آسیب….. نمرہ قریشی
#_آسیب
آسیب سے متعلق کچھ دنوں پہلے ایک ناول پڑھنے کا اتفاق ہوا اور اج یہ ٹاپک دیکھ کر لگا کہ
اس بارے میں مختلف حوالے سے بات کی جا سکتی ہے لیکن میں آج ایک ایسے پہلو کو بیان کرنا چاہوں گی جو یک طرفہ محبت کرنے والوں میں یکساں پایا جاتا ہے۔
وہ ہے محبت۔۔۔۔۔ یک طرفہ محبت ……
محبت میں جہاں ہزاروں روشنیاں ہیں وہیں کچھ تاریک پہلو بھی ہیں
اس میں سب سے تاریک پہلو یک طرفہ محبت ہی ہے
یک طرفہ محبت بھی ایک آسیب ہے
ایسا آسیب جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں آ چمٹتا ہے اور ایسے چمٹتا ہے کہ جیسے کوئی جونک ….
جو دن رات ہمارا خون چوستی ہے
یک طرفہ محبت بھی تو ایسی ہی ہوتی ہے … انسان کو تڑپا سلگا کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیتی ہے مگر ہاتھ نہیں آتی … کسی آسیب کی طرح ارد گرد منڈلاتی رہتی ہے
نظر نہیں آتی
محسوس ہوتی ہے
مگر کوسوں دور جاتی دکھائی دیتی ہے یوں دل میں حسرتون کے طوفان بپا کر کے یہ محبت کا آسیب دل کو کھنڈر بنا چھوڑتا ہے …
ہم اسکے پیچھے جتنا بھاگیں یہ اتنا ہم سے دور ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ آسیب نما محبت بالآخر ہمیں ایک ایسے صحرا میں لاکھڑا کردیتی ہے جہاں چاروں طرف اندھیرے کے سوا نہ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ کچھ سجھائی دیتا ہے …
اور یہ اندھیرا رفتہ رفتہ ہمیں اپنی رگ جاں میں سرائیت کرتا ہوا محسوس ہوتا ….
پس یہ احساس اندھیرے میں گھرے رہنے کا احساس ، آسیب زدہ محبت میں مبتلا رہنے کا احساس …
بے بسی کی انتہا کا احساس …
ہمیں اندر سے کہیں مار دیتا ہے اور ہم زندہ لاش کی صورت ٹکٹکی باندھے دیکھے جاتے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے اور اس آسیب ….
محبت کے آسیب کی نذر ہوجاتے ہیں
محسن نقوی صاحب نے کیا خوب کہا ہے …
اک تم کہ تمہارے لیے میں بھی میری جاں بھی
اک میں کہ مجھے تم بھی میسر نہیں آتے
دل بھی کوئی آسیب کی نگری ہے کہ محسن
جو اس سے نکل جاتے ہیں مڑ کر نہیں آتے .