دو مونہی–سمے کا بندھن
سوچتی ہوں کہ میں تیاگ کلینک میں گئی ہی کیوں ؟ کیا فائدہ ہوا بھلا؟
اپنی بیماری دور کرانے کے لئے گئی تھی، ساری مخلوق کو بیمار کر کے آ گئی۔ وہی بات ہوئی نا۔ بڑھیا بڑھیا تیرا کبڑ دور ہو جائے یا ساری دنیا کبڑی ہو جائے۔
لیکن تیاگ بیتی سنانے سے پہلے میں اپنا تعارف تو کرا لوں۔ میں سانوری ہوں۔ تیس سال کی۔ سلمان سے میرج ہوئے دو سال ہوئے ہیں۔ لو میرج تھی۔ میرے خدوخال عام سے ہیں یعنی ایورج سے کچھ بہتر۔ ہاں ذہن کی تیکھی ہوں۔ کاٹھی مضبوط ہے جسم تنا تنا…. لیکن نہیں میں غلط بیانی کر رہی ہوں۔ کسر نفسی سے کام لے رہی ہوں۔ میرے خدوخال ایورج سہی لیکن مجھ میں بڑا چارم ہے۔ راہ چلتے سر اٹھا کر، گردن موڑ موڑ کر دیکھتے ہیں تو یوں دیکھتے ہیں جیسے سر سے پاؤں تک الو کے پٹھے بن گئے ہوں۔ بس میں نہیں رہتے، کنٹرولز ہاتھ سے چھوٹ جاتے ہیں۔ ڈولتے ہیں ، پتوار چھوٹ جائے تو کشتی ڈولتی ہے نا۔
میں لڑکی پن سے نکل آئی ہوں۔ لیکن ابھی لڑکی ہی ہوں۔ عورت نہیں بنی۔ اللہ نہ کرے کہ بنوں۔
عجیب سا عالم ہے۔ جیسے شام کو ڈسک ہوتی ہے، رات نہیں پڑی۔ دن بھی نہیں رہا لیکن دن دن سا لگتا ہے۔
اور ایک بات تو میں بھول ہی گئی۔ مجھ میں ایک عجیب سی بات ہے۔ جیتی ہوں۔ بھرپور جیتی ہوں۔ تھری ڈائمنشنل زندگی سے عشق ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خود کو جیتے ہوئے دیکھتی بھی ہوں۔ پرکھتی ہوں۔ سیانے کہتے ہیں ، دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہوتیں۔ نہیں ہو سکتی۔ یا تو جیو یا خود کو جیتے رکھو۔ وہی ایٹ دی کیک اینڈ ہیو اٹ والی بات ہے۔ پتا نہیں میری بات کیوں الگ ہے۔ کیک کھاتی ہوں ، پاس بھی رکھے رہتا ہے۔
ہئے۔ مصیبت ہے۔ بڑی مصیبت ہے۔ اپنے برتاؤ کی تفصیلات پر نظر رکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مثلاً میں جھوٹ بولتی ہوں۔ ساری دنیا بولتی ہے۔ میں کس شمار قطار میں ہوں بھلا۔ لوگوں کے لئے جھوٹ ایک معصوم سی چمکیلی سی آرام دہ بات ہے۔ ہئے ایسا ہے مجھے تو پتا نہ تھا…. لو میں نے خط لکھا تھا۔ پتہ ن ہیں کیوں نہیں ملا۔ مجھے تو اس لڑکے سے جذباتی لگاؤ نہیں۔ ایسے ایسے آرام دہ جھوٹ۔ لیکن ایسے جھوٹ میرے لئے آرام دہ نہیں ہوتے۔ کانفلکٹ کا باعث بن جاتے ہیں۔ ادھر جھوٹ بولا، ادھر اندر سے آوازے اٹھے۔ جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ۔
نہیں ، یہ مثال غلط ہے۔ مجھے یہ مثال نہیں دینی چاہئے تھی۔ میں نے تو کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں۔ کیوں بولوں ؟ جھوٹ وہ بولتے ہیں جنہیں ڈر ہوتا ہے کہ سننے والے کو سچ کڑوا لگے گا اور وہ تھو تھو کرے گا۔ میں تو ان لڑکیوں میں سے ہوں جن کے منہ سے کڑوا سچ سن کر بھی سننے والا بدمزہ نہیں ہوتا۔ پھر جھوٹ بولنے کا فائدہ؟ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ مجھ میں بڑا چارم ہے۔ راہ چلتے کوئی بانکا اچھا لگے تو ایسی چھلکی چھلکی بھرپور نگاہ ڈالتی ہوں کہ اس کا سارا کلف اتر جاتا ہے۔ ’’گفیا‘‘ ہو کر گر پڑتا ہے۔ پھر میرے اندر سے آواز آتی ہے۔ ’’تت تت۔ بے چارہ، اپنے آپ سے بھی گیا۔ ‘‘
مجھے پتہ ہے کہ میں بڑی طاقت ور نگاہ رکھتی ہوں۔ اتنی سادگی سے تجزیہ کرتی ہوں کہ کوئی اسے نخرہ مان ہی نہیں سکتا۔ سمجھتا ہے انوسنس ہی انوسنس ہوں۔ میک اپ کرتی ہوں لیکن کیا مجال کوئی سمجھے کہ میک اپ ہے۔ سمجھتے ہیں ، میک اپ سے بے نیاز ہوں۔ لو، وہ میک اپ ہی کیا جو میک اپ نظر آئے۔ پھٹے منہ ایسے میک اپ کا۔
بس میری طرح ہی مشکل ہے۔ میرے اندر کچھ ہے پتہ نہیں کیا ہے۔ پر ہے۔ جس طرح مدفون خزانے پر سانپ ہوتا ہے۔ جس طرح اہرام مصر کے اندر جادو ٹونا کیلا ہوا ہے۔ ویسا ہی کچھ ہے۔
اونہہ، غلط کہہ گئی۔ میرے اندر ایک نہیں دو ہیں۔ دو روحیں ہیں۔ کبھی ایک کنٹرول پر بیٹھ جاتی ہے کبھی دوسری۔ میں دو مونہی سانپ کی طرح ہوں۔ کبھی دو مونہی دیکھی ہے؟ اس کے دو سر ہوتے ہیں۔ ایک سرکی جانب، دوسرا دم کی جانب۔ سر اٹھایا، چل پڑی، پھر رک گئی۔ سرزمین پر رکھ دیا۔ پھر دم والا سر اٹھایا اور اس جانب چلنے لگی۔ اس جانب، کبھی اس جانب، پتہ نہیں چلتا کہ کب کسی جانب چلنے لگوں گی۔ پیش خبری سے عاری ہوں۔ مطلب ہے Unpredictable ہوں۔ بس یہی میری مشکل ہے۔ یہی میری بیماری ہے۔
لیکن ٹھہرئیے۔ شروع شروع میں مجھے پتہ نہ تھا کہ Unpredictability بری چیز ہے۔ الٹا میں تو سمجھتی تھی کہ یہ بڑی پیاری خصوصیات ہے۔ آپ کو کیا پتا، جوان لڑکی ہو۔ چھیڑ دینے والی نگاہ ہو۔ بے نیازی سے مخمور ہو، اوپر سے برتاؤ Unpredictable ہو۔ پھر تو وہ تلوار بن جاتی ہے۔
بچپن سے ہی دو دلی تھی۔ کبھی تو اپنی مس اتنی اچھی لگتی۔ اتنی اچھی لگتی کہ میں اس کے وارے نیارے جاتی۔ کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھتی تو ایسے دکھتی جیسے اکتائی تھکی ہاری بے جان عورت ہو۔ کبھی ماں باپ بڑے پیارے لگتے۔ کبھی ایسا لگتا جیسے قصائی ہوں۔
دو ایک محبتیں بھی ہوئیں۔ کبھی محبت کے جذبات سے چھلکتی، چھلکے جاتی۔ کبھی سوکھی کاٹھ ہو کر رہ جاتی۔
یہ دو دھاری پن بچپن ہی سے موجود تھا۔ دو سوادی تھی۔ کھٹ میٹھی، گنگا جمنی، گرم ٹھنڈی، الٹی سیدھی، سبھی کچھ تھی لیکن ان دنوں میں اس بات کو اہمیت نہ دیتی تھی۔ جوان ہوئی تو دو مونہی ابھرتی آئی۔ ابھرتی آئی…. چھا گئی۔ پھر دفعتاً مجھے احساس ہوا۔ ڈر گئی، بری طرح سے ڈر گئی۔
ان دنوں میں سلمان کی محبت میں چور تھی۔ اتنی لت پت تھی کہ دوسرا سر اٹھانے کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ اس دیوانگی میں ڈیڑھ سال گزر گیا۔ پھر ایک روز میں نے جو سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے سلمان نہ تھا۔ پتا نہیں کون تھا۔ نہ وہ رنگ، نہ وہ روپ، بے جان، جس سے مشک کافور کی بو آتی تھی۔ میں ڈر گئی۔ اپنی دنیا تباہ ہونے کے خوف سے ڈر گئی۔ خود کو بچانے کے لئے میں نے جھٹ پٹ سلمان سے شادی کر لی۔ شادی کی ہماہمی میں بات پھر چل نکلی۔
بہرحال مجھے احساس ہو گیا کہ یہ ایک بیماری ہے۔ میں مینٹل ہوں۔ میں نے اس احساس کو بہت دبایا۔ جتنا دباتی، اتنا ابھرتا۔ میں نے بڑے جتن کئے۔ ڈاکٹروں سے ملی، ہسپتالوں میں اس قدر گھومی پھری کہ لوگ مجھے ہاسپٹل ورکر سمجھنے لگے۔ سپیشلسٹ کیا دوا دیتے، انہوں نے میری بیماری کو سمجھا ہی نہیں۔ میں نے بہت سمجھایا لیکن سمجھانا آسان ہوتا ہے، سمجھنا بہت مشکل، ڈاکٹروں سے مایوس ہو گئی۔
شادی سے پہلے تو سلمان میری Unpredictable پر اس قدر مسحور کن ہوتا تھا جیسے سانپ بین پر ہوتا ہے۔ میں سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد بھی یوں ہی پھن پھیلا کر میرے ہیرے پھیرے لیتا رہے گا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، اس کا پیش خبری کا مطالبہ بڑھتا گیا۔ اسے میرے دو مونہی پر غصہ آنے لگا۔ میں گھبرا گئی، سوچتی رہی، سوچتی رہی۔ ادھر میں بھی تو ایک نہ تھی۔ میرے اندر کی دوسری میرے کان میں سرگوشی کرنے لگی۔ ہٹاؤ سلمان کو، کوئی اور سہمی جو تیرے دو مونہی پن پر مسحور ہو جائے۔ اپنے گرد کوئی اور پھن پھلا دیکھو۔ دنیا میں نوجوان سبھی اولتی بدلتیوں پر جان چھڑکتے ہیں۔ یہ سرزمین پر رکھ دو، دوسرا اٹھاؤ۔
دوسرا سر اٹھا کر سلمان کی طرف دیکھتی تو وہ سپاٹ نظر آتا۔ روکھا پھیکا۔ ہئے…. کیا میں اس پر جان دیتی رہی؟
پھر وہ واقعہ پیش آ گیا اور میں لرز کر رہ گئی۔
ایک روز سلمان کا ایک نیا دوست گھر آ گیا۔ اس وقت سلمان موجود نہ تھا۔ میں تو اسے دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ وہی…. وہی دو سال پہلے کا سلمان جسے دیکھ کر خود کو میں نے اس کے قدموں میں ڈال دیا تھا۔ وہی رنگ، وہی روپ، وہی شوخی، وہی تازگی۔ میں نے انجانے میں ایک بھرپور چھیڑنے والی نگاہ ڈال دی۔ اس نے پھن پھیلایا اور بین کے ہیرے پھیرے لینے لگا۔ عین اس وقت سلمان آ گیا۔ میں جاگ پڑی، ہوش میں آئی تو دیکھا کہ میری ’’میں ‘‘ ا لتھ پلتھ ہو رہی ہے۔ ڈر گئی۔ بری طرح سے ڈر گئی۔ اس روز میں نے فیصلہ کر لیا کہ تیاگ کلینک جاؤں گی۔ ضرور جاؤں گی، چاہے کچھ ہو جائے۔
چھ مہینے تیاگ کلینک کے متعلق میری ایک سہیلی نے مجھے بتایا تھا۔ وہ خود ذہنی بیماری میں مبتلا تھی۔ ایک مہینہ تیاگ کلینک میں زیر علاج رہی۔ صحت مند ہو کر لوٹی۔
دو پہاڑیوں میں تیاگ ایک قصبہ تھا۔ وہاں ڈاکٹر داؤد نے ذہنی بیماروں کے لئے ایک ہسپتال کھول رکھا ہے۔ ڈاکٹر داؤد ایک زمیندار ہے۔ ولایت سے ایم ڈی کر کے آیا ہے۔ مقصد پریکٹس کرنا نہیں بلکہ علاقے کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ عمر بھر کے تجربے اور تحقیق کے بعد اس نے اپنا طریق علاج ڈسکور کیا ہے۔ جڑی بوٹیوں اور مش رومز سے علاج کرتا ہے۔ اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ دور دور سے مریض آتے ہیں۔ ان کی رہائش کے لئے ڈاکٹر نے ایک ہوسٹل تعمیر کیا ہے۔
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن میری سہیلی نے بتایا ہے کہ علاج شروع کرنے سے پہلے وہ مریضوں سے زبانی اور تحریری حلف لیتا ہے کہ علاج کے دوران میں بغیر چون و چرا ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کروں گا۔ اس دوران میں ذاتی سوچ و بچار کو عمل میں نہیں لاؤں گا۔ میں سچے دل سے اپنی ول سرنڈر کرتا ہوں۔ یہ سن کر میں ڈر گئی۔ نہیں ، یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ میں سبھی کچھ تیاگ سکتی ہوں ، اپنی ول نہیں تیاگ سکتی۔ میرے پاس لے دے کر اک ’’میں ‘‘ ہی تو ہے۔ اسے میں کیسے تیاگ دوں ؟ کیسے کسی دوسرے شخص کے تابع کر دوں ؟ نہیں نہیں ، یہ نہیں ہو سکتا۔ میری سہیلی نے مجھے بہت سمجھایا کہ ذہنی بیماری کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’میں ‘‘ ہی تو ہوتی ہے۔ اس نے بڑی دلیلیں دیں لیکن میں نہ مانی۔
اس سے کچھ دیر پہلے میرے چچا نے مجھے ایک بزرگ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سانوری بیٹی ساری مشکلات دور ہو جائیں گی۔
بزرگ کی خدمت میں پہنچی۔ انہیں تفصیل سے اپنی ذہنی کیفیت سنائی۔ سن کر بولے۔ ’’بیٹی، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہماری بیعت کر لو۔ ‘‘
’’بیعت کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
بولے ’’بیعت کا مطلب ہے۔ حوالگی، سپردگی، خود کو ہمارے سپرد کر دو۔ ‘‘
’’کیسے سپرد کر دوں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بولے۔ ‘‘ اپنی میں تیاگ دو۔ سارا شہر تمہاری میں کا ہے۔ وہ خود سر ہو گئی ہے۔ بٹ کر دو ہو گئی ہے۔ جیسے سانپ کی زبان بٹ کر دو ہو جاتی ہے۔ ‘‘
غصے میں ، میں کھولنے لگی اور جواب دیئے بغیر بھاگ آئی۔
ہاں تو اس روز میں نے فیصلہ کر لیا کہ تیاگ کلینک جاؤں گی۔ لیکن حلف نہیں اٹھاؤ گی۔
اس رات میں نے سلمان سے کہا۔ ’’سلمان میں ایک مہینے کے لئے ہل سٹیشن جانا چاہتی ہوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کچھ دیر کے لئے اکیلی رہوں۔ کسی ایسے پہاڑی مقام پر جہاں بھیڑ بھڑکا نہ ہو، کراؤڈ نہ ہو۔ ‘‘
اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا۔ پھر بولا کہ دیکھو اگر واقعی تم تنہا تنہا رہنا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
تیاگ کا سفر خاصا دشوار تھا۔ پہلے تو گلیات کی طرف جانا پڑا۔ رات وہاں ٹھہری۔ پھر پھول گلی سے تیاگ جانے والی سوزوکی مل گئی۔ سڑک بہت تنگ اور نیم پختہ تھی۔ ساٹھ میل کا سفر سات گھنٹو میں طے ہوا۔ شکر ہے کلینک سے ملحقہ ہوسٹل میں جگہ مل گئی۔ رات گویا گھوڑے بیچ کر سوئی۔ اگلے دن نو بجے کے قریب کلینک پہنچی۔ ایک گھنٹہ ریسپشن میں انتظار کرنا پڑا۔ پھر ڈاکٹر نے اندر بلا لیا۔
اپنے روبرو ایک نوجوان ڈاکٹر کو دیکھ میں حیران ہوئی۔ سہیلی کی باتیں سن کر میں سمجھی تھی کہ ڈاکٹر داؤد معمر آدمی ہو گا۔
’’آپ ڈاکٹر داؤد ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں ان کا بیٹا ڈاکٹر خالد ہوں۔ ‘‘ وہ بولا۔ ’’والد صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ اب میں ان کی جگہ کام کر رہا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے خالد نے ایک لمبا سا کاغذ اٹھا لیا۔ بولا۔ ’’سب سے پہلے اپنی کیس ہسٹری لکھوا دیجئے۔ ہر وہ تفصیل بتائیے جسے آپ اہم سمجھتی ہیں۔ ‘‘
پتا نہیں اس وقت میرے ذہن میں یہ بات کیسے آئی۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔ یہ بتائیے مجھے کہ اس گاؤں کا نام تیاگ کیوں ہے؟
وہ مسکرایا، کہنے لگا۔ ’’بس نام ہے۔ جس طرح آپ کا نام سانوری ہے حالانکہ آپ گوری ہیں۔ ‘‘ تھوڑے سے وقفے کے بعد اس نے پھر سے بات شروع کی۔ کہنے لگا۔ ’’والد صاحب کا اس کے متعلق ایک نظریہ تھا۔ مفروضہ کہہ لیجئے۔ ‘‘
میں پھر سے بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر خالد میں مجھے ایک بے نام سی کشش محسوس ہونے لگی تھی۔
’’بتائیے نا!‘‘ میں نے کہا۔ ’’وہ مفروضہ کیا تھا؟‘‘ لیکن پہلے تو یہ بتائیے کہ تیاگ کا مطلب کیا ہے؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’تیاگ ہندی کا لفظ ہے۔ مطلب ہے چھوڑ دینا، ترک کر دینا۔ یہ قصبہ ہندوؤں نے آباد کیا۔ اوپر ٹیلے پر ایک مندر بنا ہوا تھا۔ مندر کے ساتھ ایک عمارت ہے۔ غالباً اس عمارت کا نام تیاگ بھون تھا۔ ‘‘ وہ رک گیا۔
’’والد صاحب کا نظریہ بھی تو بتائیے نا۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔
مسکرا کر بولا۔ ’’والد صاحب کا کہنا تھا کہ پہاڑوں کی بلندی کا انسانی جذبات سے گہرا تعلق ہے۔ جوں جوں نیچے اترو۔ جذبات کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ وہ گاڑھے ہو جاتے ہیں۔ بوجھل بھاری، جوں جوں اوپر جاؤ، جذبات میں لطافت پیدا ہوتی ہے۔ مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ نیچے لاگ لگاؤ بڑھتے ہیں۔ اوپر بے نیازی کا سماں پیدا ہوتا ہے۔
والد صاحب کہا کرتے تھے، دس ہزار کی بلندی پر بھور سمے کا عالم ہوتا ہے۔ ‘‘
’’بھور سمے کیا؟‘‘
’’جس طرح صبح سویرے ڈان کے وقت سپیدی سی ہوتی ہے۔ ایک عجیب سا سکون، اطمینان، نروان۔ دس ہزار کی بلندی پر جذبات کی ایسی کیفیت ہوتی ہے۔ نیچے کے لوگ تالاب میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ اوپر خواہش تو ہوتی ہے۔ پر اس میں ڈنک نہیں ہوتا۔ نیچے انسان کی ’’میں ‘‘ میں اتنا ملبہ ہوتا ہے کہ وہ پتھر بن جاتی ہے۔ اوپر روئی کے گالے جیسی ہلکی پھلکی رہتی ہے۔ نیچے محبت و نفرت دونوں میں دھار ہوتی ہے۔ اوپر نفرت بھی ہوتی ہے، محبت بھی۔ لیکن دھار نہیں ہوتی۔
’’اوپر سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آٹھ دس ہزار کی بلندی۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’آپ کو حیرت ہو گی کہ یہاں تیاگ میں کوئی ذہنی بیماری نہیں ہوتی۔ ذہنی بیماریاں نیچے جنم لیتی ہیں۔ وادیوں میں ، میدانوں میں۔ ایک بات یقینی ہے ذہنی بیماری ’’میں ‘‘ سے پھوٹتی ہے۔ ’’میں ‘‘ میں گرہیں لگ جاتی ہیں۔ آپ ایک سال یہاں قیام کریں۔ ساری گرہیں کھل جائیں گی۔ آپ ہی آپ ڈنک نکل جائیں گے۔ دھاریں کند ہو جائیں گی۔ ‘‘
میں خالد کی طرف حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ اس میں سے ایک عجیب سا اطمینان چھن چھن کر کمرے کی فضا کو منور کئے جا رہا تھا۔ اس کی باتیں میرے لئے بہت انوکھی تھیں۔ میری ’’میں ‘‘ پلپلی ہوئی جا رہی تھی۔ میں نے ایک شدید کوشش کی۔ اٹھ بیٹھی۔ ’’تھینک یو۔ ‘‘
اس رات میں اپنے کمرے کی ٹیرس پر بیٹھی رہی۔ بیٹھی رہی۔ پتا نہیں کب تک بیٹھی رہی۔ میں محسوس کر رہی تھی جیسے میرا وزن کم ہوتا جا رہا ہو۔ میرا تعلق دھرتی سے کٹتا جا رہا ہو۔
اگلے روز ڈاکٹر خالد نے کہا۔ ’’میں نے آپ کا کیس سٹڈی کر لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ دو ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گی۔ آج سے آپ کا علاج شروع ہو جائے گا۔ علاج شروع کرنے سے پہلے آپ کو ایک فارمیلٹی ادا کرنی ہو گی۔ یہ ایک حلف ہے۔ ‘‘ اس نے ایک چھپا ہوا کاغذ اٹھا کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ایک تو ہاتھ اٹھا کر حلف پڑھئے اور دوسرے اس فارم پر دستخط کر دیجئے۔
’’نہیں ڈاکٹر صاحب۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں اپنی ’’میں ‘‘ کسی کے حوالے نہیں کر سکتی۔ ‘‘
اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ اس حیرت میں ستائش بھی شامل تھی۔ میں نے جواب میں ایک بھرپور نگاہ چھلکائی لیکن خالد پر کلف تھا ہی نہیں جو ٹوٹتا۔ ہاں ذرا سا لڑکھڑایا ضرور تھا۔
کہنے لگا۔ ’’مسز سلمان۔ تمام ذہنی بیماریاں ’’میں ‘‘ سے پھوٹتی ہیں۔ یا تو ’’میں ‘‘ میں گرہیں لگ جاتی ہیں یا دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ یا کانٹے اگ آتے ہیں اس لئے ’’میں ‘‘ کو تیاگے بغیر شفا نہیں ہوتی۔ ‘‘
’’نہ ہو شفا۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔
وہ مجھے سمجھانے لگا۔ بولا :’’سائیکی ایڑی میں بھی ڈاکٹر مریض کی توجہ ذات کی جانب سے ہٹا کر اپنی جانب مبذول کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مریض لڑکیوں کو ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے۔ ‘‘
مجھے اس پر غصہ آ گیا۔ میں نے کہا۔ ’’ڈاکٹر خالد، میں اتنی دور چل کر آپ سے محبت رچانے نہیں آئی۔ ‘‘ پھر میں نے ایک ایسی نظر اس پر ڈالی جس کا مطلب تھا۔ ’’آپ بے شک مجھ سے محبت رچائیں۔ ‘‘
وہ گھبرا گیا۔ کہنے لگا۔ ’’اچھا آپ یوں کریں کہ آٹھ دس روز یہاں قیام کریں اور اس مسئلہ پر سوچیں۔ شاید….‘‘ وہ رک گیا۔
’’کیا آپ حلف لئے بغیر علاج شروع نہیں کر سکتے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’حلف علاج کا ایک حصہ ہے۔ اہم ترین حصہ۔ ‘‘ وہ چڑ کر بولا۔
’’خدا حافظ۔ ‘‘ میں اٹھ بیٹھی۔
شام کے وقت جب میں کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی تو دروازہ بجا۔ میں نے بن سوچے سمجھے کہہ دیا۔ ’’کم ان‘‘ میرے سامنے ڈاکٹر خالد کھڑا تھا۔
’’بیٹھئے۔ ‘‘ میں نے کہا۔ میرا خیال تھا کہ وہ پوچھے گا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا۔ لیکن اس نے آتے ہی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ بولا۔ ’’وہ سامنے ٹیلے پر جو جنگل ہے، اس جنگل میں عجیب و غریب قسم کے مشروم اگتے ہیں۔ مثلاً ایک مشروم ہے جو ٹہلتا ہے۔ ‘‘
’’کیا مطلب‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایک فٹ کے دائرے میں ٹہلتا ہے۔ صبح یہاں ہے، دوپہر کو آدھ فٹ سرکا ہوا۔ شام کو پورا ایک فٹ۔ ‘‘
میں ہنسی۔ ’’اب مجھے الف لیلیٰ کہانیاں نہ سنائیے۔ ‘‘
وہ مسکرایا۔ بولا۔ ’’حقیقت، رئیلٹی آدھی سے زیادہ الف لیلیٰ ہے۔ آپ خود الف لیلیٰ برتاؤ بیت رہی ہیں۔ ‘‘
’’دو رخی برتاؤ۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ اس کے بعد دیر تک ہم خاموش بیٹھے رہے۔ پھر وہ مجھے عجیب و غریب قسم کے مشرومز کے متعلق بتاتا رہا۔
جب وہ جانے لگا تو میں نے پوچھا۔ ’’آپ مش رومز سے علاج کرتے ہیں ؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’ہاں ! بیشتر۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’مشروم کیسا اثر رکھتا ہے؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’سب سے پہلے مریض کو ہم وہ مشروم دیتے ہیں جو مریض کی ’’میں ‘‘ سے پھونک نکال دے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
اسی رات خانساماں کھانا لے کر آیا تو کہنے لگا۔ ’’بیگم صاحبہ ڈاکٹر خالد کبھی ہوسٹل میں نہیں آئے تھے۔ آج پہلی مرتبہ انہیں ہوسٹل میں دیکھ کر میں تو حیران رہ گیا۔ ‘‘ خانساماں کی بات سن کر میری ’’میں ‘‘ میں پھونک اور بڑھ گئی۔
اگلے روز شام کو وہ پھر آ گیا۔
میں نے پوچھا۔ ’’ڈاکٹر آپ شادی شدہ ہیں کیا؟‘‘
اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ کہنے لگا۔ ’’میں لیڈی ڈاکٹر سے شادی کروں گا۔ ہمارے طریق علاج کو اپنا لے۔ ‘‘
میں نے اسے چھیڑا۔ ’’اور اپنی ’’میں ‘‘ چاندی کی پلیٹ میں رکھ کر آپ کو بھینٹ کر دے۔ ‘ ‘
’’نہیں۔ ‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’میں اپنی ’’میں ‘‘ چاندی کی پلیٹ میں رکھ کر اسے پیش کروں۔ وہ اسے قبول کر لے محترمہ۔ ‘‘ وہ بولا۔ ’’محبت کیا ہے؟ اپنی ول سرنڈر کر دینا۔ اپنی ’’میں ‘‘ دوسرے کے تابع کر دینا۔ ‘‘
’’ساری دنیا محبت کرتی ہے۔ ‘‘ میں نے طنزاً کہا۔ ’’لیکن….‘‘
’’اونہوں۔ وہ محبت نہیں ہوتی۔ خواہش ہوتی ہے۔ حرص ہوتی ہے اور زیادہ تر محبوب سے نہیں بلکہ اپنی انا سے محبت ہوتی ہے۔ محبوب تو ایک بہانہ ہوتا ہے ایک پردہ ہوتا ہے۔ ایک ڈیلوژن۔ آپ سمجھتی ہیں کہ آپ نے سلمان سے محبت کی ہے۔ اگر آپ سچے دل سے سلمان سے محبت کرتیں تو دو رخی مدت سے ختم ہو چکی ہوتی۔ آپ کو تیاگ میں آنے کی زحمت نہ کرنا پڑتی۔ ‘‘
پھر دفعتاً اس نے موضوع بدلا۔ کہنے لگا۔ ’’ صبح کے وقت آپ کیا کرتی ہیں ؟‘‘ کلینک میں آ جایا کیجئے۔ مریضوں کی کیس ہسٹریاں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ دلچسپ اور بصیرت افروز۔ ‘‘
اگلے روز میں کلینک میں جا بیٹھی۔ ڈاکٹر خالد مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن اس نے اظہار نہ کیا۔ کہنے لگا۔ ’’آج ایک ہی مریض ہے۔ بہت دور سے آیا ہے۔ بہت بڑا عابد ہے۔ ‘‘
’’کیا تکلیف ہے اسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’پتا نہیں۔ ‘‘ بولا۔ ’’ابھی آ کر آپ کے سامنے بیان کرے گا۔ ‘‘
عین اسی وقت ایک باریش نورانی شخص کمرے میں داخل ہوا۔ ’’اسلام علیکم۔ ‘‘
’’وعلیکم السلام!‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ ’’تشریف رکھئے۔ فرمائیے آپ کس طرح تشریف لائے ہیں ؟‘‘
بوڑھے نے با معنی نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔
’’یہ میری اسسٹنٹ ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر خالد نے کہا۔
یہ سن کر بوڑھا مطمئن ہو گیا۔
’’فرمائیے؟‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
بوڑھے نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں کہا۔ ’’میری آپ بیتی بہت مختصر ہے۔ ‘‘
’’جی فرمائیے۔ ‘‘ خالد نے کہا۔
’’میں نے گزشتہ بیس سال تخلئے میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کی ہے۔ بیس سال۔ ‘‘ اس کی آواز جذبات کی شدت سے کانپی۔ وہ رک گیا۔ کمرے میں گہری بوجھل خاموشی چھا گئی۔ ’’صدیاں گزر گئیں …. لیکن….‘‘ اس کی آواز پھر گونجی۔
’’لیکن…. میں آج تک اللہ کو نہیں مان پایا۔ کوشش کے باوجود نہیں مان پایا۔ میں اس کے وجود کو دل سے قبول نہیں کر سکا۔ ‘‘ کمرے میں پھر سے بوجھل خاموشی چھا گئی۔
مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے سر پر پتھر مارا ہو۔ میری آنکھو ں میں تارے ناچے اور پھر گھپ اندھیرا چھا گیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ بوڑھا ہو چکا تھا اور خالد سر جھکائے بیٹھا ہے۔
’’ڈاکٹر خالد۔ ‘‘ میں نے کہا۔
وہ چونکا۔ بولا۔ ’’فرمائیے۔ ‘‘
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کیا؟‘‘ وہ بولا۔
’’میں کل صبح واپس جا رہی ہوں۔ ‘‘
’’میں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر خالد نے کہا۔
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہم حلف لئے بغیر آپ کا علاج کریں گے۔ ‘‘
میں اٹھ بیٹھی۔ ’’شکریہ۔ ڈاکٹر، اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ ‘‘
’’تو کیا آپ علاج نہیں کرائیں گی؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘ میں دروازے کی طرف بڑھتی ہوئی بولی۔ ’’اگر اپنی ول ہی سرنڈر کرنا ہے تو میں ا سکی بھینٹ کیوں نہ کروں جس کے پردے میں ، میں نے دو سال ٹوٹ کر اپنی انا سے محبت کی ہے۔ خدا حافظ ڈاکٹر۔ ‘‘