کتنا پانی۔۔۔

گھٹنے گھٹنے پانی۔۔۔

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button