کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : فرمان اللہ
کلر زدہ سانپوں کی زمین
پھر ایک اور بات ہے۔ اسلام آباد بننے سے پہلے یہ علاقہ جہاں آج ایک خوبصورت ہرا بھرا شہر کھڑا ہے یہ علاقہ کلرزدہ ویرانہ تھا۔راولپنڈی سے دو پتلی پتلی سڑکیں ادھر سے گزرا کرتی تھیں۔ ایک نور پور کو جاتی تھی اور ایک سید پور کو۔ ان دنوں نور اور سید پور دونوں تفریح گاہوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ چونکہ ان مقامات پر برساتی نالے کثرت سے بہتے تھے جن کی وجہ سے یہ دونوں جگہیں تفریح گاہیں بن گئی تھیں۔ ان دونوں مقامات پر پہنچنے کے لیے اس علاقے سے گزرنا پڑتا تھا جہاں آج اسلام آباد واقع ہے۔ ان دنوں یہ علاقہ بنجر اور ویران تھا۔ درخت نہ بوٹا۔ ہم مقامی لوگوں سے پوچھتے کہ بھائی یہاں کاشت کیوں نہیں ہوتی تو جواب دیتے کہ اس علاقے میں کوئی درخت نہیں اگ سکتا اور نہ ہی کاشت ہو سکتی ہے کیونکہ زمین کلر سے بھری ہوئی ہے یہاں سانپ رہتے ہیں یا نیولے۔
آج اسلام آباد کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی کلر زدہ زمین ہے۔ اس میں درختوں اور پودوں کی رونق ہے ۔اس قدر ہرا بھرا شہر سارے پاکستان میں نہیں ہے۔ یہاں لاکھوں درخت اور پودے ہیں جو مختلف ملکوں سے منگوا کر لگائے گئے ہیں۔
میرے صاحبو ! مجھے بتاؤ کیا یہ معجزہ نہیں ہے۔ صرف ایک معجزے کی بات نہیں یہاں تو معجزوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ایک کلر زدہ علاقہ جو اب پھولوں کا شہر کہلاتا ہے۔ ایک پھلوں سے لدا ہوا درخت جسے لوگ بری طرح جھنجھوڑ رہے ہیں۔ جھولیاں بھر بھر کر لے جارہے ہیں۔ پھر بھی وہ ہر بھرا ہے، پھل سے لدا ہوا ہے۔ایک دیگ جسے لوگ کھائے جا رہے ہیں لیکن وہ جوں کی توں بھری ہوئی ہے۔