کتاب : تلاش
باب 4 : بڑی سرکار
ٹرانسکرپشن : ایمان عائشہ
انٹیوشن
میں نے کہا: ” ان کے اندازے Intution کے زور پر ہوتے تھے، تمھارے
اندازے مشینوں کے ٹیسٹوں کے زور پر ہوتے ہیں ۔”
صاحبو ! ہم نے اس حقیقت کو آج تک نہیں مانا کہ جتنا علم جتنی دانش آج ہمارے پاس ہے، سب Intution سے آئے ہیں۔ انٹیوشن کیا ہے ؟ علم و دانش کا قطرہ قطرہ جو اللہ میاں انسانی ذہن میں ٹپکاٹا رہتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ تمام ڈسکوری ( Discovery) تمام انونشن (Invention) کی پشت پر انٹیوشن کارفرما ہے۔ سب سے پہلے انکشافات شاعروں کے ذریعے اتارے جاتے ہیں ۔ پھر محققوں کو عطا کیے جاتے ہیں۔ انٹیوشن درحقیقت وحی ہے۔ قطرہ قطرہ ہو تو انٹیوشن دھارا ہو تو وحی۔ ترسیل (Indirert) ہو تو انٹیوشن ڈائریکٹ (Direct) ہوتو وحی سمندر ہو تو قرآن
کہتے ہیں پرانے زمانے میں ایک قبیلہ سمندر سے بہت فاصلے پر آباد تھا۔ انھوں نے کبھی سمندر نہیں دیکھا تھا۔ یہ لوگ پانی کو” آنٹاؤ “کہتے تھے۔ اس قبیلے کا ایک شخص سفر پر گیا تو اتفاقاً سمندر دیکھ آیا، واپس آکر اس نے اپنے قبیلے والوں کو سمندر سمجھانے کی کوشش کی ۔
بولا : ” آنٹاؤ ۔ آؤ آؤ آؤ آؤ آؤ…. یعنی پانی ہی پانی، پانی ہی پانی، پانی ہی پانی ۔ ایسے ہی قرآن علم و دانش کا ایک سمندر ہے۔ قرآن حکیم منفی اصولوں کا پرچار نہیں کرتا ۔ یہ نہیں کہتا کہ شک کرو بلکہ کہتا ہے کہ دیکھو، غور سے دیکھو، سمجھنے کی کوشش کرو، پھر کوشش کرو ۔ پھر کوشش کرو بات سمجھ میں نہ آئے تو ان لوگوں سے پوچھو جو جانتے ہیں پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو کوئی رائے قائم نہ کرو، نہ مانو نہ رد کرو یعنی Opinion Suspend کردو۔
آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے کہہ دیا تھا کہ” زندگی” کی ابتدا پانی سے ہوئی ۔ اس پر دانشوروں نے کہا: ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زندگی پانی سے بنی ہو؟” انھوں نے اس بات کو مذاق میں اڑا دیا ۔
پھر بارہ سو سال کے بعد کسی محقق نے خوردبین ایجاد کردی، خوردبین کی ایجاد کے بعد پانی میں جھانکنا ممکن ہو گیا۔ پھر جو پانی میں جھانکا تو سائنس دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ
پانی زندگی کے جرثوموں سے بھرا پڑا ہے۔