پاکستانی ثقافت
عکسی مفتی نے کتاب “پاکستانی ثقافت ” دُکھتے دل اور نہایت مخلص جذبات کے ساتھ لکھی ہے ۔ کتاب کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جس شخص نے اپنی زندگی اس سرزمین کی ثقافت کو سمجھنے میں صرف کی، آج وہ اس مخمصے میں مبتلا ہے کہ وہ لوگوں کو کیسے بتائے کہ ثقافت کیا ہوتی ہے؟ اس کی کس قدر اہمیت ہے؟ اور ثقافت کے بغیر باہمی رواداری، امن اور ملک کی معیشت کو استحکام دنیا ممکن نہیں۔
اس کتاب کی تحریر کے ساتھ ایک کہانی جڑی ہے۔ یہ ایسی ہی کہانی ہے جیسے اس مٹی میںرچی بسی کئی لوک کہانیاں ہیں جنہیں عکسی مفتی نے سالہا سال تلاش کیا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ حکومت نے پاکستانی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ وزیر صاحب نے عکسی مفتی کی گراں قدر خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں کمیٹی کا چئیر مین منتخب کیا۔ ایک روز معمول کی میٹنگ کے بعد وزارت کے ایک اعلیٰ افسر مفتی صاحب کے پاس پہنچے اور یوں گویا ہوئے، ’مفتی صاحب کیا پاکستان میں کوئی ثقافت نام کی چیز موجود ہے؟‘ ایک ایسا شخص جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس ملک کی ثقافت کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں کی مانند جانتا ہے اس کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی وجہ باقی نہ رہی کہ وہ پاکستان کی ثقافت کو فروغ دینے اور اسے نوجوان نسل سے متعارف کروانے کے لئے اپنے تجربے کی روشنی میں کتاب لکھے۔
مصنف کا خیال ہے کہ وطنِ عزیز کے معاملات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک کہ حکومت اس ملک کی ثقافت کو نہیں سمجھے گی۔ ثقافت کے فروغ سے ہی ملک میں انتشار کا خاتمہ ممکن ہو گا اور ترقی کا دروازہ کھلے گا۔