بڑا گھاﺅ
تحریر: محمد عاصم لطیف
صاحبو ! اگر ٓپ یہ سمجھ کر پڑھنے پر خود کو راضی کیا ہے کہ یہ آپ کے گھاﺅ کا پتہ دے گا تو برائے کرم میرے مشورہ پر عمل کریں اور آپ قطعاً نہ پڑھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر گھر میں ایک انسانی چہرہ ہوتا ہے اسی کے پتے کے گھر ملتا ہے مگر اس گھر کی روح ایک وقت میں کتنی زندگیاں گزارنا ممکن ہو سکتیں ہیں؟ وہ کتنے روپ ؟ وہ کتنے روپ ہو سکتی ہے؟کچھ بھی کہنا یقینا نا مناسب ہو گا۔یہ تو خاموشی کی ایک تلاش ہے اور شاید صرف تلاش ہے۔
ایک وقت ایسا گزرا ہے کہ گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی ترازو میں تولا جاتا تھا۔یہ بھی اسی وقت کی بات ہے کہ گھاﺅ اور علم اپنا بھرپور وجود رکھے ہوئے تھے۔اس خطِ تقسیم کی روشنائی سے شناسائی خوب ہو گی۔اور ہو کر رہی۔اندرونی اور بیرونی گھاﺅ کا وجود منظر عام پر آیا اور بمطابق ادویات بھی تجویز کی جانے لگیں۔شاید، اب وقت اک گھاﺅ کے لیے تھم سا گیا ہے۔خطِ تقسیم کی روشنائی بھی خشک ہونے کو ہے کیونکہ روشنائی جب تک اپنا گیلا پن برقرار رکھے گی گھاﺅ کی پیچیدگیاں اور اور جسارت بڑھتی جائے گی۔جس رویے کے روپ کو بہروپ کو روپوش کرنا درکار ہے اس کے اثرات بہت مضبوط حد تک اپنے آپ کو چھپانے میں کامیاب ہیں۔رویے کا بہروپ ہے گھاﺅ۔
صاحبو ! اب یہ قطعاً کہہ دیجئے گا کہ اب تک عنوان تو زیر بحث آیا ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شے سے حد درجہ محبت اور شدید قسم کا لگاﺅ ہو اس کو اتنا ہی پردہ میں رکھنا پڑتا ہے جہاں خود کو بھی جھانک کر دیکھنا ممنوع ہے اور یہ گھاﺅ سوچ کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
وقت کو محبت کی کروٹ بٹھانے کا ہنر چھوٹے گھاﺅ کے پاس ہے۔ غریب بانٹنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ یہ ایسا سہارا مسیر کرتا ہے کہ سرکش لہروں سے ٹکرانا آسان تر لگتا ہے۔ محبت کی شیریں بڑھانے، سہارے کا قدرتی معنی قائم و دائم رکھنے ، وجود کو برقرار رکھنے میں اس چھوٹے گھاﺅ کے کمالات میں سے ایک ہے۔
معذرت کر لوںکہ جس گستاخی کو زیرِ نظرآنے کو ہوںوہ میرے بے انتہا لگاﺅ کا برملا اظہار ہے۔ لوگو! لگاﺅ کا برملا اظہاربہت نقصان دہ ہے۔وجودِ کامل کو بکھیرنے کے سارے اوزار اس اظہار کی گتھی میںبند ہیں۔
معاشرے میں روایت عام ہے کہ آپ ہمیں بیٹھنے کی جگہ دیں، ہم لیٹ خود ہی جائیں گے۔چھوٹے گھاو¿سے سہارا ملنے پرہم اس ہی کی کروٹ بیٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے گھاو¿ کے اثرات کو تقویت ملے گی، پر ایسا نہیں ہو پاتا۔جیسے ہی بڑے گھاو¿ کی نشاندہی کروا دی جاتی ہے ، ویسے ہی قدموں کی چاپ اپنے سے دور جاتی سنائی دیتی ہے۔خامشی کا سکون، وجود کا اطمینان ان ہی قدموں پر قدم رکھے واپس چل دیتے ہیں۔ بڑ۱ گھاو¿کوئی دکھاوے کی شے نہیں ہے۔یہ تو آپ کے اندرکی سربلندی ہے۔یہ چھوٹے لگاو¿ کہ مٹھاس اور تقویت ہے ۔ شاید یہ وہ اسمِ اعظم ہے جو ہر شخص اپنے اندر برقرار یا بے قرار رکھے ہوئے ہے ۔ کیا خوب کہا ہے، حضرت اقبالؒ نے©:
بخود نگر! گلہ ہائے جہاں چہ می گوئی
اگر نگاہ تو دیگر شودجہاں دگر است!