قدرت اللہ شہاب کی شخصیت پائسز کی حیثیت سے
قدرت اللہ شہاب کی شخصیت بیک وقت سادہ بھی ہے اور پرکار بھی۔اسے مغلوں کی مشہور عمارت ایوان عام سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ جس میں سادگی ہے، حسن ہے، وسعت ہےلیکن محرابوں کے پرکار تسلسل کی وجہ سے کئی سمتیں پیدا ہو گئی ہیں۔
سب سے پہلےآپ قدرت اللہ کے عجز کو محسوس کرتے ہیں۔ اس کی سادگی، خلوص اور ہمدردی آپ پر خوشگوار اثر چھوڑتی ہے۔اور آپ سوچتے ہیں کتنا اچھا آدمی ہے۔ مزید قرب کا موقع ملے تو اس کا گونگا پن کھلنے لگتا ہے جی چاہتا ہے کہ اس سے گہرا ربط پیدا ہو۔ مزید قرب پیدا ہو۔ لیکن بات نہیں بنتی۔ آپ پھر کوشش کرتے ہیں بےسود۔ قدرت میں ایک پر اسرار اور پریشان کن بھید محسوس ہوتا ہے۔ یا اللہ یہ کیا شخصیت ہے۔ دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن اندر داخل ہونا مشکل ہے۔
قدرت اللہ قریب نہیں آتا۔ وہ قریب آنے نہیں دیتا یہ اس کے کردار کی تیسری سمت ہے، جس کی مزید جھلکیاں دیکھ کر آپ گھبرا جاتے ہیں۔ بالآخر جب آپ کو علم ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت کی ایک چوتھی سمت بھی ہے اور وہ شخصیت کی گہرائی سے بھی عظیم تر ہے تو قدرت اللہ آپ کے روبرو ایک اجنبی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔
مجھے شک ہے کہ قدرت اللہ بسا اوقات اپنے روبرو اجنبی بنا کھڑا ہوتا ہے۔
شہاب کی شخصیت کو پیا ز سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس میں چھلکے ہی چھلکے ہیں،پردے ہی پردے ہیں۔ پردہ در پردہ، ان گنت پردے۔ ہر پردے کی جھال انوکھی ہے۔ ہر پردے کا رنگ نیا ہے۔ رنگا رنگ پردے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس میں پیاز کی سی بو نہیں ۔ تلخی نہیں، لیکن خبردار ان پردوں کو کھولیے نہیں ورنہ آپ اشکبار ہو جائیں گے۔
کا Pisces یہی وجہ ہے کہ میں نے فلکیاتی شخصیت
سہا را لیا ہے۔ اور بلاواسطہ قدرت اللہ کی شخصیت کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ قدرت اللہ میں میری دلچسپی علم النجوم کی وجہ سے ہوئی یا علم النجوم سے میری دلچسپی قدرت اللہ کی وجہ سے ہوئی۔ بہر صورت یہ دونوں باتیں بیک وقت عمل میں آئیں۔
اتفاقیہ طور پر میں نے کیرو کی وہ کتاب پڑھی جس میں فلکیات کے مطابق شخصیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلی شخصیت جس کا میں نے مطالعہ کیاpiscesکی تھی۔ اتفاقاً مجھے معلوم ہو ا کہ تاریخ پیدائش کے لحاط سےشہاب Piscean ہے۔ میرےسامنے ایک جیتا جاگتا Pisceanکھڑا تھا۔ ایک مثبت اور منور Piscean جسے sun Piscean کہا جاتا ہے۔
فلکیات کی رو سے شخصیتیں آگ پانی اور ہوا کے خواص لئے ہوتی ہیں۔ picceans میں پانی کا عنصر حاوی ہے۔ دیکھ لیجئے قدرت میں پانی کی سی نرم مزاجی ہے۔ پانی کا سا بہائو ہے۔جذبات کی لہریں ہیں۔ اتنی رواداری ہے کہ چاہے اسے مشکیزے میں بھر کے چھڑکائو کر لیجئے چاہے صراحی میں ڈال کر جام بھر لیجئے چاہے کوزے میں ڈال کر وضو کر لیجئے۔ اسے کسی سانچے میں ڈھال لیجئے ڈھل جائے گا۔ صرف آپ کی خاطر۔ آپ کوئی بھی ہوں، کیسے بھی ہوں۔ رواداری کے خیال سے “دل بدست آور” کے خیال سے ، حج اکبر کے خیال سے نہیں۔ لیکن آپ کے لئے ڈھل جانے کے باوجود اس کے ذاتی اوصاف و کردار میں فرق نہیں آئے گا۔ اس کا کردار اٹل ہے۔ pisces کو میں راس کہتے ہیں۔ اس کا برج حوت ہے۔ اس کا ستارہ مشتری ہے۔
جانے کیوں قدرت اللہ کے قریب رہ کر ستاروں سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔شاید اس لیے کہ نصف کے لحاظ سے وہ خود بھی ایک تارہ ہے۔ ایک تن تنہا اکیلا تارا۔ جو بے حدود ہے۔ جسے کسی سے بھی constilation سے تعلق نہیں ہے۔جس کی روشنی بے حد مدھم ہے۔جو جگنو کی طرح ٹمٹماتا ہے، چمکتا ہے، گل ہوتا ہے، جو چمکنے سے شرماتا ہے۔ جسے گل ہونے سے زیادہ دلچسپی ہے لیکن تقدیر نے بھرپور چمکنا عائد کر کے ایک قیامت برپا کر رکھی ہے۔
Pisces کا نشان مچھلیاں ہیں۔ دو مچھلیاں جن کی دمیں آپس میں بندھی ہوئی ہیں اور وہ متضاد سمتوں میں تیرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ قدرت اللہ کے قریب جائو تو پتہ چلے ان متضاد سمت میں تیرنے والی مچھلیوں نے کیا ہلڑ مچا رکھا ہے۔ لیکن قریب جانے کا سوال پیدا بھی نہ ہو۔ اس نے کبھی کسی کو اس قدر قریب آنے نہیں دیا کہ اس کے دل کا دکھ دیکھ سکے۔ وہ دوستوں کو خوشیوں میں شریک کرنے کے لئے بے تاب ہے۔ لیکن دل کے دکھ کو یوں چھپائے پھرتا ہے جیسے چاند اپنی دوسری سمت کو۔
دور سے قدرت اللہ کی طرف دیکھئے یوں معلوم ہتا ہے جیسے مہاتما بدھ آنکھیں بند کئے بڑ کے درخت تلے بیٹھا ہو یا جیسے بے حسی سے مالا مال کوئی شخص ابدی سکون حاصل کرچکا ہو۔ یا جیسے کنول کا پھول ہو جھیل پر تیر رہا ہے۔ یا جیسے گونگا پہلوان ہو جسے نہ ذہنی چمک سے واسطہ ہو نہ احساس کی دولت سے تعلق ہو۔ جسے مگدر پھیرنے اور زور کرنے کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہ ہو۔
اس کے چہرے اور انداز کو دیکھ کر کبھی یہ ظاہر نہیں ہوا کہ وہ ایک طوفان دبائے بیٹھا ہے۔ ظاہری بے حسی جمود یا نروان کے تلے احساسات کی شدت چھریاں چلا رہی ہے اور جذبات کی دم بندھی مچھلیاں متضاد سمتوں میں تیرنے کے خبط میں اودھم مچائے ہوئے ہیں۔
ایک مشہور منجم ” کتینہ تھیوڈو سیلو” کا کہنا ہے کہ Piscean شخصیت کے دو پایہ ستوں ہیں۔ گہرائی اور اسرار۔ قدرت اللہ کی گہرائی میں ایک نظر جھانکنا تو شاید ممکن ہو مگراسے پانا ممکن نہیں اور اس میں داخل ہونا تو قطعی ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گہرائی تیسری dimension میں نہیں بلکہ چوتھی dimension میں ہے اور ہم اس پر اس کے دروازے بند ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اس کا دل اور روح بڑے آئینے ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل رکھے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان قدرت کی شخصیت کا مٹی کا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ آئینوں میں دئیے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ قطار اندر قطار، نہ ختم ہونے والی قطار ، گہرائی ہی گہرائی، اتھاہ گہرائی۔ میں نے قدرت اللہ کی گہرائی میں جھانکا ضرور ہے لیکن اسے پا نہیں سکا۔ البتہ اس کے اسرار سے محظوظ ہوا ہوں۔ اور متاثر بھی۔ Piscean شخصیت کی وضاحت کرتے ہوئے Lyndoe کہتا ہے۔ Piscean میں سمندر کی سی گہرائی ہے۔ زندگی اس کے لئے اک راز ہے اور اس راز کو سینے سے لگائے رکھنا اس کے لئے زندگی ہے۔ پردے سے اسے عشق ہے، پردہ پوشی کا متوالہ۔ افشائے پردہ کا دشمن۔ Piscean اپنے عزیز ترین دوسے کے روبرو بھی اپنی زندگی اور شخصیت کے کچھ دروازے کھولنے سے گریز کرے گا۔
یہ میرے الفاظ نہیں بلکہ لنڈو کے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہر منجم کے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ مقالہ میرا نہیں ۔ اس میں کوئی بات بھی تو میرے نہیں۔ یہ ایک مثبت اور منور شخصیت کا بیا ن ہے جسے بیسیوں منجم اپنےاپنے رنگ میں پیش کر چکے ہیں۔
قدرت اللہ کو پردے سے عشق ہے۔ والہانہ عشق۔ پردے سے اس کا کوئی مقصد وابستہ نہیں۔ خالی پردہ فن برائے فن کا پردہ۔ پردہ قدرت اللہ کو اتنا ہی مرغوب ہے جتنےغالب کو آم تھے۔ آم ہوں، میٹھے ہوں، بسیار ہوں۔
پردے ہوں، بے مقصد ہوں، بسیا ر ہوں۔
عام طور پر لوگ اپنی منفی خصوصیات پر شرماتے ہیں، انھیں چھپاتے ہیں۔ قدرت اللہ اپنی مثبت خصوصیات پر شرماتا ہے ، انھیں چھپاتا ہے۔
عام طورسے لوگ اپنی جھوٹی مثبت خصوصیات اچھالتےہیں۔ قدرت اللہ اپنی منفی خصوصیات خود نہیں اچھالتا۔ لیکن اگر وہ اچھل جائیں تو خوش ہوتا ہے۔ گویا دوشیزہ کو ایک اور گھونگھٹ مل جاتا ہے۔ پیاز میں ایک چھلکے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
آپ قدرت اللہ سے ملیے ۔ ان منفی خصوصیات کا ذکر کیجیے جو اس کی شخصیت میں موجودنہیں۔ شرط یہ ہے بات میں تعریفی پہلو نہ نکلے۔ مثلاً ان سے کہیے ۔ یہودی کوئی تم سا نہیں دیکھا۔ بخل کی تم نے انتہا کر دی۔ اس کی آنکھ میں چمک لہرائے گی” ہے نا” وہ جواب دے گا۔
کہیے خود غرضی میں تمہارا جواب نہیں۔ وہ اس قدر خوش ہوگا کہ اپنا کام چھوڑ کر پورے طور پر آپ کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ اور اگر یہ کہہ دیجئے کہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے فن میں تم بہت استاد ہو۔ تو شاید مانگ کیا مانگتا ہے کے شاہانہ موڈ میں آکر وہ آپ کو چائے بھی پلا دے۔لیکن اگر آپ اس کی سخاوت ، اس کے عجز، اس کی عبادت یا اس کے خلوص کا تذکرہ چھیڑ دیا تو وہ ٹھٹھک کر پیچھے ہٹ جائے گا۔ اپنے کوئے میں داخل ہو جائے گا۔ اور ایسا رویہ اختیار کرے گا کہ پلک جھپکنے میں آپ اس سے کوسوں دور ہو جائیں گے۔ اس کی خاموشی منوں بوجھل ہو جائے گی۔ اور یہ بوجھ آپ کے شانوں پر ڈھیر ہو نے لگے گا۔ حتیٰ کہ آپ قدرت اللہ سے رخصت لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پردہ قدرت اللہ کا زیور ہے۔ اس رعایت سے قدرت اللہ ایک دلہن ہے اس کا اظہار تکلم سے نا آشنا ہے۔اس حد تک نا آشنا کہ اس نے کبھی پلا مار کر بھی دیا نہیں بجھایا۔ خاموشی اس کا واحد ساتھی ہے۔ وہ اس کی ڈھال بھی ہےجس سے وہ اپنا تحفظ بھی کرتا ہے۔ وہ اس کی تلوار بھی ہے۔ جس سے وہ وار کرتا ہے۔ میں نے اس کی خاموشی کے کئی روپ دیکھے ہیں۔ کبھی اسے باد نسیم کی طرح خنک اور خوشگوار دیکھا ہے اور کبھی وہ یخ برف کا تودہ بن جاتاہے اور کبھی دھند کی دبیز تہہ۔ بسا اوقات قدرت کی خاموشی باتیں بھی کرتی ہے۔ زیر لب میٹھی میٹھی باتیں جیسے ملاقات کے طالب سے چاندنی باتیں کرتی ہے۔ ایسی باتیں بھی کرتی ہے کہ آپ میں سننے کی اہلیت ہو تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ ایک جون آف آرک ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ندی بن کر گنگناتی بھی ہے۔ جسے سن کر آ پ محسوس کرتے ہیں کہ زندگی جینے کے قابل ہے۔ لیکن قدرت اللہ کی خاموشی میں یہ طاقت بھی ہے کہ وہ آپ کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دے۔ بلکہ مجھے شک ہے کہ وہ ہلاک بھی ہو سکتا ہے۔ قدرت اللہ کی خاموشی میں ایک انفرادیت ہے ایک واضح شخصیت۔
قدرت اللہ کی پردہ سے دلچسپی اپنی ذات تک محدود نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اسے کائنات سے صرف اس لیے دلچسپی ہے کہ اس نے پردے اوڑھے ہوئے ہیں۔ اسے سچائی اس لیے پیاری ہے کہ وہ ملفوف ہوتی ہے۔ لیکن اس بات کو میں آج تک نہ پا سکا کہ آیا اسے اللہ سے اس لیے پیار ہے کہ انھیں پردہ اور پردہ پوشی پسند ہے یا پردہ سے اس لیے محبت ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کو پسند ہے۔
قدرت اللہ کو ننگا پن پسند نہیں۔ اسے پردہ دری سے چڑ ہے۔ آپ اس کے کوئی اپنا راز بیان کرنے کے کوشش کر دیکھئے۔ آپ کا ارادہ بھانپ کر اس پر گھبراہٹ طاری ہو جائے گی۔ وہ کہے بغیر آپ کو اس حماقت سے باز رکھنے کے کئی ایک جتن کرے گا۔دفعتاً اسے کوئی بھولا ہوا کام یاد آجائے گا۔ لیکن ساتھ ہی اسے گپ شپ سے بہت دلچسپی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس میں الزام تراشی کا کوئی پہلو نہ ہو۔بے مقصد گپ کے دوران میں آپ اسے افواہ، سیکنڈل بھی سنا سکتے ہیں۔ وہ بڑی دلچسپی سے سنا گا۔ لیکن جونہی آپ رخصت ہوں گے وہ پر جھاڑ کر پھر سے خشک ہو جائے گا۔ اور آپ کی باتیں ایک بے نام فرحت پیدا کرنے کے علاوہ اس پر کوئی اثر نہ چھوڑیں گی۔اگر اتفاقاً یا ویسے ہی قدرت اللہ کو اس راز کا علم ہو جائے کہ آپ کا کردار داغدار ہےتو اسکے بعد وہ مسلسل طور پر اس کوشش میں لگا رہے گا کہ آپ کو یہ علم نہ ہو جائے کہ وہ آپ کا راز جانتا ہے، چونکہ کسی کے راز کو جاننا یا کریدنا شرافت نہیں۔ لہذا قدرت اللہ آپ کے سامنے یوں محسوس کرے گا جیسے وہ مجرم ہو۔ آپ سے نفرت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اسے آپ سے ہمدردی ہو جائے گی۔ چونکہ وہ محسوس کرے گا کہ آپ کا راز جان کر اس نے آپ سے زیادتی کی ہے اور اس خیا ل سے بھی وہ اسے چھپائے پھرے گا کہ اگر آپ کو علم ہو گیا کہ وہ آپ کی حقیقت سے واقف ہے تو آپ کو دکھ ہوگا۔ ۔۔۔ یا اس کی وجہ اور بھی ہو سکتی ہے۔
کیرو کا کہنا ہے کہ pisceanکو کیمو فلاج سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر قدرت اللہ کا بس چلے تو وہ دنیا کی ہر چیز کو کیمو فلاج کردے۔
فلکی تجزیے کے مطابق Piscean میں انسانی جذبہ نمایاں ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی شدت کمزوری کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس میں ہمدردی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اور وہ اس وقت عمل میں آتا ہے جب وہ ایسے لوگوں سے ملتا ہے جو حالات کی وجہ سے زندگی میں ابھر نہیں سکے۔ جن سے قسمت نے وفا نہیں کی۔ ایسے لوگ جو راہ مستقیم سے بھٹک گئے یا ایسے لوگ جو معذور ہو گئے۔
اسی وجہ سے Piscean ایسے پروفیشن میں پائے جاتے ہیں جو خدمت خلق سے متعلق ہوتے ہیں۔ pisceanیا تو ڈاکٹر ہو گا یا اصلاحی کارکن یا پادری۔
بظاہر قدرت اللہ نہ تو ڈاکٹر ہے ، نہ اصلاحی کارکن ،۔ نہ پادری۔ لیکن ہمدردی اور خدمت کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اصولی طور پر ہمدردی کے جذبے کی شدت آپ کو مفلوج کر دیتی ہے۔ کوشش کے باوجود اگر آپ کسی مظلوم کی مدد نہ کر سکیں تو آپ کے دل کی گہرائیوں میں ایک تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک بے نام دکھ۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اگر قدرت اللہ کسی کی مدد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو اسے اس پر دکھ محسوس نہیں ہوتا۔ اسے مظلوم سے بے پناہ ہمدردی ہے۔ لیکن ظلم سے وہ بے پروا ہے اور ظالم کے خلاف نہ وہ غصہ محسوس کرتا ہے نہ نفرت۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم کو دیکھ کر اس کے دل میں ظلم کے خلاف تلخی پیدا نہیں ہوتی۔ مظلوم کو دیکھ کر وہ اس کی مدد کرنے کےلیے کمر باندھ لے گا۔ لیکن اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے تو بھی اس میں دکھ پیدا نہ ہو گا۔ “کیا کیا جائے” کہہ کر وہ نہایت اطمینان سے اپنے کام میں منہمک ہو جائے گا۔
Piscean کے ساتھ رہنا پڑے تو صبر و تحمل کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔ چونکہ کتینہ کا کہنا ہے کہ Piscean کے موڈ بدلتے رہتے ہیں۔ اس کا شوق ربڑ کے گیند کی طرح گرتا اچھلتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں مدوجزر کی ہلکی ہلکی لہریں اٹھتی رہتی ہیں اور احساسات کی شدت اس میں انوکھی پھرکیاں چلاتی رہتی ہے۔
شہاب کے موڈ بدلتے دکھائی نہیں دیتے اس کے شوق کا گیند نا گرتا ہے نا اچھلتا ہے اس کے دل میں جو پھرکیاں چلتی ہیں نا وہ آواز پیدا کرتی ہیں نا نظر آتی ہیں.. صرف اس کی خاموشی کے بدلتے رنگ محسوس کر کے پتا چلتا ہے کہ کوئی بات ہے کبھی اس کی خاموشی لطیف ہوتی ہے کبھی بوجھل.. کبھی وہ رنگین ہوتی ہے کبھی بے رنگ.. اسے جانچنے کے لیے بات کیجیے اگر اپ کی بات ٹن سے گرے تو سمجھ لیجیے کہ موڈ اچھا ہے. اور وہ پتھر کی سی آواز پیدا کرے تو اپنا وقت ضائع نا کیجیے ہر صورت میں قدرت اللہ پوری توجہ سے آپ کی بات سنے گا اور اس کے ماتھے پر بل نہیں آئے گا.. جہاں تک اپ کا تعلق ہے صبر و تحمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.. جہاں تک اس کے صبر و تحمل کا سوال ہے کئی بار مجھے شک پڑتا ہے کہ اس میں صبر و تحمل کے علاوہ کچھ بھی نہیں.. نا جانے اتنے صبر و تحمل پر غصہ کیوں آنے لگتا ہے.. قدرت اللہ میں جھجک یوں کافور ہو جاتی ہے جیسے کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور وہ گھل مل جاتا ہے جیسے وہ اس ہمیشہ سے منتظر رہا ہو. بہر صورت جھجک اور شرمیلا پن اس کے کردار میں یوں رچے بسے ہیں جیسے ڈٹول میں بو. اور وہ انہیں چھپا نہیں سکتا..
وہ قدرت اللہ کی شخصیت کی سر زمین پر نیلے آسمان کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ لیکن جھجک کے اس نیلے آسمان پر جرات اور دلیری کے ان گنت تارے چمکتے ہیں۔ اس کی جرائتیں دیکھتا ہوں تو مجھے اس کی جھجھک پر حیرت ہوتی ہے۔ جھجھک دیکھتا ہوں تو جراتوں پر حیران ہوتا ہوں۔ اس کی جرائتیں جگے ڈاکو کی یاد دلاتی ہیں۔ اس کی جھجھک معمر خاوند کی سی ہے۔
ایک طرف تو وہ دفتر میں ہر سائل سے ملنے سے گھبراتا ہے۔ٹالنے کی کوشش کرتا ہےاور دوسری طرف کئی بار ایسا بھی ہوتا ہےکہ وہ بے دھڑک مگر سنجیدگی سے سائلہ سے کہہ دیتا ہے۔ محترمہ یہ بھڑکیلے کپڑے پہن کر یہاں آنے سے آپ کا مقصد کیا ہے۔ یہ سج دھج سائل کے شیان شان ہے۔ یا ایک منجم سے بے دریخ کہہ دے گالوگوں سے روپے بٹورنے کا یہ دھندا جو آپ نے شروع کر رکھا ہےاس میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے آپ کو۔
اس کی جرائتیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ایک بے نام will power ہے. ایک زبردست hypnotic اثر ہے.. آیا اسے اپنی ان طاقتوں کا شعور ہے یا نہیں. اس کے متعلق میں نہیں جان سکا. البتہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے ان طاقتوں کو التزاما کبھی استعمال نہیں کیا. اکثر وہ ضمنی طور پر استعمال ہو جاتی ہیں..
آپ آئے، آپ کو دیکھ کر اس کے دل میں سرسری طور پر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ آپ فلاں موضوع پر بات نا کریں. اب آپ چاہے گھنٹہ بھر اس کے پاس بیٹھے رہیں. وہ موضوع چاہے بار بار آپ کی زبان پر آنا چاہے آپ کی نس نس اس ان کہی بات سے بھری رہے. لیکن نہ جانے کس غیر مرئی طاقت کے زیر اثر آپ کی زبان پر تالا پڑارہے گا. آپ ادھر ادھر کی باتیں کریں گے.. اور مقصد کی بات کئے بغیر رخصت ہو جائیں گے اور قدرت آپ کی ذہنی کش مکش دیکھ کر محظوظ ہوتا رہے گا..
اگر اسنے آپ کو دیکھ فیصلہ کر لیا ہے کہ دو منٹ سے زیادہ آپ سے بات نہیں کرے گا تو چاہے آپ کوئی بھی ہوں، اعلی افسر ہوں، قلاش سائل ہوں، باتونی خاتون ہوں یا اس کے تکلف دوست ہوں آپ دو منٹ سے زیادہ اس کے ساتھ نہیں بیٹھ سکیں گے.. آپ پر چاروں طرف سے ایک بے نام پر اسرار بوجھ پڑ جائے گا.. ایک وحشت سی گھیر لے گیا اور آپ کا جی چاہے گا کہ بھاگ لیں.
شرمانے کے متعلق بھی اس کے کوائف بے حد انوکھے ہیں. اس کا چہرہ بالکل نہیں شرماتا. شرماتے بھی تو شرماتا دکھتا نہیں. شاید اس پر رنگ آتا جاتا ہو مگر نہ آتا دکھتا ہے نہ جاتا. اس کے انداز سے شرمانے کی کوئی تفصیل ظاہر نہیں اس کے باوجود نہ جانے کیسے ہر کوئی محسوس کر لیتا ہے کہ وہ شرما رہا ہے.
پچھلے سال قدرت اللہ کے گھر اللہ نے فرزند عطا کیا. اس پر وہ اس قدر شرمایا کہ شک پڑنے لگا جیسے باپ نہیں بلکہ بچے کی ماں ہو جس کی شادی اعلانیہ نہیں بلکہ خفیہ طور پر ہوئی ہو. اس نے بچے کی پیدائش کی خبر اپنے منہ سے کسی کو نہ سنائی. پھر جب لوگوں کو جیسے کیسے علم ہو گیا اور وہ مبارکباد کیلئے آنے لگے تو اسے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے اور وہ محفل میں یوں بیٹھا رہتا جیسے ٹین ایجر دلہاہو….
اگر قدرت آپ پر احسان کر دے تو آپ سے شرمانے لگے گا جیسے احسان نہ ہوا گناہ ہوا. آپ کے روبرو اول تو سخاوت کا کوئی کام کرے گا ہی نہیں. اور اگر سر زد ہو جائے تو آپ سے شرمانے لگے گا. اپنی تعریف سن کر وہ شرمائے گا.
اگر آپ اس کے دل اور روحانی اوصاف کا تذکرہ کریں تو شرماہٹ کی بجائے اس میں گھبراہٹ پیدا ہو گی اور وہ چاہے گا کہ یہ بات چھوڑ کر کوئی اور بات شروع ہو. لیکن.. اگر آپ اس کی ذہنی قابلیت کی بات چھیڑ دیں تو بظاہر وہ یوں بیٹھا رہےطگا جیسے کوئی بات نہ ہو. اس کے پاس خوشی، دوستی، قرب کا اظہار کیا ہے صرف ایک ادھوری مسکراہٹ جو آتی ہے چلی جاتی ہے. مونالیزا کی سی نیم مسکراہٹ، آنکھ میں ایک لہر جوکوندتی ہے ختم ہوجاتی ہے. اظہار کے معاملے میں وہ بے بخیل ہے. لیکن وہ بے ھد سخی اور مخیر ہے.
قدرت کے والد بزرگوار عبد اللہ صاحب کے انتقال کے بعد بیس ایک اعلی تعلیم یافتہ اشخاص ان کے گھر آئے. اور انہوں نے فرداً فرداً اہل خانہ پر اس راز کا انکشاف کیا کہ انہوں نے عبداللہ صاحب کے وظیفے پر تحصیل علم کیا تھا.
قدرت اللہ شہاب کے جیتے جی اس کے قریبی رشتے دار بھی اس راز سے واقف نہیں ہو سکتے کہ کتنے اور کون کون سے لوگ اس کے وظیفے پر زندگی گزار رہے ہیں یا تحصیل علم کر رہے ہیں. ایسے منی آرڈر بھیجنے کیلئے وہ چپڑاسیوں کی خدمات حاصل کرنے ست بھی گریز کرتا ہے.
دو ایک منی آرڈر حوالہ ڈاک کرنے کیلئے مجھے بھیجا گیا. شاید میں انہیں اہمیت نہ دیتا. لیکن اس کا تفصیل سے مجھے سمجھانا کہ یہ رقم میں نے اس شخص ست قرض لی تھی اور اس کی ادائیگی میں اتنی دیر ہوگئی ہے کہ اب بھیجتے ہوئے شرم آتی ہے..
کٸ سال ہوے ایک سفید پوش دوست نے تین ہزار روپے قدرت کے پاس امانت رکھے تھے اور کہا تھا جب جتنے روپے کی ضرورت ہو گی منگا لوں گا۔ ختم ہں جاٸں تو بتا دینا۔آج تک وہ صاحب جب جتنے کے ضرورت ہوتی ہے منگا لیتے ہیں۔ تقاضے کے باوجود قدرت اللہ انہیں حساب اس لٸے نہیں بھیجتا کہ اسے علم نہ ہو کہ وہ جمع کردہ رقم سے کٸ گنا روپیہ ذیادہ وصول کر چکا ہے۔
قدرت اللہ کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر ایک اندھا حافظ قرآن اسے ملنے آیا۔ میں نے پوچھا ۔ جی آپ کس لٸے آے ہیں؟ بولا، فاتحہ کہنے آیا ہوں۔ میں نے پوچھا کہاں سے آے ہیں؟ جواب دا سیالکوٹ سے۔ میں نے پوچھا کسی اور کام سے آے ہوں گے۔ بولا جی نہیں صرف فاتحہ کیلۓ۔ میں نے کہا آپ انہیں جانتے ہیں۔ بولا، جی نہیں۔کبھی ملے ہیں؟س نہیں۔آپ ہیں کون؟میں نے پوچھا۔بولا جی وہ ماہوار خرچہ بھیجتے ہیں۔ میں نے پوچھا تو آپ ان سے ملیں گے؟ بولا جی میں تو صرف فاتحہ پڑھنے آیا ہوں۔
کاش اس وقت قدرت اللہ موجود ہوتا۔اندھے کی بات سن کر وہ پانی پانی ہو جاتا اور میں صراحی میں ڈال کر ایک جام بھرلیتا۔
میرا جی چاہتا ہے کہ لوگوں سے کہوں۔ قدرت سے جو چاہے مانگٸے لیکن خدارا اسے سفارش کرنے کیلیے نہ کہیے۔ میں نے اسے فون پر سفارش کرتے ہوے دیکھا ہے۔ رومن دور کے گیلی سلیوز slaves کو فلم میں دیکھ کر مظلویت کااس شدت سے احساس نہیں ہوا تھا۔قدرت دے سکتا ہے مانگ نہیں سکتا۔
اسی وجہ سے وہ ایک سچا مگر انوکھا عاشق ہے جسے محبوب کے بجاۓ عشق سے لگاٶ ہے۔وہ ایک فرہاد ہے جسے شیریں کی نسبت پہاڑ کھودنے سے ذیادہ دلچسپی ہے۔ ایک ایسا مجنوں ہے جسے جنوں کو دل کی گہراٸیوں میں جذب کر لینے کا سودا ہے جو وصل سے ذیادہ خاٸف ہے لیکن قرب کا متوالہ ہے۔جسکی تمام تر لذت سہنے اور پی جانے میں ہے۔کرنے میں نہیں۔کبھی کبھارمجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک حبشی ہے جو اپنی خواہش کا کوڑا بنا کر اپنے آپ کو پیٹتاہے۔ حتیٰ کہ خواہش کی تپتی ہوی شدت کی انتہا پر پہنچ کر روشنی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔پھر وہ روشنی اپنے ملبے کی طرف رجوع کرتی ہے۔اس لحاظ سے وہ ایک خودغرض عاشق ہے جو عشق کی چنگاریاں صرف اسلیے اڑاتا ہے تاکہ اپنے لٸے نورانی مدارج حاصل کر سکے۔
لیکن وہ ایک ایسا یوگی بھی ہے جو تیاگ کا قاٸل نہیں۔ اس کا مقصد چھوڑ کر پانا نہیں بلکہ پا کر چھوڑ دینا ہے۔
اس لحاظ سے وہ ایک انوکھا محبوب بھی ہوا۔وہ آپکی توجہ کو اپنے اوپر مرکوز ہونے دے گا اور پھر چپکے سے درمیان میں سے ہٹ جاے گا اور آپ کسی ارض مقدس میں کھڑے ہوں گے اور کسی منور جالی کے پروانے بنے ہوں گے۔
کیرو کےجاٸزے کے مطابق Piscean گرے ہوٶں کو اٹھانے اور بھٹکے ہوٶں کو راہ دکھانے کےلیے بیتاب ہوتے ہیں۔ اس سلسے میں قدرت اللہ کا طریق کار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کس Communication کمپنی کا ملاذم ہو اور ایک ویران سٹیشن پر اسلیے متعین ہو کہ اردگرد کے علاقے سے بھولے بھٹکے مسافروں کو تلاش کرے اور پھر ان جانے میں انہیں اس بس میں بٹھا دے جو منز مقصود کو لے جاتی ہے۔
منجموں کا کہنا ہے Pisceans شدت تاثر سے یوں بھیگتے ہیں جیسے نور کے تڑکے پھول شبنم سے بھیگتے ہیں۔انکے ذہن میں چمک ہوتی ہے۔ تخیل میں وسعت۔
قدرت اللہ کو بات سوجھتی ہے۔اس کے تخیل مں جرأت ہے۔اسے بات کہنے کا ڈھنگ آتا ہے بشرطیکہ بات منہ ذبانی نہ ہو۔ نہ ہم اسے ناول نگار کہ سکتے ہیں۔نہ افسانہ نویس، نہ شاعر کیونکہ وہ ایک خالص راٸٹر ہے۔ کو چیز بھی ہو۔ تقریر ہو۔سٹیٹ منٹ ہو۔ افسانہ ہو ۔ انشاۓ لطیف ہو ، یا آپ بیتی ہو، ہر صنف میں اسکی انفرادیت رنگ پیدا کرتی ہے اور قاری کو ایک مخصوص تاثر سے بھگو دیتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ طنز نگار ہے، مزاح نگار ہے۔ میں نے اسکی کھی ہوی ایسی چیزیں بھی دیکھی ہیں جن میں نہ طنز ہے نہ مزاح۔جن میں خلوص ہے سادگی ہے ، آنسو ہیں، بد قسمتی ہے اسکی بیشتر تصنیفات ادھوری رہ جاتی ہیں۔ جو شاید کبھی مکمل ہو کر سامنے نہ آٸیں۔ اس وجہ سے قاری آج تک اسکی گوناگوں رنگینیوں سے سے واقف نہیں ہو سکا۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ قدرت اللہ کے ہاتھ میں قلم اس لیے دے رکھا ہے کہ وہ اسے کس آنے والے جہاد میں تلوار کے طور پر استعمال کرے۔
آخر میں مجھے اجاذت دیجیے کہ میں Piscean شخصیت چوتھی Dimension کے متعلق کتینہ تھیوڈسیو کا اصل بیان پیش کروں۔کیونکہ اسکا مفہوم اپنے الفاظ میں ادا نہیں کر سکتا۔
کتینہ تھیوڈسیو لکھتی ہیں۔
There is divine discontent which prives pisceans on to seek the intangible an animal that lifts its muzzle to catch an elusive secnt borne on the wild. A pisceans is conscious of some essence some meaning purpose experience too refined too elusive to make impact on their zodiacal brothern.
یہ خصوصت ایک عام Piscean کی ہے۔ نسبت و منور Piscean پر لوگو کرنے کیلیے اسے سو گنا کر لیجیے ۔ ممکن ہے آپ میں اہلیت ہو۔آپ کے ذہن میں واضع اور سالم تصویر کھینج جاۓ۔ میرا ذہن تو دھندلا جاتا ہے۔ دھند کے نقوش تیرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ہ قدرت کا قدرت اللہ سے ایک ان جانا بندھن ہے۔
قدرت اللہ میں مینڈک کی وہ حس موجود ہے جس کے تحت اسے ہونے والی بارش کاپتہ چل جاتا ہے۔ چڑیوں کی وہ حس موجود ہے جس کے تحت بھونچال آنے سے پہلے وہ اس علاقے سے اڑ جاتی ہیں۔سمندری چیلوں کی وہ حس موجود ہے جس کی وجہ سے طوفان آنے سے پہلے وہ بےتاب ہو کر فضا میں چکر کاٹتی ہیں۔ مرغ کی وہ حس ہے جس کے تحت وہ نور کے تڑکے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا ہے۔ اسکی Sixth sense کے مختلف پہلوٶں کا میں آج تک انداذہ نہیں لگا سکا۔