شخصیت پرستی ۔ لائبہ خان
شخصیت پرستی ایک شخصی کمزوری ہے۔ایسی کمزوری جو سوچ کے در بند کر دیتی ھے،نیرنگی خیال کے لئے کوئی روزن ہی نہیں چھوڑتی۔ تخیل کے آزاد پنچھی کے پر کاٹ دیتی ھے۔عقل پر ایسا کاری وار کرتی ھے کہ خود عقل کو بھی سمجھ نہیں آ تا کہ اسکے ساتھ کیا ستم کی چال چل دی گئ۔ کہتے ھیں حکمت کا موتی جہاں سے ملے اسے لے لینا چاہیے،مگر یہ بات کسی شخصیت پرست کو سمجھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔انہیں حکمت کے موتی سے زیادہ اسکے وارث سے مطلب ہوتا ھے۔اگر وارث انکا من پسند ھو تو اسکی ہر بات آمنا و صدقنا اور اگر ایسا نہ ہو تو کیچڑ میں کنول تو دور کی بات ھے انکو طاق میں سجا موتی بھی منظور نہیں۔دو شخصیت پرست اگر آمنے سامنے آ جائیں تو وہ کیسا فساد برپا کرتے ھیں اسکا ملاحظہ کرنے کے لیے گروپ کی سیاسی پوسٹس کافی ھیں۔اختلاف رائے اور صحتمند مکالمہ کس چڑیا کا نام ہے کوئی ان سے مت پوچھے۔مختصرا یہ کہ شخصیت اگر میری من بھاتی ھے تو اسے سات خون بھی معاف ہیں اور اگر اسکے برعکس ہو تو مجھے آتی جاتی ھوا سے بھی لڑنا واجب۔میری بات کلمہ حق تو دوسرے کی کلمہ کفر۔میری عقیدت پر حرف نہ آئے دوسرے کی چاہے سر سے پگڑی بھی جائے….میری بلا سے کیونکہ میرا کاں چٹا ھے اور میری چماٹ کی آواز میرے دلائل سے اونچی ھے۔