چھڈ یار

چھڈ یار ایک چوکڑی تھی جو اتفاقا وجود میں آئی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز ان جانے میں ممتاز مفتی اور ان کے دوستوں پر ایک دیانت بھرا لمحہ نازل ہو گیا۔ اس کے تحت انہوں نے محسوس کیا کہ سیانف اور معتبری کا بوجھ جملہ 20150408_123850بوجھوں سے زیادہ بوجھل ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ وہ ہر سال آٹھ دس دن کے لیے تمام بوجھوں اور بندھنوں پر”چھڈ یار” کہہ کر باہر نکل جایا کریں اور چھڈ یار منائیں۔ چھڈ یار کے بنیادی قوانین بظاہر بڑے آسان تھے پر دراصل بے حد مشکل تھے۔

1 ) کہ ہر سال دس بارہ دنوں کے لیے چھڈ یار منانا لازم ہو گا۔

2 ) کہ باہر جاتے وقت اپنے اپنے سیانے معزز عہدے دار کو گھر چھوڑ کر جانا ضروری ہے۔

3 ) کہ باہر جانے سے پہلے ہر کوئی اپنے اندر کے دم پخت مظلوم بچے کو باہر نکالے گا۔

اس کا منہ دھوئے گا، چومے گا، پچکارے گا،پھر کندھے پر بٹھا کر ساتھ لے جائے گا۔ 4 )

5) کہ اس آوٹنگ کے دوران کوئی رکن عقل کی بات کرنے کی کوشیش نہیں کرے گا194118،اور نہ دوسروں کو عقل سکھانے کی عیاشی کا سزاوار ہوگا. البتہ بحث پر کوئی پابندی نہیں.کیونکہ بحث ایک معصوم اور بے ضرر وقت کٹی ہے، بحث سے کبھی کوئی قائل نہیں ہوا.بحث نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔.

چھڈ یار کے سات بنیادی رکن تھے۔ سب سے پہلے لیڈر تھا۔ جس کی جملہ خوبیوں کی وجہ سے اسے متفقہ طور پر لائف لیڈر منتخب کیا گیاتھا۔ پہلی خوبی یہ تھی کہ وہ سیانف اور معتبری کے بوجھ سے ہمیشہ کے لیے از لی طور پر آزاد تھا۔اس کے اندر کا بچہ ہمہ وقت اس کے کندھے پر سوار رہتا تھا۔ پہاڑوں پر پہنچ کر اس کے اندر کا شرپا بیدار ہو جاتا تھا۔ پھر اس کا جی چاہتا تھا کہ کسی ہلیری کو کندھوں پر اٹھا کر چوٹی پر گاڑ سکے. جس طرح ہمارے تمام شرپے کیا کرتے تھے۔ لیڈر کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ اسے چودھری کہہ کر بلایا جائے۔ مطالبہ صرف کہہ کر بلانے کا ہے، سمجھنے کا نہیں۔ پکارنے کے بعد چاہے آپ اسے اپنے کام میں لگائے رکھیں۔ وہ سودا لائے گا،آپ کے لیے کھانا پکائے گا، برتن دھوئے گا، چائے پکائے گا. اور ضرورت پڑے تو آپ کے پاؤں دبائے گا۔ لیکن خبردار اسے مسلسل چودھری جی 124021کہنا ضروری ہو گا۔ ورنہ تنائج کی زمےداری خود آپ پر ہوگی۔ اس لحاظ سے لیڈر کی حثیت خالص مرد جیسی تھی۔

چھڈ یار کا دوسرا رکن شاعر تھا۔ شاعر کا زاویہ نگاہ سائنسی تھا۔  نثرنگار کی طرح سوچتا تھا۔ غیر شاعرانہ طبیعت کا مالک تھا، لیکن شعر کہتا تھا. اچھے اور پر معنی شعر. شاعر کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس نے دفتر کو مندر کا رتبہ دے رکھا تھا۔ شاعر کے اندر کا بچہ طویل دفتر تپسیا کے باوجود ابھی تک زندہ تھا۔ اس کی ذمے داری شاعر پر نہیں، بچے پرتھی. وہ اس قدر جاندار تھا کہ کوشش کے باوجود نہیں مر سکاتھا۔

ہمارا تیسرا رکن وٹ ہے. اللہ نہ کرے کہ آپ کو اس کے ماتحت کام کرنا پڑے. اگر وہ آپ کا ماتحت بن جائے تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہوگی. حاکم کی حیثیت سے وہ مسلسل تیوری ہے. خاوند کی حیثیت سے چون وچرا ہے. لیکن ساتھی کی حیثیت سے باغ و بہار شخصیت ہے. مسلسل مغرح مسکراہٹ. خدمت گار، مٹھاس کا ایسا مرتبان جس سے پھوار اڑتی رہتی ہے. مزاح اور حاضر جوابی کی بنا پر اسے اعلی درجے کا مزاح نگار ہونا چاہیے تھا. کیوں منہ زبانی رہ گیا؟ یہ بھید آج تک نہیں کھلا. بہر طور اس کی خصوصیت کی وجہ سے ہم نے اس کا نام وٹ رکھ دیا ہے۔

ہمارا چوتھا رکن داستان گو ہے. داستان گو بڑا گنی آدمی ہے. بڑا معروف، جانا پہچانا، مگر طبیعت کا براہمن ہے. ذات پات 124920کا بڑا قائل اونچا بیٹھ کر بات کرتا ہے. لیکن بات کا دھنی ہے. باتوں کا ایسا جال پھیلاتا ہے کی سننے والوں میں خوداسیر ہونے کی خواہش چٹکیاں لینے لگتی ہے. ذات کا پٹھان ہے. اندر سے خالص اور اوپر سے “کاٹھا”۔

چھڈ یار کا  پانچواں رکن انجنیئر تھا۔ انجنیئر تضادات کی کھچڑی تھا۔ ایک پلو میں ایمان بندھا تھا، دوسرے میں کفر۔ ایک جیب میں فنون کا شوق، دوسری میں مشینوں کی پرستاری، اعمال کٹر مسلمان کے، خیالات کٹر مادہ پرست کے، کندھے پر تصوف کا چولا، ماتھے پر حجت کا ٹیکا تھا۔

 چھڈ یار کا چھٹا رکن فوک لوریا تھا۔ جو اعزازی طور پر ڈرائیور کا کام کرتا تھا۔ اسے مناظر میں دلچسپی نہیں تھی، لوگوں سےتھی۔ لوگوں سے بھی نہیں ان کی رہت بہت سے۔۔ وہ ایک ایسا بادام تھا جس میں دو مغزتھے۔ ایک صوفی فلاسفرتھا، دوسرا شدھ انگریز۔ جب وہ ایوولیوشن(ارتقا ) کی بات چھیڑ دے تو پھر اللہ حافظ۔ اور وہ ہمیشہ تاک میں بیٹھا رہتا تھا کہ کب موقع ملے اور ایوولیوشن کی بات چھڑے۔

آخر میں ممتاز مفتی تھے ۔ وہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ

آخر میں میں ہوں….. میں جو”میں میں”کے سوا کچھ بھی نہیں۔.

4 Comments

  1. Jazak Allah mumtaz mufti unki baaten unki yaadein hum jaison k liye giran qadar sarmaya baish baha khazana main kia meri haassti kia unk ufkar k saamny angasht e bad nidaan hain kese kese buland payaa log thy jo rizq e khaak huwy

  2. Plz kich or unk baaray mein k peyaas bujhti nahin do ghont sy or aqeedat ki muhbt ki peyas samandar kam parr jaey

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button