سوچو اور لکھو
سزا و جزاء
بقلم : آصف حسین
Stick and candy
باسمہ تعالیٰ
علم کا معنیٰ نشان ہے اور نشان اشارہ ہے لہٰذا ہر وہ چیز جو حدودِ ادراک میں آگئی وہ کسی منبع و ماخذ کی طرف راہ نما ہے. فطری طور پر ودیعت وجود اور دھیان کا تال میل دو چیزوں سے اٹا ہوا ہے. اس طرف یا دوسری طرف، سیدھی اور ٹیڑھا، اچھا اور برا، صحیح اور غلط. سفر پر جاؤ تو واپسی کا رستہ خد بخد ایک حساب سے دھیان میں رچ جاتا ہے. جہاز کا hypothesis کس طرح تصور سے شکل اختیار کرگیا یہ اسی فطری “نہیں ہے اور ہے” کے بیچ کی تمثیل ہے. قانون فطری کے تحت سب کچھ ایک منظم کیمسٹری میں پرویا ہوا ہے. سوا ایک چیز کے آپ کا اختیار اس پر آپ کو پورا اختیار دے رکھا ہے تمام نشان آشکار کرکے.. حاملین اختیار جو چاہیں پسند کریں جس طرف چاہے جائیں……ایک امتحانی پرچے کے جوابات لکھ کر صرف یہ دیکھا جارہا ہے آپ نقل ٹھیک کرسکتے ہیں یا نہیں. اب بدون ضعف یا لالچ و طمع آپ کا اختیار وہاں جھک جاتا ہے جو الوہی تنظیم کے برخلاف ہے. تو عین ترتیب ہم کو راہ پر لانے کی یہی ہوگی کے مولوی صاحب تلفظ کو صحیح کروانے کے لئے ایک چھڑی پاس رکھیں اور گاہے ڈگر سے ہٹنے پر ایک لگا دیں. اور ادائیگی حسن، حسن لحن پر ایک ٹافی آپ کو پزیرائی کے طور پر عنایت کردیں….یہی سزا و جزاء ہے…یہ تو محبت خاص ہی ہوسکتی ہے. عوام کی بات ہے جناب….