تنہائ کے سو سال… تبصرہ:وقار کنول
تنہائی کے سو سال
گبریل گارشیا مارکیز۔
گبریل گارشیا مارکیز لاطینی امریکی لکھاری ہیں اس ناول کے متعلق لکھتے ہیں کہ
اس ناول کا خاکہ بہت عرصہ قبل میرے ذہن میں موجود تھا بس میں اسے شروع نہیں کر پا رہا تھا اس کی شروعات اور کہانی کا آغاز مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کافی عرصہ ایسے ہی گزرا پھر ایک دن میں اپنے بچوں اور بیگم کے ساتھ کسی تفریحی مقام کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس ناول کی کہانی کا آغاز میرے ذہن میں آیا میں نے کشمکش میں اپنی بیگم سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے فورا گاڑی واپس گھما لی گھر کی جانب میں نے کہا بھی کہ تمھارا دن خراب ہو جائے گا لیکن اس نے مجھے گھر کے عقبی طرف سٹور نما کمرے میں بند کر کے سانس لیا جہاں پھر یہ سارا ناول تخلیق ہوا ۔
مزید لکھتے ہیں کہ
میں اس ناول کو لکھتے ہوئے سوچا کرتا تھا کہ یہ بلکل مقبول نہیں ہو سکتا زیادہ سے زیادہ میرے دوست اسے پڑھیں گے تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ عام قاری سے زیادہ میں نے اپنے دوستوں کے ری ایکشن کو زہن میں رکھتے ہوئے لکھا، واضح رہے کہ ان کا یہ ناول تنہائی کے سو سال ان کے نوبل پرائز کی وجہ بنا اور تقریبا ہر لسٹ میں دنیا کے بہترین ناولز میں اوپر والے نمبرز پر موجود ہے۔
کہانی کی بات کریں تو کہانی ایک بوئندا خاندان کے سو سالہ زندگی کے سفر پر مشتمل ہے کئی نسلوں پر محیط یہ سفر خاندان کے عروج و زوال کے ساتھ جنگ اور مادی ترقی کو بیان کرتا ہے کہ کیسے پکھی واس خانہ بدوش لوگوں کی شعبدہ بازی سے لیکر جنگ اور معاشرے کو بیان کرتا ہوا ٹرین کے کے ارتقاء کی طرف جاتا ہے۔
مارکیز اپنے ناولز میں جادوئی حقیقت نگاری کا اسلوب بیان کرتے ہیں قاری جو پہلی بار مارکیز کو پڑھے اسے شائد انداز بیاں اور کہانی کی بنت تھوڑی پیچیدہ یا الجھی ہوئی لگے لیکن ایک بار آپ مارکیز کے اسلوب کو سمجھ جائیں تو آپ کو اس عظیم مصنف کا گرویدہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، کہانی میں پرت در پرت سو سالہ تنہائی کے سفر کے ساتھ ساتھ اداسی کا ایک ایسا سماں باندھا گیا ہے کہ اس کی گرفت سے نکلنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔
اگر آپ اداسی، تنہائی ، جنگ،فراغت ، وقت کی روانی، فرصت کا عذاب، جنسی روئیے اور بے مقصدیت جیسے الفاظ کی روح کو سمجھنا چاہیں تو یہ ناول ان سب لفظوں کے معانی و مفہوم لئے ہوئے ہے اور بلاشبہ زہن پر شاندار اثرات چھوڑتا ہے۔
ادب ہر شخص پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتا ہے اور ہر کسی کے لئے سیکھنے یا سمجھنے کو مختلف سوچ یا فکر عطا کرتا ہے لیکن میں اس کا خلاصہ یا حاصل لکھوں تو مجھے لگتا ہے کہ
جب قوموں کے پاس کرنے کو مثبت سرگرمیاں نا ہوں تو قوم منفیت کی طرف رحجان رکھے گی جب کھیل کے میدان آباد نا ہوں تو جنگ کا میدان سجے گا ، جب ادب و فن کی ترویج نا ہو تو جنسی روئیے بد سے بدتر ہوں گے جب خوشی کے مواقع اور تہوار نا سجیں گے تو ہمہ گیر اداسی اور تنہائی و چڑچڑا پن قوم کا عکاس ہو جائے گا۔
ملیے تنہائی کے سو سالوں سے
اس کتاب کا اردو ترجمہ رؤف کلاسرہ صاحب کے بھائی نعیم کلاسرہ صاحب نے کیا ہے۔ شنید ہے کہ اس ناول پر فلم مارکیز صاحب کے بیٹے کی زیر نگرانی بن رہی ہے اگرچہ مارکیز نے زندگی میں اس کی فلمی حقوق فروخت نہیں کئے کہ اس کی روح سے شائد انصاف نا کر سکے۔