دھند…………میاں عامر فیروز
” زندگی کی حقیقت “دھند” ہے۔ “دھند” میں سفر کرو تو حقیقت آشکار ہو ہی جاتی ہے۔ دھند کتنی ہی ظالم ہو جائے اتنی جگہ تو دے دیتی ہے کہ انسان اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اورجب چل پڑو تو رستہ خودبخود ہی ملتا چلا جاتا ہے بس فرق یہ رہتا ہے کہ پیچھے والے گزر جانے والوں کا نام ونشان ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں اور جانے والا یوں غائب ہو جاتا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔آگے کون ہمسفر ہو گا اورکتنا سفر باقی ہے؟ یہ ہمیشہ نامعلوم ہی رہتا ہے۔ دھند میں سفر کرنے پر ہماری مرضی ہمارا اختیار ہرگزنہیں ہوتا۔ انسان ہمیشہ سے ایک روشن چمکدار دن میں سفر کرنے کی خواہش میں جیتا ہے یہ جانے بنا کہ اُس کی پیدائش ہی دھند سے ہے اوراس نے ہمیشہ دھند میں ہی زندہ رہنا ہے۔ دھند ہی اُس کی روشنی ہے،اُس کی آبرو ہے اوراُس کی اوقات بھی ہے۔ لیکن دھند موت بھی ہے ایسی سفاک تیز رفتارموت جو سوچنے سنبھلنے کا ایک پل بھی نہیں دیتی ۔ سفرِزیست طےکرتے ہوئے دھند کا سامنا خواہ موسم کے زیر ِاثرکسی سفرکے دوران ہویا اپنی زندگی کی گاڑی دھکیلتے ہوئے کوئی فیصلہ کرتے وقت ہرجگہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ احتیاط یہ خوف ہی ہمیں اپنی رفتار دھیمی رکھنے پراُکساتا ہےلیکن جب وقت کا فیصلہ سامنے آ جائے تو سب احتیاط دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اللہ کسی بھی آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔ آمین۔ اگر ہم اپنے آپ کو پرکھ لیں ،جانچ لیں تو کیا دھند کیا اجالا ہرمنزل اورنشان ِمنزل آسان اورواضح ہوتا چلا جاتا ہے