آخری جنگ.. تبصرہ :عباس فاروق
مصنف: ابو یحیی
ناول : آخری جنگ
اس ناول کے مصنف ”ابو یحیی“ ایک سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین لکھاری بھی ہیں اور ان کی پہلی کتاب ”جب زندگی شروع ہوگی“ نے خوب کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے اور نمبر ون سیلنگ بک ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کے اسی تسلسل کو قاٸم رکھتے ہوۓ ایک اور کہانی ”آخری جنگ“ مجھے بہت بہترین لگی۔
جیسا کہ ناول کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں کسی جنگ کا پیغام ہے۔ دراصل روزے ازل سے انسان اس زمین پر ایک جنگ ہی تو لڑ رہا ہے۔ کبھی اپنوں سے جنگ ، کبھی بیگانوں سے جنگ تو کبھی اپنی ہی ذہنی الجھنوں سے جنگ لیکن پھر بھی آج کا انسان علم ہونے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کی اصل جنگ آخر ہے کس سے؟
اپنے دشمن کو جاننے کے باوجود بھی اس کی چالوں سے لاعلم ہو کر اس کے بہکاوے میں آ جاتا ہے
” اس کتاب میں انسان کو اپنے اسی دشمن سے روشناس کروایا گیا ہے کہ جو اس کا اصل دشمن اور اصل حریف ہے اور یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انسانوں کو اپنا دشمن سمجھنے کی بجاۓ، انسانوں کو برا جاننے کی بجاۓ اگر ہم اپنے اس اصل دشمن کو پہچان جاۓ جس نے انسانوں کو قیامت تک صراطِ مستقیم سے ہٹانے کی اللہ سے مہلت مانگی ہے تو انسان کے انسانوں سے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ “
جی ہاں! یہ جنگ انسانوں اور شیطانوں کے درمیان کی ہی جنگ ہے جو ہماری لڑی جانے والی سب سے آخری جنگ ہوگی۔
یہ کہانی اپنے مرکزی کردار ” عبداللہ “ کے گرد گھومتی ہے جو کہ ایک مزہبی سکالر ، لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ” موٹیویشنل سپیکر “ بھی ہے اور جس سے شیطان سخت پریشان ہیں اور اس کا اپنا حریف مانتے ہیں۔
” اور اس کو پھنسانے اور اللہ سے دور کرنے کی ہی غرض سے ایک انگریز عورت ”مارگریٹ“ کو اس کے پاس ایک نہایت غلط فعل کی غرض سے بھیجتے لیکن ” مارگریٹ “ عبداللہ سے ملاقات کے بعد اسلام قبول کر لیتی ہے۔ لیکن کیسے؟
یہ ایک نہایت دلچسپ واقعہ ہے جس کے لیے آپ کو یہ کتاب پڑھنی ہوگی۔ “
اس کہانی کی دوسری اہم کردار عبداللہ کی بیوی ” ناعمہ “ ہیں جو کہ ایک بہت نیک خاتون ہیں اور عبداللہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ہر نیک کام میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔
اور ” داود “ جو کہ آثارِ قدیمہ پر ریسرچ کر کے اس کے قدیم رازوں سے روشناس ہو کر اسلام قبول کرنے والا ایک نو مسلم ہے اور عبداللہ کے ساتھ مل کر یہ راز ساری دنیا تک پہنچانے کا خواہش مند بھی ہے۔
ان سب کی کہانیوں سے ایک الگ کہانی دو خاندانوں کی بھی ہے جس کا مرکزی کردار ” سارہ “ ہے۔ جو ایک نہایت پر خلوص بیوی، بہو اور ایک نیک دل انسان ہے۔
جس کی ایک جانب اس کا سسرال ہے اور دوسری جانب اس کا میکا۔ جس کی ماں ” جمیلہ “ ایک بہت ہی نیک اور سادہ خاتون ہیں جبکہ چھوٹی بہن ” صبا “ دین سے ایک بیضار لڑکی اور اس کے دونوں بھاٸی ” جنید “ اور ” سعد “ بے روزگار اور خود سے مایوس۔
جبکہ ” سارہ “ کے سسرال میں اس کی ساس ایک نہایت
” غصیلی و ظالم خاتون “ ہے اور نند ” نبیہہ “ ایک نہایت
” مغرور و خود غرض “ لڑکی ہے اور سارہ ان دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہ دونوں اس پر طنز کے تیر چلانے کا کوٸی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ لیکن اس سب کے باوجود سارہ کیسے ان کے دل میں گھر کر کے ان کو اپنا بنا لیتی ہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ امر ہے۔
” نبیہہ “ اپنے شوہر ” خالد “ سے انتہاٸی ناخوش ہے لیکن اس کی وجہ بھی ان کا اپنا مغرور رویہ ہی ہے۔
ان سب کرداروں کی ملاقت کہانی کے مرکزی کردار
” عبداللہ “ سے تو کہی نا کہی ہوتی ہی ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ پیغام واضح ہے کہ شیطان سے انہیں اپنی جنگ خود ہی لڑنی ہے۔
اس ناول کی دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں انسان اپنی پریشانیوں میں گھیرے ہوۓ ہیں اور ان کے حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو وہی شیاطین بھی اپنے عزاٸم کو پورا کرنے کے لیے محفلیں جماۓ بیٹھے ہیں، ان کے بیچ ہونے والی گفتگو ، جدوجہد ، مقاصد کو نہایت مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
ان سب انسانوں کی کہانیوں میں دکھایا گیا ہے کہ ان میں سے ہر کوٸی ایک جنگ لڑ رہا لیکن ان میں سے کتنے لوگوں کو احساس ہوتا ہے، کہ ان کی حقیقی اور آخری جنگ ہے کس سے؟
یہ جنگ کسی انسان سے نہیں بلکہ شیطان سے ہے اور وہی ہے آخری جنگ۔
جو کہ ایک کھلا اعلان ہے شیطان سے جنگ کا۔