کتاب : تلاش
باب 9 : کریش سولائزیشن
ٹرانسکرپشن : محمد مبشر اعوان
چالیس نمازیں
میں نے 1968 ء میں حج کیا تھا۔ فریضہ حج ادا کرنے کے بعد ہم مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ مسافر خانے میں چند ایک پاکستانی ہمارے ساتھ رہتے تھے۔
ان کا روز آپس میں جھگڑا لگا رہتا تھا۔ ایک کہتا تھا، بھائیو! مدینہ منورہ میں ہم نے 36 نمازیں پڑھی ہیں۔ دوسرا کہتا تھا، نہیں تمھاری گنتی ٹھیک نہیں۔ ہم نے صرف 34 نمازیں پڑھیں ہیں، چھ نمازیں پڑھنی باقی ہیں۔
پتا نہیں کیوں؟ لیکن یہ عام خیال ہے کہ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران چالیس نمازیں پڑھنا ضروری ہے، اس لیے زائرین نمازوں کا حساب رکھتے ہیں۔ ابتدائی ایام میں تو مدینہ منورہ میں حاضری کا جزبہ انھیں مسحور رکھتا ہے۔ گھر پہنچنے کی خواہش ابھرتی ہے۔ جی چاہتا ہے اڑ کر گھر جا پہنچیں۔ مدینہ منورہ میں حاضری کا احساس مدھم ہو جاتا ہے۔ واپسی میں حائل وہ چالیس نمازیں ہوتی ہیں جنھیں پڑھے بغیر حج یا عمرہ کا ثواب ختم ہو جاتا ہے، اس لیے تمام تر توجہ نمازوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ زائرین بھول جاتے ہیں کہ وہ کہاں بیٹھے ہیں، کن کی خدمت میں حاضری دے رہے ہیں، کن کے قدموں میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ جلد فرائض سے فارغ ہوں، گھر پہنچیں اور جا کر اپنے عزیزوں کو بتائیں کہ اس مقدس مقام سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ سبز جالی کو پکڑ کر بیٹھیں رہیں۔