حیات از قلم عظمیٰ خرم
#پری_اپرووڈ
#حیات_پارٹ_8
# حیات
پارٹ 8
احد بھی قریب کے پرائمری اسکول میں جاتا تھا۔ ناجانے کیوں بختاور چاہ کر بھی خود میں اتنی ہمت نہیں جمع کر پائی تھی کہ احد کو بھی،”یتیم خانے “،میں داخل کروا دے۔اس کے برعکس زاہد اور حامد ہر چھٹی پر جب گھر آتے تو ماں کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے کہ وہ احد کو ان کے ساتھ یتیم خانے بھیج دے ،وہ اس کا وہاں بھر پور خیال رکھیں گے۔
مگر نا جانے کیوں زاہد کا حد سے زیادہ اصرار اکثر بختاور کے خیالوں کی ڈور الجھا دیتا، اکثر اسے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا قصہ یاد آ جاتا اور لاکھ جھٹنکے پر بھی کچھ نا قابل بیان وسوسے اس کے دماغ سے مکڑی کے جالوں کی مانند چپک جاتے ۔بختاور ہمیشہ زاہد کے اس مطالبے پر خاموشی سادھ لیتی۔
شازی کی عمر اب اٹھارہ سال کے قریب تھی۔اسکول نہ جانے کے باوجود شازی نے عظیم اللّه کی پرانی کتابیں پڑھ پڑھ کر کافی علم حاصل کر لیا تھا ۔بختاور روزانہ صبح جاتے وقت اسے نوراں کی نگرانی میں چھوڑ آتی تھی ،جو کبھی نوراں کو کہیں جانا ہوتا تو بختاور شازی کو اپنے ساتھ ڈیوٹی پر ساتھ لے جاتی تھی ۔
جوانی کی اٹھان تھی ،پھول کی خوشبو سے اس کا آنگن مہکنے لگا تھا ۔بس اب ایک ہی آرزو تھی اسکی کہ کسی طرح کوئی اچھا رشتہ ملے تو بیٹی کو رخصت کر دے ۔ایسے میں ایک دن نوراں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسے شازی کو ہسپتال ساتھ لے جانا پڑا ۔وہ جب بھی اسے ساتھ لے جاتی تو شازی کو کسی کونے یا سٹور روم میں بیٹھا دیتی تا کہ کسی آے گئے کی بری نظروں سے بچی رہے ۔ماں تھی اس لیے جانتی تھی چیل کی نگاہ کیسے رکھنی ہے ۔شازی جب بھی اس کے ساتھ کام پر جاتی تو کوشش کرتی کہ ماں کا کوئی کام کر دے کہ چلو کچھ تو اس کا بوجھ ہلکا ہو پر بختاور اسے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتی اور سختی سے چادر کی بکل مار کے ایک طرف بیٹھنے کو کہتی پھر بھی کبھی کسی مریض کا کوئی رشتہ دار یا ديگر صفائی پر امور ملازم تاک میں رہتے اور رال ٹپکاتے ارد گرد منڈلاتے رہتے۔کئی ایک بختاور کو رشتے کے لئے بھی کہہ چکے تھے پر بختاور نہیں مانی ۔جو بھی تھا وہ ایک اونچے ڈوگر خاندان سے تعلق رکھتی تھی اب اگر حالات کی چکی میں پس رہی تھی تو ایسا بھی نہیں چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی کو بھی وہی سب سہنا نصیب ہو ۔
وارڈ میں مریض کے بستر کی چادر تبدیل کر کے واپس آئی تو دیکھا خاکروب جمیل جو صرف نام کا جمیل تھا ،ہولے ہولے جھاڑو لگا رہا ہے ساتھ ساتھ کن اکھیوں سے شازی کی طرف دیکھ کر گانا گنگنا رہا تھا ۔بختاور تيزی سے آئی اور جھپٹ کے شازی کا ہاتھ پکڑا اور قہر برساتی نظروں سے جمیل کو دیکھا ۔جمیل کی تو مانو روح ہی فنا ہو گئی۔ فورا وہاں سے رفو چکر ہو گیا ۔
بختاور شازی کو لے کر وارڈ میں آ گئی یہ زنانہ وارڈ تھی اور اب کھانے کا وقفہ چل رہا تھا ۔دونوں ماں بیٹی وہیں بیٹھ کر کھانا کھانے لگیں ۔بیڈ نمبر سات پر آج ہی ایک بڑی بی کو داخل کیا گیا تھا ۔ویسے تو ہر مریض کے ساتھ ایک خاتون تيمار دار کو رکنے کی اجازت تھی پر اس کے ساتھ درمیانی عمر کا ایک مرد تھا جو وقفے وقفے سے آتا اور کھانے کی چیزیں پہنچا جاتا ۔مرد ہونے کی وجہ سے اسے وارڈ میں رکنے کی اجازت نہیں تھی ۔اس لیے بار بار وہ بڑی بی یا ان کا بیٹا بختاور کو پکارتے ۔بختاور صبح سے اس چکر میں گھن چکر بنی ہوئی تھی ۔
اب بھی وہ دونوں کھانا کھا رہی تھیں جب اس بڑی بی نے اسے بلایا اور جوس کی دو بوتلیں اسے تھما دیں کہ یہ تم ماں بیٹی پی لو ۔بختاور کے لئے تو یہ عام بات تھی اکثر مریض اپنا جوٹھا کھانا ،کپڑے یا بخشش اسے بخش دیتے تھے پر شازی نے زندگی میں پہلی بار اس ٹھنڈے میٹھے جوس کا مزہ لیا ۔بڑی بی کی دور رس نگاہوں نے بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھا ۔آنے والے کچھ دنوں میں بختاور کی اس بڑی بی سے راہ رسم اور بھی بڑھ گئی ۔بڑی بی سے آپا بانو تک کا سفر طے ہو چکا تھا ۔بانو نے اس ایک ہفتے میں بختاور کی زندگی کے سارے باب تسلی سے پڑھ لئے تھے اور آنے والے دنوں میں مزید کیا کیا لکھا جانا تھا یہ بھی سوچ لیا تھا ۔
بختاور پر آپا بانو کی امارت کا رعب اچھے سے پڑ چکا تھا ۔آے دن کی بخشش کبھی پیسوں کبھی جوس اور پھل کی شکل میں بختاور کا گھر دیکھنے لگی ۔آخر ایک دن وہ بڑی بی صحت یاب ہو کر چلی گئیں ۔بختاور کے دل کو اداسی نے گھیر لیا ایسے مریض تو قسمت سے ہسپتال کے مہمان بنتے تھے ۔
دو ہفتے کے بعد ایک دن رات کی ڈیوٹی سے تھکی ہاری بختاور سو رہی تھی جب شازی نے اسے جگایا اور وہ آپا بانو کو اپنے چھوٹے سے کواٹر میں دیکھ کر عجیب سی حیرت کا شکار ہو گئی ۔”آپ یہاں کیسے ؟” ارے ہسپتال آئی تھی دوا لینے تو سوچا تم سے ملتی چلوں تو پوچھتی پوچھاتی یہاں تک آن پہنچی ارے بھئ !تمہارا ادھار دینا تھا “۔ آپا بانو گویا ہوئی بختاور نے پریشان ہو کر دیکھا ،”ہیں !کون سا ادھار “؟آپا بانو قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں ،”اے لو !تم نے اتنی خدمت کی میری تو میں نے بھی ٹھان لی جب بھی ہسپتال گئی تو اپنی چھوٹی بہن کے لیے تحفہ ضرور لے کر جاؤں گی تو بس یہ لو تمہارا سوٹ ،اب اچھا سا کر کے سینا اور پہن کے میرے گھر آنا،صحت یابی کی خوشی میں قرآن خوانی رکھوائی ہے میں نے “۔ آپا بانو نے بختاور کی جھولی میں سوٹ ڈال دیا اور ساتھ ہی گھر آنے کا بلاوا بھی ۔بختاور نے خوشگوار حیرت سے اسے خوبصورت جوڑے کو دیکھا ،اسے کب کسی نے اس قابل سمجھا تھا کہ کوئی اپنی خوشی میں اسے شریک کرتا۔
بس اس ملاقات کے بعد تو آنا جانا شروع ہو گیا۔ایک دو بار بختاور کو بھی بانو آپا نے اپنے گھر بلایا ۔بانو آپا کا مکان دیکھ کر بختاور کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔سارا مکان باہر کے ساز و سامان سے بھرا ہوا تھا ۔
بانو آپا اكيلی بیوہ عورت تھی جس کا اکلوتا بیٹا پردیس میں افسر تھا اور اسی کی کمائی کے یہ سب ٹھاٹھ تھے ۔
آخر پھر وہ دن بھی آیا جب بانو آپا نے اپنے اکلوتے بیٹے کا رشتہ شازی کے لئے دے ڈالا ۔بختاور عجیب مخمضے کا شکار تھی ۔اٹھارہ سالہ شازی اور اڑتیس سالہ بہروز کا کوئی جوڑ نہ تھا پر آخر کار بانو آپا کی چکنی چپڑی باتوں نے اور بہروز کی دولت کی چمک نے اس کی عمر کے عیب پر پردہ ڈال دیا ۔
انتہائی سادگی سے بختاور نے اپنی بیٹی کو ہر ممکن جہیز دے کر رخصت کر دیا ۔
سارا گھر سونا ہو گیا تھا اور احد سلطان اس کی تو گویا دنیا ہی لٹ گئی تھی ۔سارا دن منہ بسورتا رہتا یا شازی کو یاد کر کر کے روتا رہتا ۔
بختاور کے لئے ایک بار پھر فیصلے کی گھڑی آ گئی تھی ۔زاہد اور حامد کی دارلشفقت کی تربیت ان کی زندگی میں ایک نظم و ضبط لے آئی تھی وہ محلے کے باقی بچوں سے بہت مختلف تھے ۔اور اب شازی کی شادی کے بعد وہ احد کو گھر میں اکیلا چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی ۔اسی لیے بختاور نے دل پر پتھر رکھ کر احد سلطان کو بھی یتیم خانے میں داخل کروا دیا ۔اس کا خیال تھا کہ آنے والے دو سالوں میں جب اس کے بڑے بیٹے وہاں سے دسویں جماعت پاس کر کے آیں گے تو ماں کا سہارا بنیں گے اور تب وہ احد سلطان کو بھی وہاں سے نکال کر قریب کے اسکول میں داخل کروا دے گی ۔
احد سلطان ماں کے اس فیصلے پر بے حد خوش تھا ۔اپنے بھائیوں کے پاس دن رات رہنا اس کا خواب تھا ۔
شازی کی شادی کو ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا ۔اس ایک مہینے میں بختاور دو بار بیٹی کو ملنے گئی تھی پر اب اس کا استقبال چھوٹی بہن کی طرح نہیں بہو کی ماں کی طرح کیا گیا تھا ۔بختاور ایک خوددار عورت تھی لہٰذا عقل مند کو اشارہ کافی کے مترادف اچھے سے سمجھ گئی تھی ۔پر ماں تھی کیا کرتی ۔
احد سلطان پہلی بار چھٹی پر گھر آیا تو آپا سے ملنے کی ضد لگا بیٹھا ۔بختاور نے بھی غنیمت سمجھا اور کچھ پھل اور گڑ ساتھ لیا اور بیٹی کو ملنے چل پڑی ۔احد کے تو مانو پاؤں ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے ۔شازی کے سسرال پہنچ کر دروازہ بجايا پر وہاں تو تالا پڑا تھا ۔خوب دل ہی دل میں شرمندہ ہوئی کہ بنا اطلاع کئے کیوں چلی آئی ۔دونوں ماں بیٹا وہیں گلی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ۔بختاور کے دل کو انجانے خدشے گھیرنے لگے تبھی ایک ہمسائی نے اسے دروازے کے آگے بیٹھا دیکھ کر پوچھا ،”اے بی !تم کس کے انتظار میں یہاں پڑی ہو ؟” بختاور جلدی سے گویا ہوئی ،”یہ میری دھی کا گھر ہے ،اسی سے ملنے آئی ہوں پر دروازے پر تالا پڑا ہے “۔ ہمسائی نے بختاور کو سر سے پاؤں تک دیکھا ،”اچھا !پر یہاں تو تالا اٹھارہ بیس دن سے پڑا ہوا ہے ،جو لوگ یہاں کرایہ دار تھے وہ تو کب کے مکان چھوڑ کے چلے گئے یہاں سے “۔ بختاور کے سر پر تو جیسے آسمان گر پڑا اسے اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔اتنے میں محلے کی دو تین اور عورتیں بھی وہاں جمع ہو گیں ۔ان میں سے ایک دو کو بختاور قرآن خوانی پر بھی مل چکی تھیں ۔تب بختاور کو پتا چلا کہ بانو نامی عورت اپنے بیٹے کے ساتھ یہاں تین مہینے سے مقیم تھی ۔اور یہ گھر انہوں نے کرایہ پر حاصل کیا تھا اور زیادہ تر سامان بھی کرایہ پر یا محلے والوں سے مانگ کر رکھا جاتا تھا ۔اور اب وہ لوگ کہاں گئے کسی کو اس بارے میں کچھ پتا نہیں تھا ۔نہ مالک مکان کو نہ محلے والوں کو ۔
بختاور کا رو رو کے برا حال تھا ۔یا اللّه یہ میں نے کیا کر دیا ،دولت نے اتنا اندھا کر دیا تھا مجھے کہ میں نے اپنی بیٹی اپنے جگر کا ٹکڑا بنا چھان پھٹک کے کسی کے حوالے کر دیا ؟
اس اچانک صدمے نے نے بختاور کی سدھ بدھ مار دی تھی ۔نا جانے کتنے دن ہو گئے تھے وہ صبح ہی جا کے وہاں دروازے پر بیٹھ جاتی اور رات ڈھلے گھر واپس آتی کہ شائد کوئی اسے اس کی بیٹی کا پتا بتا دے ۔مالک مکان نے اس کی ذہنی و جسمانی ابتر حالت کو دیکھتے ہوے اسے گھر تک کھول کر دیکھا دیا ۔سارے گھر میں سناٹے کا راج تھا جانے والوں نے کوئی نشان نہ چھوڑا تھا ما سواے چند جوڑے کپڑوں کے ۔ان میں ایک جوڑا اس کی شازی کا بھی تھا ۔بے بس ماں اسی جوڑے کو سینے سے لگاے بیٹی کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کرتی ۔
دیکھنے والی ہر آنکھ اشک بار اور دل دکھی تھے ۔سچ ہی تو ہے اولاد مر جائے تو ماں کو صبر آ جاتا ہے پر گم جائے تو ماں پل پل مرتی ہے صبر کا تو سوال ہی کیا ۔
زاہد حامد اور احد سب کے دل خون کے آنسو روتے تھے ۔پر زاہد اور حامد کو لگتا تھا کہ ماں نے ان کی طرح شازی سے بھی جان چھڑانے کے لئے اسے بياها تھا ،اور اس سب کی ذمہ دار وہی تھی ۔
بختاور کو کسی پل چین نہیں تھا ۔اس کے پاس کھونے کو بچا ہی کیا تھا ؟اولاد ؟ظالموں نے وہ بھی چھین لی ۔
مصیبت کی پہلی منزل صبر ہے کر لو تو ٹھیک ورنہ بعد میں تو آ ہی جاتا ہے ۔مہینے گزر گئے تھے شازی کا کچھ پتا نہ چلا تھا ۔بختاور کو بھی صبر تو نہ آیا پر اس کی شخصیت پر دکھ اور سنجیدگی کی چادر اور گہری ہو گئی تھی ۔ کوئی نہیں تھا جو اس کے دکھ کی گہرائی ناپ سکتا پر وہ غلط تھی کوئی تھا ہمیشہ سے ازل سے جو آزمائیش میں ڈالنے والا ،آزمائیش سے نکالنے والا تھا ،جس نے کبھی کسی پر وہ بوجھ نہیں ڈالا جسے وہ اٹھا نہ سکے ۔کہیں دور کوئی سورہٴ ملک کی آیت تلاوت کر رہا تھا ،”الا یعلم من خلق “، “وہی نا جانے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے”۔
بختاور ایک بار پھر جیسے گہری نیند سے جاگی تھی ۔وہی تو تھا اس کے حال کا محرم ۔
بختاور کی آنکھوں کی بینائی تيزی سے کم ہونے لگی تھی ۔نظر کا چشمہ بھی لگ چکا تھا ۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ شدید صدمے نے اس کی بینائی متاثر کی ہے ۔
زاہد نے میٹرک کا امتحان تھرڈ ڈویژن میں پاس کر کے دارلشفقت کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ دیا تھا ۔بختاور کو بڑے بیٹے کے گھر آنے سے کچھ ڈھارس بندهی تھی کہ چلو کوئی تو اس کی تنہائی کا ساتھی ہوا ،کوئی تو اس کا بوجھ بانٹنے والا ہوا ۔شازی کی شادی کا قرض ابھی تک اس غریب کے سر تھا ۔
وہ کملی جانتی تھی کہ “فکروں کی قید سے رہائی،رزق کی جانب سے بےفکری سے مشروط تھی “,پر وہ نا سمجھ، سمجھ ہی نہ سکی کہ بیشک یہ دنیا کے عارضی سہارے تو مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں ان سے امید لگانا تو سرا سر بیوقوفی ہے ۔
زاہد نے مشکل سے ایک مہینہ ماں کے ساتھ قیام کیا اور پھر کراچی کا رخت سفر باندھ لیا ۔بختاور کے لاکھ روکنے پر اس نے سرد نظروں اور طنزیہ لہجے میں ماں کو باور کروایا کہ جس طرح سارا بچپن اس نے ماں سے دور رہ کے کاٹا ہے اب ماں کی باری ہے کہ وہ یہ سزا پوری کرے ۔
اور یہ لہجے ہی تو ہیں جو زندہ انسان کو نگل جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔
زاہد کراچی چلا گیا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔اپنی جنت سے دور اپنی جنت بسانے۔
بختاور ایک بار پھر اكيلی تھی۔”بے شک اللّه صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”۔ وہ اس آیت کی زندہ مثال تھی ۔
جاری ہے………..
از قلم ،”عظمیٰ خرم “