لکھ یار
آس………آصف حسین
“” لب مرگ جینے کا محرک آس ہے، ہر ناتواں کے بازو کی طاقت آس ہے، ہر گرے ہوئے کے اٹھنے کی کوشش آس کے باعث ہے. آس ہوگی تو قدم بڑھیں گے، صبح ٹرالے، ٹرک، ٹیکسی رواں دواں ہوگی. گھر میں صاحب تیاری کر رہا ہوگا دکان دفتر جانے کی، ماں کو بچوں کی تعلیم کی آس میں یونیفارم پہنا رہی ہے. کسی نے سیون سرٹیفکیٹ خریدے ہیں صرف ایک آس کی بنیاد پر کسی نے کن آنکھیوں سے دیکھا ہے، کوئی ملتا ہے کوئی روٹھا ہے آس کی وجہ سے آس یعنی کچھ اچھا ہونے کو ہے پر تمام مشینری اور مسلز لگے ہیں، سوچا لکھا جا رہا ہے، ڈیوٹیاں نبھائی جارہی ہیں اگر یہ آس نا رہے تو جمود قائم ہوجائے لمحے حنوط ہوجائیں. جہاں جہاں یہ نہیں ہے وہاں لاش پر خد ہی مزار ہے آدمی اور حیات ایصال ثواب کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑی ہے وہ بھی آس پار کے پار لگ جائے..