کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : نوشابہ جواد
مٹی اور لذت
پھر ایک اور بات ہے جس میں ہانڈی کا جواب نہیں” ۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا ۔ بولا ” جب میں شیف تھا تو ایک روز میں نے ہوٹل کے مالک سے کہا ، “صاحب جی ! باورچی خانے میں پکیرے کے لئے برتن چاہئیں۔ “
وہ حیران ہوا ۔ بولا، ” باورچی خانے میں تو پکیرے کے لئے برتن سب نئے ہیں ۔ ہر برتن کے چار چار سیٹ ہیں۔ کسی برتن کی کمی نہیں ہے ۔”
ہاں کسی برتن کی کمی نہیں ہے۔” میں نے کہا ۔
پھر تم کونسا برتن مانگتے ہو ۔” اس نے پوچھا ۔
میں نے کہا ،” صاحب جی ! جس میں پکائے ہوئے کھانوں میں لذت چار گنا بڑھ جائے گی ۔”
اس نے میری بات سمجھی نہیں لیکن مان لی۔ کیونکہ یہ مغرب والے ہیں ۔ یہ کھانے میں پیورٹی کو مانتے ہیں ۔ نفاست کو مانتے ہیں۔ انہیں لذت کا شعور ہی نہیں۔ خیر جب میں نے اسے بتایا کہ” صاحب جی ! مجھے ایسے برتن چاہئیں جو مٹی کے بنے ہوں ۔ تو اسکے ذہںن کا فیوز اڑ گیا ۔
میں فاضل کی بات سن کر خود حیران ہوا ۔میں نے پوچھا” تو کیا تم نے وہاں مٹی کے برتن بنوائے ؟”
،فاضل بولا ” بھائی ! جو لذت مٹی کے برتن کے پکیرے میں ہوتی ہے وہ کسی اور برتن میں نہیں ہوتی ۔ مٹی کے برتن میں کھروڑے ڈال دو اور نیچے ہلکی آنچ جلا دو ، ساری رات پکنے دو ۔ صبح اس میں جو لذت پیدا ہو جاتی ہے اس کا جواب نہیں۔ پتا نہیں مٹی کنٹرولڈ ہیٹ پیدا کرتی ہے یا کیا؟ بس لذت ہی لذت ہو جاتی ہے ۔صرف گوشت ہی نہیں ،ثابت ماش پکا لو، چنے پکا لو ،اوجری پکا لو۔”
“مٹی کے برتنوں کی وجہ سے کیا فرق پڑا ؟” میں نے پوچھا۔
بولا ،” میں نے لوگوں کو لذت کی لت ڈال دی ۔ وہ وہ ہانڈیاں پکائیں کہ گوروں کے منہ میں رال چل پڑی ۔ بس جی! میں نے وہاں ایک بات سیکھی ہے کہ کھانوں میں ہانڈی اور مذہبوں میں اسلام دونوں کا جواب نہیں۔”
“ارے !” میں حیرت سے چلایا ۔ ” ہانڈی اور اسلام کا کیا جوڑ ہے؟”۔
وہ بولا : بھائی صاحب! ہانڈی بیلینسڈ فوڈ ہے اور اسلام بیلنسڈ مذہب ہے ۔ اسلام میں ہانڈی کی سب خوبیاں موجود ہیں۔دنیا بھی ہے، اللہ بھی ہے ، اسکی مخلوق بھی ہے ،مخدومی بھی ہے، محبت بھی ہے ،جہاد بھی ہے ، انتقام بھی ہے , رحم بھی ہے ، معافی بھی ہے ، سزا بھی ہے ۔ کیا بیلینسڈ مذہب ہے بھائی جی! دنیا سے بھی تعلق قائم رہے ۔اللہ سے بھی تعلق قائم رہے ۔
کماؤ کماؤ، دولت کے ڈھیر لگا دو ، مگر پھر بانٹ کر کھاؤ ۔
اپنے لئے بنگلہ بناؤ تو کسی غریب کے لئے ایک جھونپڑا بنا دو ۔
اپنے لئے ریشمی سوٹ بناؤ تو کسی حاجت مند کے لئے کھدر کا جوڑا بنوا دو۔ اپنے بیٹے کی فیس دو تو کسی غریب طالب علم کی فیس بھی ادا کر دو۔
فاضل جذباتی ہوگیا ۔ کہنے لگا “اسلام بھی کیا مذہب ہے ۔ بے شک دولت کی ریل پیل ہو لیکن دولت ایک جگہ ڈھیر نہ ہو ،چلتی پھرتی رہے ۔ بانٹنا سیکھ لو تو سرمایہ دارانہ نظام قائم نہیں ہوتا۔”
فاضل سے مل کر میں واپس آرہا تھا تو میرے ذہن میں کھتر پتر ہو رہی تھی ۔ فاضل کے ذہن میں اسلام کی تصویر کتنی سادہ تھی ۔لیکن ہمارے راہبروں نے خوامخواہ پیچیدگیاں پیدا کر رکھی ہیں ۔
گھر پہنچا تو ڈاکٹر بیلا میرا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ مجھے دیکھتے ہی چلایا ۔” کیوں کیا ہوا؟”
“کچھ بھی نہیں ۔” میں نے جواب دیا ۔
“جھوٹ” وہ بولا، ” تمہارے اندر تو کھچڑی پک رہی ہے ۔غدر مچا ہوا ہے اور تم کہتے ہو کچھ بھی نہیں۔”
میں نے کہا ۔ “پیرس کے باورچی کی باتیں سن کر آرہا ہوں ۔ کہتا ہے کہ دنیا میں دو چیزیں لاجواب ہیں ۔کھانوں میں ہانڈی اور مذہبوں میں اسلام ۔”
” ارے ! “ہانڈی کا کیا مطلب ؟”
میں نے کہا ” ہماری ہانڈی مٹی کی جس میں ہم آلو گوشت پکاتے ہیں ، کدو گوشت پکاتے ہیں۔ “
“بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ” بیلا نے کہا ۔
میں نے تفصیل سے اسے بات بتائی ۔
کہنے لگا۔ “یار ! جب ہم میڈیکل کالجوں میں تھے تو وہاں ایک پروفیسر تھا، ڈاکٹر جدون ۔ وہ بھی ہانڈی کا بڑا قائل تھا ۔ اس کے گھر میں کھانا مٹی کی ہانڈی میں پکتا تھا۔اور وہ کچے گھڑے سے پانی پیتا تھا ۔ کہتا تھا کہ مٹی کا گھڑا پانی کی سب impurities کو چوس لیتا ہے ۔ عجب خیالات تھے اسکے ۔بڑا پڑھا لکھا تھا ۔ یورپ اور امریکہ میں پندرہ سال گزار کے آیا تھا۔ ہم اسے جدون کے بجائے ڈاکٹر جنون کہا کرتے تھے ۔وہ عجیب باتیں بتایا کرتا تھا ۔”
ڈاکٹر بیلا ہنسنے لگا ۔ بولا ” ان دنوں ہم بھی اسے جنونی سمجھے تھے ۔”
“کہتا کیا تھا؟” میں نے پوچھا۔
بولا ،” کہتا تھا کہ اگر اللہ پر سچے دل سے ایمان لے آؤ تو پچاس فیصد بیماریوں سے immune ہو جاتے ہو ۔مطلب ہے کہ پچاس فیصد بیماریوں سے محفوظ ہو جاتے ہو ”
اور کہتا تھا، “اگر اللہ سے تعلق پیدا کر لو تو تم میں اتنی resistance پیدا ہو جاتی ہے کہ بیماری حملہ کرے بھی تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔”
“حیران کن بات ہے ” میں نے کہا ۔
“جب حیران کن تھی ،اب نہیں ۔”
بیلا نے کہا کہ پروفیشن میں آنے کے بعد بڑے راز کھل جاتے ہیں ۔” وہ ہنسنے لگا ۔ پھر بولا ,”پروفیسر جنون کبھی موڈ میں آتا تو کھل کے دل کی بات کیا کرتا تھا۔ کہتا تھا، ” بوائز ! ہم بڑے احمق ہیں جو اب تک سمجھتے ہیں کہ جسم بیماری جنریٹ کرتا ہے ۔ یہ غلط ہے ۔ جسم نہیں ، ذہںن بیماری جنریٹ کرتا ہے۔ ہم صرف ظاہری اعضاء کو اہمیت دیتے ہیں ۔ دل جگر ، پھیپھڑے گردے ،
وہ اعضاء جو ذہنی خیالات اور جذبات سے reactivate ہوتے ہیں ۔ وہ ڈھکے چھپے ہیں ۔ مثلاً غدود ہیں ،جھلیاں ہیں ،نسیں ہیں ۔ ان سے عجیب و غریب قسم کی رطوبتیں نکلتی ہیں جو ہمارے جسم پر اثر رکھتی ہیں ۔
پروفیسر کہا کرتا تھا ” جدید سائنس سے اب یہ بات طے شدہ ہے کہ انسانی جذبات میں سب سے زیادہ اثر رکھنے والا بنیادی جذبہ خوف ہے ۔ پھر خوف کے بچونگڑے ہیں ۔ جس طرح شیطان کے شتونگڑے ہوتے ہیں ۔
مثلاً کشمکش ہے ،انگزائٹی ، وہم، فکر ، تذبذب ہے ۔
یہ سب جذبات انسان کے معدے پر اثر رکھتے ہیں ۔ تیزابیت پیدا کرتے ہیں ۔ السر بناتے ہیں ۔
اگر ایک اللہ پر یقین کامل ہو ۔ اگر دل میں یہ یقین ہو کہ نہیں کوئی خوف اور نہیں کوئی قوت ، ماسوائے اللہ کے، تو انسان ان irrational fears سے نجات پا جاتا ہے ۔”
پروفیسر جدون کہا کرتا تھا کہ” اللہ ایک سرہانہ ہے ۔جس پر سر رکھ دو تو تم ان پریشانیوں اور ڈب جھلکوں سے آزاد ہو جاتے ہو ۔ اور اسلام کیا ہے؟
اسلام انسان کو ان منفی خیالات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ شر سے بچاتا ہے
نفرت ، غصہ ، دشمنی ، انتقام ، حسد جیسے منفی خیالات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ منفی جذبات ہمارے جسم کے غدودوں سے زہریلی رطوبات خارج کرتے ہیں ۔ اسکے برعکس محبت، خدمت ، ہمدردی ایسے مثبت جذبات صحت مند رطوبات پیدا کرتے ہیں ۔”
بیلا کی باتیں سن کر میں مزید سوچوں میں پڑ گیا ۔ پتا نہیں ہمارے رہبر ہم میں خوف کا جذبہ کیوں پیدا کرتے ہیں ۔ کیوں منفی باتوں پر زور دیتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کبھی اس بے پایاں حسن کی بات نہیں کی جو دنیا میں ہمارے گرد چاروں طرف پھیلا ہوا ہے ۔ اس خیر کے جذبے کی بات نہیں کرتے جو ہمارے دل میں جا گزیں ہے ۔ اس رحمت ، کرم اور نعمتوں کی بات نہیں کرتے ۔جو اللہ نے ہمیں عطا کر رکھی ہیں ۔ اس شرف کی بات نہیں کرتے جو باری تعالٰی نے انسان کو عطا کر رکھا ہے ۔
صاحبو ! قرآن کے متعلق صاحب نظر بزرگ کہتے ہیں۔ کہ وہ گلاب کے پھول کے مصداق ہیں ۔
اوپر کی پتی اٹھاؤ تو نیچے سے ایک اور پتی نکل آتی ہے ۔ نچلی پتی اٹھاو تو اس کے نیچے سے ایک اور پتی نکل آتی ہے ۔ پتی کے نیچے پتی ، پتی کے نیچے پتی ، پتی کے نیچے پتی ۔ ایسے ہی قرآن پاک میں مفہوم در مفہوم ہیں ۔
جتنا غور کرو اتنا گہرا مفہوم ۔
ہمارے رہبر صرف اوپر کے مفہوم کو آخری مفہوم سمجھتے ہیں ۔ اور اسکا ڈنکا بجاتے رہتے ہیں ۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ بار بار فرماتے ہیں کہ ہماری کائنات کو دیکھو ۔ سرسری طور پر نہیں ، غور سے دیکھو ۔ خالی دیکھو نہیں ۔ فکر کرو ، سمجھو ۔ پھر دیکھو اور سوچو ،پھر دیکھو اور سوچو۔
قرآن کو پڑھو ۔ سرسری طور پر نہیں ۔ غورو فکر سے پڑھو اور سمجھو ۔ پھر پڑھو اور سمجھو ۔ پھر وہ لمحہ آئے گا جب قرآن کے اشارات کے حوالے سے تم کائنات کے راز پا لو گے۔
ہمارے راہبروں میں کائنات پر غور و فکر کرنے اور کائنات کے راز پانے کی خواہش نہیں ہے ۔ انہیں قرآن کو سمجھنے کی خواہش نہیں ہے ۔ وہ تو صرف قرآن کی تلاوت کرنے کے خواہش مند ہیں ۔صرف اس لئے کہ ثواب کمائیں ۔ بہشت کے حق دار ہو جائیں ۔
دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں ۔ پھلدار درختوں کی ٹہنیاں اشارے سے نیچے ہو جائیں ۔ پھر خوبصورت حوریں ۔
صاحبو ! قرآن ایک حیرت انگیز کتاب ہے ۔ ایسی کتاب جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
آج دنیا بھر کی لائبریریاں کتابوں سے بھری ہوئی ہیں ۔علم کے ہر شعبے پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں ۔
مذہبی کتابیں ، سائنس کی کتابیں ، فنی کتابیں ۔
ان لاکھوں کروڑوں کتابوں میں ایک کتاب بھی قرآن جیسی نہیں ہے . قرآن پاک کا رویہ انوکھا ہے ۔ اسکے موضوعات انوکھے ہیں ۔اس کے اشارے انوکھے ہیں ۔
ہم عام مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن اسلامی کتاب ہے ۔ قرآن میں باری تعالیٰ مسلمانوں سے مخاطب ہے ۔ نہیں ، ایسا نہیں ہے ۔ یہ کتاب تو بنی نوع انسان سے مخاطب ہے ۔
ایسے ہی محمد صلى الله وسلم کا کردار ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار صرف مسلمانوں کے لئے ہی مثالی کردار نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لئے مثالی کردار ہے ۔
ہم عام مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن عام مذہبی کتاب ہے ۔ یہ ہماری کوتاہ فہمی ہے ۔
قرآن تو کائناتی کتاب ہے ۔ اس میں کائنات کے رموز و اسرار پر اشارے ہیں ۔
جو بیک وقت ظاہر بھی ہیں ، مخفی بھی ہیں ۔
قرآن کے اشارات کائناتی بھیدوں کا راستہ تلاش کرنے پر ہمیں اکساتے ہیں ۔ راستہ دکھاتے ہیں ۔
قرآن تاریخی کتاب ہے ۔ اس میں وہ واقعات درج ہیں جو تاریخ ریکارڈ کرنے کے زمانے سے پہلے وقوع پذیر ہوئے تھے۔
قرآن اخلاقیات کی کتاب ہے جس میں انسانی برتاؤ ہیں۔ اخلاق کے اصول درج ہیں ۔ قرآن صحتِ عامہ کی کتاب ہے ، جس میں حفظانِ صحت کے اصول درج ہیں ۔ اور ادویات کا تذکرہ ہے ۔ ایسی ادویات جو ہمیشہ کے لئے شفا بخش ثابت ہوتی ہیں ۔
برسبیلِ تذکرہ ،صاحبو ! آج کے اخبار میں ایک حیران کن خبر درج ہے ۔ پی آئی ایم ایس ہسپتال میں ایک جھلسی ہوئی مریضہ آئی ۔ چولہا پھٹنے کی وجہ سے اسکا چہرہ جھلس کر مسخ ہو چکا تھا۔
جسم جھلس گیا تھا ۔ ڈاکٹروں کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں ۔ انہوں نے اسے لا علاج قرار دے دیا ۔ شہر سے ایک خاتون آئی جو قرآنی ادویات کی قائل تھی ۔ اس نے ڈاکٹروں سے کہا ،” آپ مریضہ کی زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں ۔ اب مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کا علاج کروں ۔”
ڈاکٹروں نے اجازت دے دی ۔ خاتون نے مریضہ کے جسم اور چہرے پر شہد کا لیپ کر دیا ۔ تین دن وہ لیپ کرتی رہی ۔ مریضہ میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی ۔ اور اب اسکا چہرہ اور جسم رو بہ صحت ہے ۔
صاحبو ! قرآن کا جواب نہیں ۔ جواب کیسے ہو ۔ یہ اللہ کا کلام ہے۔ لا شریک اللہ کا ، قادر مطلق اللہ کا ۔
اللہ کا بھی جواب نہیں ۔ اللہ بیک وقت محبوب بھی ہے ۔ بہت بڑا محبوب ۔
کہتا ہے ۔ میری طرف دیکھو ، میری بات کرو ، میرا نام جپو ، مجھ سے یارانہ لگاؤ ، میرے عشق میں سرشار رہو۔
اللہ بہ یک وقت محبوب بھی ہے اور عاشق بھی ہے ۔ وہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے ۔ ہر ذی روح کا خیال رکھتا ہے ۔
لاڈ لڈاتا ہے ۔ کھلاتا ہے، پلاتا ہے ۔ کسی کو تکلیف نہ ہو ۔ رزق ملتا رہے ۔ نعمتوں کی بارش ہوتی رہے ۔
یہ عاشق اپنی مخلوق پر بکا ہوا ہے ۔ در پردہ ۔
صاحبو ! میں نئی نسل کا ایک نوجوان ہوں ۔ مغربی لٹریچر پر پلا ہوں ۔ مغرب زدہ ہوں ۔ مغربی فیشن کا دلدادہ ہوں ۔
پہناوے میں بھی ، خیالات میں بھی ۔ مزاج کا سیکولر ہوں ۔
سیکولر ازم کے مفہوم کا پورے طور پر شعور نہیں ہے ۔ صرف چالو معنے سمجھتا ہوں۔ وہ یہ کہ مذہب برائے نام چیز ہے ۔ اہم نہیں ۔ اسکے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے ۔
اللہ کو مانتا ہوں منہ زبانی ۔ ہے ۔ ہو گا ۔
کیا فرق پڑتا ہے ۔
محترم علمائے دین ! اللہ کے واسطے مجھے رد نہ کیجیے ۔ مجھ پہ لاحول نہ پڑھیے ۔ مجھے ملحد یا کافر نہ سمجھیے ۔ مجھ سے نفرت نہ کیجیے ۔
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے ۔ میں آپکی ہمدردی کا مستحق ہوں ۔ آپ کی توجہ کا محتاج ہوں ۔