قید… تبصرہ:مزمل چوہدری
قید عبد اللہ حسین
آدم جی ایوارڈ یافتہ لکھاری کی تخلیق قید اپنا تعارف خود ھے.
کہانی کا پلاٹ پھول کی پتیوں کی طرح بکھرا ھوا ٹکڑیوں میں بٹا ھوا مگر مربوط ھے.
ناولٹ میں قید ایک کثیر الجہتی اور متنوح استعارہ ھے. ضعیف الاعتقادی کی نفسیاتی قید کو پیری فقیری کے نظام کے ذریعے واضح کیا گیا ھے.
پورے ناولٹ میں قید ایک unsaid بیانیہ کے طور پر موجود ھے. قید کا جھومر اس کا نسائی کردار رضیہ سلطانہ ھے. جو عام ناولز سے ھٹ کر ایک انقلابی کرادار ھے.
رضیہ کے کردار کی ایک جھلکی ملاحظہ ھو.
“اس کے وطیرے میں ایک ایسی لپک تھی جیسے وہ زندگی کے لحظے لحظے کو ہوا سے نوچ لینا چاھتی ھو”. اس male dominating معاشرے میں رضیہ عورت کو ایک خلا میں محسوس کرتی ھے. اس کا یہ فقرہ عورت ذات کے فکری انتشار کو خوب بیان کرتا ھے. جب وہ کرامت علی سے کہتی ھے
“تمہاری عوام میں ہم لوگ کہاں ھیں ہم جو جانکنی کے عالم سے گذر کر زندگی کو پیدا کرتی ھیں”.
ناولٹ میں احمد شاہ کا کردار مذھب کے ٹھیکیداروں کا نمائیندہ کردار ھے. جو ہر سانس پر تسبیح پھیرتا ھے مگر رضیہ کے نومولود کو اس لیئے سنگسار کردیتا ھے کہ وہ حرامی ھے.
رضیہ کا یہ فقرہ مجموعی نسوانی نفسیاتی تجزیہ کے المیہ کا کس قدر خوبصورت اظہار ھے.
” محبت کا کیا ھے ایک بار ھو گئی تو ھو گئی اس کے بعد سلوک کی بات ھوتی ھے سلوک کا تم لوگوں کو کیا علم”
قید کا ہر فقرہ تراشا ھوا ہیرا ھے. جتنی بار پڑھتی ھوں حیرت میں ڈوب جاتی ھوں.
رومان، مذھب اور جیتے جاگتے کرداروں کی نفسیاتی تحلیل کا خوبصورت امتزاج عبد اللہ حسین کے فن کا منہ بولتا ثبوت ھے.
از قلم
مزمل چوھدری