جنت کی تلاش ، رحیم گل ، تبصرہ ، مریم فاروق
تبصرہِ کتاب : جنت کی تلاش
مُصنف : رحیم گُل
سالِ اشاعت : 1981
‘نکلنا خُلد سے آدم کا سُنتے آئے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔ زیرِ نظر کتاب میں آدم اُسی نظریاتی اور زمینی جنت کا جنون پالے بیٹھا ہے جہاں سے کبھی اُسے اذنِ سفر دیا گیا تھا۔ ‘جنت کی تلاش’ مصنف رحیم گُل کی ایسی نادر کتاب ہے جس میں انھوں نے ادب کی دو مشہور اصناف ‘ناول’ اور ‘سفر نامے’ کو انتہائی خوبصورتی سے یکجا کیا ہے۔ جہاں ایک طرف قاری جنت نظیر شمالی علاقہ جات کی سیاحت سے لُطف اندوز ہوتا ہے وہیں دوسری طرف ناول کی کردار نگاری اُس کے ذہن کو مصروف رکھتی ہے۔ ‘جنت کی تلاش’ رحیم گُل کی تمام تحریروں میں ہی نہیں بلکہ اُردو ادب میں بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔
‘جنت کی تلاش’ ناول مذہب، معاشیات، تاریخ، فلسفہ اور سیاست کی دقیق الجھنوں میں سفر کرتا نظر آتا ہے، جنکا اظہار زیادہ تر ناول کے مرکزی کردار ‘امتل’ اور مصنف کے نمائندہ کردار ‘وسیم’ کے درمیان پُر مغز بحث و مباحثے سے ہوتا ہے۔ امتل انسانی فطرت میں موجود ‘شر’ کو ماضی حال اور مستقبل پر حاوی دیکھتی ہے اور اسی سے اُمنڈتی بے چینی اُسے کُو بہ کُو گردش میں رکھتی ہے۔ عاطف، امتل کا بڑا بھائی، وسیم اور امتل کے درمیان پُل کا کام ادا کرتا ہے۔
ناول کا آغاز مانسہرہ کے ڈاک بنگلے سے ہوتا ہے۔ اس سے آگے ان تین کرداروں کے ساتھ ساتھ کچھ متفرق کردار بھی اپنا رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ جن میں سوات کا وزیر خان، ناران کی مائی حوا، سکردُو کا ڈاکٹر اور اُسکی بیوی اور ان کے علاوہ بھی بہت سے سہ رنگے کردار دکھائی دیتے ہیں۔
تقریباً تین دھائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ناول قارئین کے لیے اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ شاید ایسے ہی کسی حوالے میں انگلش شاعر ‘John Keats’ نے کہا تھا کہ ‘ A thing of beauty is a joy forever’. یہ ناول جہاں ایک طرف سنجیدہ اذہان کو متاثر کرتا ہے وہیں فطرت کے چاہنے والوں کے لیے بھی الگ کشش رکھتا ہے۔ اس میں زیرِ بحث لائے گئے عوامل اور نظریات آج بھی انسانی ذہن پر دستک دیتے ہیں۔ چھ سال میں مکمل ہونے والا یہ ناول گو طویل سہی لیکن پڑھنے والوں کو اپنی طوالت سے بیزار نہیں کرتا۔ اس کی بیشتر سطریں جہاں عقل و خرد کو مصروف رکھتی ہیں وہیں کئی الفاظ قاری کو کئی لمحوں کے لیے مبہوت کر دینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اٹالین سیاح کے عام فہم لہجے میں کہے گئے درج ذیل الفاظ:
” اولاد کے لیے دولت چھوڑ کر اسے بے دست و پا نہیں بنانا چاہیے۔ زندگی کے بازار میں اسے اپنے ہاتھوں سے خود سودا خریدنا چاہیے۔ مجھے واقعی اپنے بیٹے سے پیار ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب اُسے ہوش آئے تو اسکے چاروں طرف تمناؤں اور خواہشوں کا ہجوم ہو۔ ہر خواہش اُسے تڑپائے اور ہر خواہش کو پورا کرنے لے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگائے۔ اس طرح وہ مصروف بھی رہ سکتا ہے اور خوش بھی۔ اسے زندگیوں کی تلخیوں پر سوچنے کا موقع ہی کب ملے گا ۔ میں اس کے لیے دولت چھوڑ کر اسکے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتاکہ اسکی ہر خواہش پوری ہو جائے ہر حسرت نکل جائے اور ایک دن سوچنے لگ جائے کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔ اچھے دوست میں نہیں چاہتا کہ میرا بچہ اس سوچنے والے دن کا سامنا کرے اور آگے بڑھنے کا راستہ رُک جائے اور پھر میری طرح روح کی تلاش میں مارا مارا پھرے۔’
ادب میں کچھ منفرد ڈھونڈنے والوں کے لیے یقیناً یہ ناول ایک انمول سوغات ہے کہ اس میں وہی سب کچھ تو ہے جس سے انسانی ذہن مختلف ادوار میں گزرتا آیا ہے۔
مریم ذیشان