لکھ یار

حیات از قلم عظمیٰ خرم

#پری_اپرووڈ 

#حیات_پارٹ_19

#حیات

پارٹ 19 

وائی زیڈ اور احد سلطان دونوں ہی سب کی نظروں کا مرکز تھے خاص کر ملک صاحب اور ان کی بیٹی شریں کا،ملک صاحب نے جانے کتنی بار پہلو بدلا تھا،شیریں کے دل کی بے چینی بھی سوا نیزے پر تھی۔گرد و پیش سے بے نیاز اس کی نگاہ کا مرکز سٹیج پر بیٹھا احد سلطان تھا جس نے ایک نگاہ غلط بھی شیریں پر نہ ڈالی تھی، شیریں نے زندگی میں کبھی خود کو اتنا بے بس محسوس نہیں کیا تھا ……… بار بار بھٹکتی نگاہ احد سلطان کے سراپے میں الجھ،الجھ جاتی تھی اسے ایسا لگا جیسے یہ کوئی اور ہی احد سلطان ہے،یہ اعتماد،یہ شان،یہ بے نیازی……… اس کے دل نے بھی یہی کہا کچھ تو ہے……… پر یہ وہ احد نہیں جسے وہ پچھلے چھے،سات سالوں سے دیکھتی آ رہی تھی،جس کو جاننے کا وہ دعوی رکھتی تھی، یہ تو کوئی اور ہی شخص تھا جسے وہ آج پہلی بار دیکھ رہی تھی………….. یہ خیال اس کے دل پر کسی حقیقت کی طرح نقش ہو گیا اور بسسس اسی لمحے،”شیریں ملک”،کا دل،”خالی “ہو گیا………… بلکل “خالی “پر آنکھیں بھر آیں –

 

یمنہ بختاور کے ساتھ پہلی قطار میں بیٹھی مشرق و مغرب کا حسین امتزاج لگ رہی تھی اس کے دل کی خوشی نور بن کے اس کے چہرے پر جهلك رہی تھی ۔احد کو سٹیج پر خطاب کی دعوت دی گئی ۔ قمیض کے بازو کہنی تک فولڈ کئے ،کھلتا ہوا گندمی رنگ ،سادہ سے حلیے میں بھی بہت کچھ خاص تھا پر کیا ؟یہ بات شریں سمیت ہر شخص جاننا چاہتا تھا –

 بار بار شیریں کی سوالیہ نظریں اگلی نشستوں پر بیٹھی ،”وائی زيڈ”،تک چلی جاتیں ۔یتیم خانہ کے سارے اساتذہ اکرام بہت فخر سے احد کو دیکھ رہے تھے ۔رسمی سی بات چیت کے بات احد نے کہا ،”یہاں آنا اور یہاں سے جانا دونوں ہی میرے لئے مشکل تھا ،بہت بہت مشکل ۔اپنی ماں کا میں سب سے لاڈلہ اور چھوٹا بیٹا تھا اپنے باپ کی آخری نشانی ۔میں سمجھ سکتا تھا میری ماں نے کس طرح دل پر پتھر رکھ کر مجھے یہاں داخل کروایا تھا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔پر یہاں آ کر میں نے ایک بات سوچ لی تھی جو بھی ہو جیسے بھی ہو مجھے پڑھنا ہے ،کچھ بننا ہے ۔مجھ سے پہلے میرے دونوں بھائیوں کو یہ موقع ملا تھا پر ان کے نصیب میں نہیں تھا کہ وہ ہمارے گھر کے حالات بدل پاتے شائد اللّه نے ماں کو سکھ دینے کی سعادت میرے ہی نصیب میں لکھی تھی ۔پر میری اس کوشش میں کچھ لوگوں نے میرا بڑا ساتھ دیا ان کا ذکر نہ کرنا بڑی زیادتی ہو گی ۔آپ سب کو بھی یہ نصیحت کرنا چاہوں گا کہ زندگی میں کچھ اور یاد رکھیں نا رکھیں اس شخص کو کبھی نہ بھولیں جس نے آپ کو حالات کے بھنور میں دھکا دیا ہو…… یقین کریں اصل میں یہی لوگ آپ کے سچے اور خالص محسن ہیں…….. 

یہ لوگ نا ہوتے تو میں کبھی،”فایٹر ” نہ بن پاتا،حالات سے لڑنا،لڑ کے جیتنا کبھی نہ سیکھ پاتا -کچھ لوگ اکثر رات کو میرا بستر ،كمبل گیلا کر دیتے میں ساری رات سو نہ پاتا تو قرآن حفظ کرتا اپنا سبق دہراتا اس سے میرے دل کو سکون بھی ملتا اور گیلے بستر پر بھی نیند آ ہی جاتی ۔پھر میری اسکول کی کتابیں چھپا دی جاتیں مجھے اگلے دن جماعت میں دونوں ہاتھوں پر ڈنڈے پڑتے اور میں جماعت میں استادوں کی نظروں میں آنے لگا وہ سب سے پہلے مجھے پوچھتے کہ کام کیا یا نہیں ؟اور کبھی کبھی تو تکلف بھی نہ کرتے اور جماعت سے باہر نکال دیتے ۔نتیجہ میں نے اپنی کورس کی کتابوں کو رٹا لگانا شروع کر دیا کہ کوئی چھپا بھی لے تو مجھے پہلے سے یاد ہو پھر میں لائبریری سے اور کتابیں لے لے کر پڑھنے لگا ۔میٹرک کے امتحانات سے پہلے ایک استاد نے میرے بارے میں اپنا اندازہ بتایا تھا کہ احد پاس نہیں ہو گا یہ تو پکا فيل ہو گا ۔سب ہنسنے لگے جیسے اس وقت آپ اور میں ہنس رہے ہیں ۔بس تب میرے دل کو لگ گئی….. کہ جو بھی ہو جائے…….. فيل تو میں نہیں ہوں گا ۔اور اس دن رات کی محنت نے کیا خوب رنگ لگایا کہ مجھے کامیابی کی لت لگ گئی گویا ۔میری پہلی کامیابی…….میں میٹرک میں فرسٹ ڈویژن سے کامیاب ہو گیا سب کے ساتھ ساتھ میں خود بھی حیران تھا ۔وہی استاد محترم تشریف لاے اور بولے ،”اوے احد تیرے اتنے نمبر کیسے آ سکتے ہیں ؟ضرور تم نے نقل ماری ہو گی “۔ اس وقت میں خاموش رہا تھا پر آج اس کا جواب دینے کا اور آپ سب کو بتانے کا موقع ہے میرے پاس ،ہمیشہ یاد رکھیں امتحان چاہے پڑھائی کا ہو ،زندگی کا ،یا رشتوں کا بے ايمانی یعنی،”چیٹنگ” آپ کو مارجن سے پاس تو کروا سکتی ہے پر فرسٹ ڈویژن نہیں دلوا سکتی ۔”

تالیوں کی گونج میں احد کی نظر ،”وائی زيڈ “پر پڑی جو اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر اس کے لئے تالیاں بجا رہی تھی اس کی نم آنکھوں میں اس کے لئے فخر ،محبت ،احترام سب کچھ تھا ۔”اور ہاں آج آپ سب نے مجھے یہاں بلا کر جو عزت بخشی ہے وہ میرے لئے بہت انمول ہے بچپن سے میری ہر خوشی اور ہر غم اس یتیم خانے سے جڑا رہا ہے اور اسی لیے میں آج آپ سب کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ آج میرے محترم استاد حافظ صاحب میرا نکاح میری منگيتر یمنہ ضمیر سے پڑھوايں اور اس خوشی میں آج کا کھانا آپ سب کو میری طرف سے دعوت عام ہے قبول فرمایں “۔ 

احد کے اشارے پر سب کی نظریں،”وائی زیڈ “کی جانب اٹھ گیں،پر اب ان نظروں میں سوال نہیں تھا،رشک تھا،احترام تھا،خوشی تھی اور شائد کہیں حسد بھی تھا –

یمنہ احد کے اس اعلان پر خوش بھی تھی اور حیران بھی…….پر آج اس کا دن تھا ،بہت بڑا دن……. اس لیے اس نے آنکھوں میں نمی کے ساتھ….مسکرا کے ہاں کا اشارہ دیا ۔

ویسے بھی یہاں حیران ہونے کے لئے اور کافی لوگ موجود تھے ۔

نکاح کے بعد سب نے مل کر کھانا کھایا ۔احد نے ادارے کا ایک ایک کونہ یمنہ کو دکھایا ۔سب بچے انہیں اپنے درمیان پا کر بہت خوش تھے ۔بختاور کی خوشی کا تو مانو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا،کبھی رو پڑتی تو کبھی ہنسنے لگتی ۔

ضمیر صاحب کے دل میں کچھ باتیں تھیں پر بیٹی کی خوشی دیکھ کر وہ بھی چپ ہو رہے ۔یمنہ کا آخر کار انہیں کسی حد تک راضی کر ہی لیا تھا،”دیکھیں بابا!زندگی،موت تو صرف الله کے ہاتھ ہے نا…… تو کسے پتا….. میری زندگی کتنی ہے…… پر اگر ڈاکٹرز کی بات مان بھی لوں….. اور کبھی شادی نہ کروں تو کیا گارنٹی ہے کہ میں پچاس یا ساٹھ سال کی زندگی جیوں گی……..? اور آپ خود سوچیں احد کے علاوہ کون ہو سکتا ہے جو سب کچھ جانتے بوجھتے بھی مجھے اپناے گا? تو اگر رسک لینا ہی ہے تو میں یہ رسک لوں گی،احد کا ساتھ میرے لئے “کوالٹی ٹائم “ہے –

مجھے اکیلے لمبی زندگی نہیں چاہیے……. مجھے احد کے ساتھ،”اچھی اور چھوٹی “زندگی بھی قبول ہے –

ملک صاحب اور شریں تو نکاح کا اعلان سن کر ہی جا چکے تھے ۔ اس سے زیادہ دیکھنے کی ان میں تاب نہیں تھی –

یمنہ کو گھر چھوڑتے وقت اس نے یمنہ سے معذرت کی کہ جانے کیسے خود بخود یہ سب ہو گیا بس اس کے اندر سے ایک آواز آئی اور وہ کر گزرا کچھ بھی پلان نہیں تھا ۔ بس اس کے دل میں یہی تھا کہ جتنا جلدی ہو سکے تمہیں اپنا لوں،زندگی میں بہت کچھ کھویا ہے پر اب تمہیں کھونا شائد میں برداشت نہ کر پاتا……..  

 یمنہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوے اسے یقین دلایا کہ وہ بھی اتنی ہی خوش ہے جتنا وہ خود خوش ہے ۔

“ویسے چاہتا تو میں تھا کہ تمہیں مال روڈ کے اسی چوک پر گاڑی روک کر پروپوز کروں پر وہ کیا ہے نا مجھ سے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھائی نہ جاتی اور پھر تمہارا کیا پتا میرا مطالبہ سنتے ہی کسی سکوٹر والے سے لفٹ لے کر بھاگ جاتی “۔ یمنہ کے چہرے پر کئی رنگ آ کر ٹھہر گئے اور وہ ہنستی چلی گئی ۔”ارے ارے واہ کیا بات ہے کوئی ایسے ،”بلش”،بھی کرتا ہے بھلا “؟ یمنہ حیرت زدہ تھی کہ اس نے شرمیلے سے احد کا یہ انداز یہ رنگ کب دیکھا تھا بھلا ۔اور احد بھی جیسے آج سوچ کر بیٹھا تھا کہ اسے اسی کی باتیں لوٹا دے گا ۔

اگلے کچھ دنوں میں مختصر سے مہمانوں کی موجودگی میں وہ دلہن بنی اس کے دل کے ساتھ ساتھ اس کے گھر کی مكين بن بیٹھی تھی۔احد نے محسوس کیا کہ اس کی زندگی کا سب سے حسین پل ،”وائی زیڈ”تھی ۔گاؤں سے آے چوہدری وجاہت ،حسن اور حسن کی ماں رشیدہ،انہیں ولیمے کے بعد اپنے ساتھ گاؤں لے گئے تھے ۔یمنہ نے پہلی بار گاؤں دیکھا تھا وہاں کی آؤ بهگت اور سادہ لوح لوگوں نے اس کا دل جیت لیا تھا ۔پر یمنہ نے وہاں چند دن رہ کر محسوس کر لیا تھا کہ چوہدری وجاہت بختاور کے لئے خاص لگاؤ رکھتے ہیں، ان کی نظروں کا والہانہ پن بختاور کے بہت خاص تھا اور شائد اسی لئے انہوں نے ساری عمر شادی نہیں کی تھی ۔

زندگی اب ایک ڈگر پر چل نکلی تھی…… بختاور کو بھی یمنہ کی صورت میں تنہائی کا ساتھی مل گیا تھا -یمنہ سارا دن اس کی نا محسوس طریقے سے اس کی لاٹھی بنی رہتی،پر بختاور سب جانتی تھی کہ یمنہ صرف اسے اکیلا نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہر وقت اس کا سایہ بنی رہتی ہے –

 

حج پر جانے والے امیدواران میں اب ،”وائی زیڈ”،بھی شامل تھی ۔سارے انتظامات مکمل تھے پر جانے سے کوئی ایک مہینہ قبل وائی زیڈ کی طبیعت خراب ہونے لگی دل کے سارے خدشات خوفناک حقیقت کی طرح سامنے آنے کو بیتاب تھے ۔احد کو فوری طور پر کوئی نہ کوئی عملی قدم اٹھانا تھا۔ڈاکٹرز سے مشورے کے بعد اسے یمنہ کو فورا لندن لے کر جانا تھا وہ کسی بھی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا پر ایسے میں اپنی نابینا ماں کو کس کے آسرے پر چھوڑتا ۔تبھی حسن کی ماں نے احد سے کھل کر بات کرنے کی ٹھانی کہ وہ بختاور کا نکاح وجاہت سے کر دے اس طرح اس کی ماں کو محرم بھی مل جائے گا اور باقی کی عمر کا ساتھ بھی ۔دیکھا جاتا تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں تھی پر بات تو معاشرے کی تھی لوگوں کی تھی جن کے ذہن عورت کو ستی ہونے کی اجازت تو دیتے تھے پر دوسری شادی کی نہیں ۔اسے یاد آیا کہ جب بھی کبھی وہ اکیلے گھر سے باہر جاتے تو یمنہ اسے احساس دلاتی کہ گھر پر ماں اكيلی ہیں یا جب بھی وہ دونوں اکیلے بیٹھے باتیں کرتے تو انہیں یہ خیال ستاتا کہ کاش اس کا باپ آج ہوتا تو اسکی ماں کا تنہائی کا ساتھی ہوتا ۔وہ اکثر یہ باتیں سوچ کر دل ہی دل میں شرمسار ہوتا پر پھر معاشرے کا دباؤ اس پر حاوی ہو جاتا اور وہ خود غرض بن جاتا ۔اور اب تو اس کی ماں ایک ساتھ کی زیادہ حقدار تھی اور اس طرح وہ بھی بے فکر ہو کر یمنہ کے علاج کے لئے رک سکتا تھا ۔

فیصلہ آسان نہیں تھا پر آخر کار اس نے ماں سے بات کرنے کا اختیار یمنہ کو دیا ۔

بختاور تو سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئی کہ اب وہ بیٹے اور بہو پر بوجھ ہے ؟یا کوئی گٹھری جسے اب وہ اپنے سر سے اتار کر کسی اور کے سر رکھنا چاہتے ہیں ۔اب اس بڑھاپے میں دنیا کتنی تھو تھو کرے گی اس پر ۔یمنہ اور رشیدہ نے اسے مل کر سمجھایا پر وہ بے بسی سے رونے لگی ،تبھی چوہدری وجاہت نے خود بات کرنے کی ٹھانی ۔ 

دیکھ بختو میں تجھے ایک زمانے سے جانتا ہوں ۔ساری عمر جس طرح تو نے بچوں کی خاطر رول دی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور پھر تیرے بیٹوں نے جس طرح تجھے مٹی مٹی کر چھوڑا تو خود بتا اگر احد بھی ويسا ہی بے غیرت نکل آتا تو تو کیا کرتی ؟کہاں جاتی ؟اب بھی تو دیکھ اللّه نے تیری نظر واپس لے لی ایسے میں تجھے ہر وقت ایک سہارا چاہیے کوئی اپنا جو ہر دم تیرے ساتھ رہے سایہ بن کے جو تجھے بوجھ یا ذمہ داری نہ سمجھے اپنا ساتھی سمجھے اپنی ضرورت سمجھے ۔میں جانتا ہوں میں کبھی حشمت کی جگہ نہیں لے سکتا ۔اللّه نے ہر انسان کی اپنی اپنی جگہ بنائی ہے کوئی کسی دوسرے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔تو یہ سمجھ لے کہ مجھے تیری ضرورت ہے ۔دکھ اور سکھ میں ساتھ دینے والے ایک ساتھی کی ۔” 

زاہد اور حامد کو احد کی شادی اور سب کے حج پر جانے کی اطلاع مل چکی تھی اور اب زاہد حامد کو بھڑکا کر اس کے ساتھ اس کے حصے کے پیسے لینے آ دھمکے تھے ۔گو کہ اس بار انداز ذرا شریفانہ تھا –

جاری ہے…….. جاری ہے…….

از قلم “عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button