“حیات ” قسط 2 از قلم “عظمیٰ خرم “
#پری_اپرووڈ
#حیات
پارٹ 2
نہ سوال وصل، نہ عرض غم، نہ حکایتیں، نہ شکایتیں۔۔۔
“تیرے” عہد میں دل زار کے، سبھی اختیار چلے گئے۔۔۔
صبح کے قریب بختاور کی آنکھ لگی تبھی اسے حشمت نے آ کر جگا دیا تا کہ وقت رہتے وہ رفع حاجت سے فارغ ہو آے ۔بختاور نے جلدی سے اپنے وجود کو بڑی سی چادر میں چھپا لیا اور حشمت کے ساتھ چل پڑی ۔پریشانی اور ناگواری اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔تقریبا آدھ کلو میٹر کے بعد وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے ۔یہاں قطار در قطار غسل خانے اور لیٹرینیں بنی ہوئی تھیں ۔کچھ کے آگے مردوں کی قطار لگی ہوئی تھی اور کچھ کے آگے خواتین کی ۔ہسپتال انتظامیہ نے سرکاری کواٹروں سے کچھ فاصلے پر یہ غسل خانے تعمیر کئے تھے کسی کے لئے یہ زحمت اور کسی کے لئے رحمت تھے ۔فجر کی نماز کے بعد یہاں قطاریں لمبی ہونے لگتی تھیں اکثر اوقات جلدی جلدی کا شور مچانے والے پہلے میں پہلے میں کا راگ الاپنے والے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے اور موقع کا فائدہ کوئی تیسرا فریق اٹھا لیتا ۔خواتین عام طور پر منہ اندھیرے آتیں یا جب مرد حضرات اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر چلے جاتے تب آتیں ۔
بختاور کے لئے یہ سب بھی باعث زحمت تھا ۔کہاں تو وہ گھر کے پیچھے کے کھیتوں میں یوں جاتی اور یوں واپس آ جاتی پھر کسی کی روک ٹوک نہیں جہاں دل کرے بیٹھ جاؤ پر یہاں اس حالت میں پہلے اتنا پيدل چلو پھر پھولے ہوے سانس کے ساتھ قطار میں لگو۔
توبہ ہے بھئ یہ کسی آزادی ہے ؟منہ پر چادر کا پلو رکھے اس نے ناک سکیڑتے ہوے سوچا ۔
اس سے پہلے کہ حشمت بچوں کو اسکول داخل کروانے کا سوچتا بارڈر کے دونوں جانب حالات قابو سے باہر ہونے لگے ۔ڈیوٹی پر جانے سے پہلے وہ بختاور کو تنبیہ کرتا کہ کسی بچے کو نظروں سے دور نہ ہونے دے گو کہ وہ محفوظ تھے اور یہ سارا علاقہ مسلمانوں کا تھا پھر بھی حالات کا کچھ بھروسہ نہ تھا ۔جب تک سب ٹھیک نہ ہو جاتا سب کے سروں پر تلواریں لٹکتی رہنی تھیں ۔خوف کے سایے چاروں طرف پھیلے ہوے تھے تبھی حشمت کو اس کی بیٹی صغراں کا تار ملا ۔
بے حد پریشانی میں اس نے بچوں اور بختاور کو اللّه کی امان میں دیا اور خود بیٹی کی تلاش میں واپس جلندهر روانہ ہو گیا ۔
اس کے جانے کے بعد سچ میں بختاور کو احساس ہوا کہ اس کی زندگی میں اس سايبان کی کتنی اہمیت تھی ۔جولائی کا دوسرا ہفتہ چل رہا تھا ۔وقت مانو تھم سا گیا تھا ۔بختاور سارا دن مرغی کی طرح اپنے بچوں کو پروں تلے دبا کر سہمی بیٹھی رہتی ۔ہر آہٹ پر وہ تيزی سے دروازے تک جاتی اور باہر بالکونی میں کھڑے ہو کر دور تک دیکھتی جہاں تک اس کی نظر جاتی ۔نہ اس کی نظر تھکتی نہ وہ ۔چوری چوری روتی دعائیں مانگتی اپنے سر کے سائیں کی خیر مانگتی ۔دن پر دن گذرتے چلے گئے پر حشمت کو نہ آنا تھا نہ وہ آیا۔سارا دن وہ حسرت سے ديگر ہمسایوں کو دیکھتی جب وہ ڈیوٹی سے واپس آتے تو کیسے سارا خاندان چہک اٹھتا تھا رونقیں بحال ہو جاتی تھیں ۔
ديگر ہمسائیاں آتے جاتے اسے ٹٹولتیں ،”اے بختو !تیرے بندے کی کوئی خیر خبر آئی کہ نہیں ؟ہاے بہنا اللّه معاف کرے بڑی بری بری خبریں آ رہی ہیں اب تو نہ سکھوں نے بھائی چارے کا لحاظ کیا نہ ہندووں نے نا جانے کتنے گھروں پر شب خون مارا ہے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑ رہے ۔ویسے ہے تو كملی، تو روک لیتی نا اپنے خصم کو، اس کی عقل پر تو پردے پڑے تھے تو ہی سمجھا لیتی کیوں کودنے دیا اسے اس موت کی وادی میں ؟بیٹی تو پتا نہیں اس کے جانے تک سلامت رہی ہو گی یا نہیں پر اپنی جان اس نے خود داؤ پر لگا دی ۔۔۔۔۔لو بتاؤ بھلا ۔۔۔۔یہ تو کھلی خود کشی ہے ۔”
بختاور کیا کہتی جواب میں اس کے پاس تھا ہی کیا کہنے کو ۔پر اس کا معصوم سا دل یہ باتیں سن کر انجانے وسوسوں میں گھر جاتا اور وہ دل کے ساتھ زیر لب دہرانے لگتی ،”اللّه نہ کرے، اللّه نہ کرے، اللّه نہ کرے ۔۔۔۔”۔
فسادات بڑھنے لگے تھے اور لٹ پٹ کے آنے والوں کی تعداد بھی ۔ساتھ والے کواٹر میں ہسپتال کا چوکیدار اسلم اس کی بوڑھی ماں اور اس کی بیوی نوراں رہتے تھے ۔ان کے دو بیٹے تھے كليم اللّه اور عظیم اللّه ۔بس ایک نوراں تھی جو بختاور کو حوصلہ دیتی کہ ایک دن حشمت اللّه ضرور واپس آے گا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ حشمت اللّه تو نہ آیا پر ،”قیامت “،آ گئی ۔
بختاور حسب معمول کواٹر سے باہر نکل کر نوراں کے ساتھ بیٹھی سبزی بنوا رہی تھی اور اس کی نگاہیں دور سڑک پر بھٹک بھٹک جاتیں کہ شائد حشمت وہاں سے آ رہا ہو اور اس کی بے خبری میں اس کی نگاہیں اس کا استقبال کرنے سے محروم نہ رہ جایں آج بیس دن ہونے کو آے تھے اس کی آس کی ڈوری کبھی تن جاتی اور کبھی ڈھیلی پڑ جاتی ۔تبھی اس نے خاکی وردی میں دو پولیس والوں کو ہاتھوں میں ڈنڈا تھامے آتے دیکھا ساتھ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جہاں سے وہ گزرتے آتے ایک دو بندے زبان کا چسکا کھرا کرنے کو تجسس کے مارے ان کے ساتھ ہو لیتے اور یوں کواٹروں تک آتے آتے وہ ٹھیک ٹھاک ہجوم بن گیا ۔”تماشبینوں کا ہجوم” ۔نوراں ،بختاور اور ديگر دوسرے لوگوں کی سوالیہ نظروں کو رعونت سے نظر انداز کرتے وہ لوگ کواٹروں کی سیڑھیاں چڑھنے لگے اور پھر انہوں نے با آواز بلند پکارا ،”کواٹر نمبر 102″، اور اس سے پہلے کہ بختاور کچھ سمجھ پاتی انہوں نے اس کے کواٹر سے سامان نکال کر باہر رکھنا شروع کر دیا ۔سارے لوگ ہکا بکا تماشا دیکھنے میں مصروف تھے ۔تبھی حیران پریشان بختاور ہجوم کو چیرتی آگے بڑھی اور کانپتی ہوئی بولی ،”کیوں میرا سامان نکال رہے ہیں ،یہ ہمارا کواٹر ہے ،ہمیں آلاٹ ہوا ہے ۔”سنتری نے اسے سر تا پير دیکھا بختاور نے اس کے ہاتھ سے جھپٹ کر اپنا صندوق چھینا اور زمین پر رکھا ۔سنتری نے زو معنی نظروں سے ساتھ آے دوسرے شخص کو دیکھا اور پوچھا ،”انہیں ابھی تک اطلاع نہیں دی کسی نے “۔ بختاور کا دل یہ سن کر بند ہونے والا ہو گیا ۔تبھی وہ دوسرا شخص بولا ،”او بی بی تمہارے شوہر کو سکھوں نے مار دیا ہے آج پندرہ دن ہونے کو آے ہیں اور اب تم اس کواٹر میں نہیں رہ سکتی ۔یہ کواٹر اب مجھے آلاٹ ہو گیا ہے چلو شاباش اپنا سامان اٹھاؤ اور نکلو یہاں سے ۔چلیں جی سنتری صاحب آپ اپنا کام کریں یہ نا جایز قبصہ ختم کروایں “۔ “بختاور”، نے ،”بخت آور” سے ،”بد بخت “،کا سفر اس ایک لمحے میں اس ایک خبر سے طے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔قیامت در قیامت اس کی منتظر تھی ۔۔۔۔۔۔۔کس کس کو روے کس کس بات کا ماتم مناے ۔آنے والے اس کا سامان کواٹر سے باہر پهينك کر اپنا تالا لگا کر چلتے بنے ۔محلے کے کچھ لوگوں نے صداے احتجاج بلند کی کہ بیوہ کو کچھ دن کی مہلت ملنی چاہیے جس پر نووارد نے انہیں یہ نيكی خود کمانے کے لئے کہا ۔کہ اتنی ہمدردی ہے تو بیوہ کو تم پناہ دے دو بس اس مشورے کے بعد سارے ہمدرد اپنی اپنی ہمدردیاں جيب میں ڈالے نو دو گیارہ ہو گئے ۔روتی پیٹتی بختو اور اس کے روتے بلکتے نا سمجھ بچے بکھرے سامان کے بیچ بیٹھے زمانے کی بے حسی پر نوحہ کناں تھے ۔
ویسے دیکھا جائے تو وہاں سب ہی تو غریب تھے ایک ایک کمرے میں پورا پورا خاندان آباد تھا ایسے میں ایک بیوہ اور تین یتیم بچوں کو کون پناہ دیتا۔ کئی آنکھیں نم تھیں ،دل غمزدہ تھے پر تھے تو سب کے سب تماشبین ۔۔۔۔۔تبھی ایک بوا بولی ،”اے ہاے یہ رونا دھونا تو اب ساری عمر کا ہے ۔۔۔بیٹی اب تم بیوہ ہو ،پندرہ دن کی بیوہ اس حساب سے تم پر عدت لاگو ہو چکی ہے اب تم پردہ کر لو “۔
آسمان ،چرند ،پرند سب نے اس بوا کی بات پر قہقہہ لگایا ۔۔۔۔سب ہنسنے لگے اور زور زور سے گردان کرنے لگے ،”بیوہ ۔۔۔۔عدت ۔۔۔۔۔پردہ ۔۔۔۔۔ہنستے ہنستے سب کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے ۔تبھی ایک عورت نے دوسری کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔سرگوشی بھی ایسی کہ ایک کے کان سے دوسری اور پھر تيسری کے کان تک باآسانی سنائی دے ،”اے بہن خدا لگتی کہوں تو مجھے تو آنے والی اولاد منحوس لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔دیکھو نہ دنیا میں آئی نہیں اور باپ کو کھا گئی ۔۔۔۔توبہ توبہ ۔۔۔۔”۔
بات نکلتے نکلتے غمزدہ بختاور کے کان تک بھی پہنچ گئی ۔،”منحوس ،منحوس ،منحوس ۔۔۔۔۔۔چہار سو ایک ہی لفظ کی گردان تھی ۔
__________________________
“ارے نیفاں ! جم جم مبارک ہو تجھے! اللّه نے دھی دی ہے تجھے اور سبحان اللّه آنکھوں کی پتلیاں بھی سلامت ہیں ۔”
دائی آمنہ نے بچے کی ڈاکٹر ہونے کا فرض نبھایا اور اچھی طرح دیکھ بھال کر بتایا کہ بچی صحت مند ہے اور بینائی والی ہے ۔
حنیف بی بی عرف نیفاں نے نقاہت کے باوجود بچی کو گود میں لینے کے لیے آواز کی سمت بازو وا کر دیے ،”لا دے میری بیٹی ۔۔۔۔ماسی تو نے تسلی کر لی ہے نا ۔۔۔۔سچ میں میری بیٹی مجھ جیسی نہیں ہے نا “۔حنیف بی بی نے بچی کو گود میں لے کر اس کا چہرہ ٹٹولا اور اس کی آنکھیں ٹٹولنے ہوے پوچھا ۔
دائی آمنہ نے خوشی سے کہا ،”ارے ہاں نا كملی !سولہ آنے سچ کہہ رہی ہوں ۔میں کیا مخول کروں گی تجھ سے اور جهلی اس کی آنکھوں میں انگل نہ مار دینا ٹٹولتے ٹٹولتے ۔” حنیف بی بی نے فورا ہاتھ بچی کے چہرے سے ہٹاے اور اس کی آنکھوں کو چوم لیا ،”لے ماسی میں کوئی پاگل ہوں جو اپنی دلاری کی اکھ میں انگل مار دوں گی “۔
دین محمد اور حنیف بی بی دونوں حافظ قرآن تھے اور گاؤں کے بچوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے جس کے صلے کے طور پر گاؤں والے حافظ جی کے گھر اناج ڈلوا دیتے تھے ۔ آج ان دونوں کی زندگی کا آج سب سے بڑا دن تھا اللّه نے انہیں بیٹی سے نوازا تھا اور وہ بھی بینائی والی بیٹی سے ۔دین محمد اور نیفاں دونوں نابینا تھے اور بد قسمتی سے ان کا پہلا بیٹا چراغ دین بھی نابینا تھا۔ اس لیے اس بیٹی کی صورت اللّه نے انہیں ،”بینائی “،عطاء فرمائی تھی یہ ان کی ،”بختاور”،تھی ۔ان کی ،”بختوں”، والی بیٹی ۔۔۔۔ان کی آنکھوں کا نور ۔۔۔۔۔۔
____________________
روتے روتے بختاور کی حالت خراب ہونے پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا اور کئی گھنٹے کی مشقت کے بعد اللّه نے اسے ایک اور بیٹے سے نوازا ۔
از قلم ،”عظمیٰ خرم “