آنسو………سید محمد اشہد
ؤں کے بھی کئ روپ دکھائے ہیں مولا نے – آنکھوں کے رازداں ہیں آنسو – آنکھ میں آنسوؤں کا نہ ہونا دل کی سختی کی علامت کہ وہ صدفآنسو کیاجس میں گہر نہ ہو – دل کی نرمی کی علامت بھی یہی آنسو -یہی آنسو اگر رات دن چپکے چپکے بہے تو مرحوم حسرت کو عاشقی کا زمانہ یاد کروادیں :ڈ – یہی آنسو اگر محبوب کے رخسار پہ گرے تو شاعر شبنم کو شعلوں پہ مچلتا دیکھے – اور کہیں کوئ نامراد عاشق انہیں آنسوؤں کو محبوب کی آنکھ میں دیکھ کر اپنے غم کا اندازہ کرے – یہی وہ آنسو ہیں جنہوں نے اول اول تو غالب کو عشق میں بیباک کیا اور پھر دھو دھو کر پاک بھی کیا – یہی وہ آنسو جنہوں نے میر کو گہے تر اور گہے خوں بستہ ہو کر زمانے کے ظلم و ستم اور نجانے کیا کیا دکھایا- یہی آنسو جو کسی کا روزگار بھی ہیں – یہی آنسو جو کسی آنکھ کا پندار بھی ہیں -یہی آنسو اگر جو ندامت کے ہوں تو اس کی رحمت کے امید وار بھی ہیں کہ اللہ کی عظمت و جلالتِ شان کی جو بارگاہ ہے وہاں آنسو نہیں ہیں، اس لئے وہ ہمارے آنسوؤں کی بہت قدر کرتے ہیں کیوں کہ آنسو تو گنہگار بندوں کے نکلتے ہیں، فرشتے رونا نہیں جانتے، کیوں کہ ان کے پاس ندامت نہیں ہے، ان کو قرب عبادت حاصل ہے، قرب ندامت حاصل نہیں، قرب ندامت تو ہم گنہگاروں کو حاصل ہے۔ یہ سب تو ایک طرف مگر مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ باہر آتے ہیں آنسو اندر سے – جانے اندر کہاں سے آتے ہیں؟