کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : کرن احمد نواز
خطبہ
مجھے بھی مولوی صاحب کا ایسا ہی خطبہ سننے کا اتفاق ہوا تھا۔
سردیوں کا موسم تھا۔ اسلام آباد میں آبپارہ کی لال مسجد کا ملحقہ میدان کھچا کھچ نمازیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اجتماع میں زیادہ تر سیکشن آفیسر ، ڈپٹی سیکرٹری، سکریٹریٹ کا پرسنل سٹاف اور سیکرٹری بھی موجود تھے۔ مولوی صاحب خطبہ دینے کے لیےاٹھے تو اتفاق سے ان کی نگاہ ایک صاحب پر پڑی جس نے جرابیں پہن رکھی تھیں۔ مولوی صاحب کو خطبے کے لیے ایک موضوع مل گیا۔
انھوں نے مجمع کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ پڑھے لکھے ہو کر آپ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ اور نماز میں بھی سنت محلوظ خاطر نہیں۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ نماز میں جراب پہننا ممنوع ہے۔ جو شخص جراب پہن کر نماز پڑھتا ہے اس کی نماز فسق ہوجاتی ہے۔
مجمع میں کوئی چلا کر بولا مولانا اسکمیولینڈ کے مسلمان کیا جرتے ہوں گے؟
مولانا غصے میں چلائے، ہم اسکمیولینڈ کی بات نہیں کر رہے۔ ہم پاکستان کی بات کر رہے ہیں اور صاحبو !
جان لو کہ خطبے میں حجت کرنا شیطانی فعل ہے۔
مجمع پر سکوت چھا گیا۔
مجھے مولوی صاحب کی جسارت ہر حیرت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ پڑھے لکھے اور اسلام سے باخبر لوگوں کے سامنے ایسی باتیں کر رہے تھے۔ اس جذبے ، جوش اور conviction سے بات کر رہے تھے جیسے وہ جانتے ہوں اور ان جانوں کو سمجھانےکا مقدس فریضہ ادا کر رہے ہوں۔ مجھے تو اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ پڑھے لکھے با خبر لوگ مولوی صاحب کی فروعی باتوں کو بیٹھے خاموشی سے سن رہے ہیں۔ کسی کے دل میں احتجاج پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ They were suffering it
میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب سے کہوں’
جناب والا ! خطبے میں کسی اسلامی مسئلے پر روشنی ڈالیے۔ میں اٹھ بیٹھا اور ایک بار کوشیش کی لیکن بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
میں نے سوچا چلو احتجاجاً واک آؤٹ ہی کرلو۔ مجھے مجمع سے باہر نکلتے دیکھ کر مولوی صاحب نے ایک دم پینترا بدلا، کہنے لگے خطبہ سننا لازم ہے چونکہ یہ نماز کا ایک لازم حصہ ہے۔
اس روز میرا موڈ بہت آف رہا۔
شام کو میرے گھر ” چھڈ یار” کی میٹینگ تھی
چھڈ یار ہماری ایک تنظیم ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ چھوڑو، سیاسی صورت حال کو چھوڑو۔ دفتر کی پالیٹکس کو چھوڑو، گھریلو چخ چخ کو چھوڑو۔ اپنے اندر کا بچہ باہر نکالو۔ اسے اپنے کاندھے پر بیٹھاؤ اور باہر نکل کر آٹھ دس دن کسی کھوہ میں، کسی جنگل میں وادی یا پہاڑی پر جا کر تیاگی بن جاؤ۔
چھڈیار کے چھ رکن ہیں۔ جو “میں میں” سے یوں بھرے ہوئے ہیں جیسے بھڑ “بھوں بھوں” سے بھرے ہوتے ہیں۔