ممتاز مفتی کا مسلمان
نذر حافی
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ،ابھی چند دنوں میں ہی اجتماعی افطاری کے لئے چندہ مہم شروع ہوجائے گی،مسجدوں میں نئی صفیں بچھائی جائیں گی اور نئے واٹر کولرز لگائے جائیں گے،عید فطر اورفطرانے کے لئے چہ مہ گوئیاں شروع ہوجائیں گی،ختمِ قرآن اورتلاوتِ قرآن کے بارے میں ہر طرف سے تاکید سننے کو ملے گی،اکثر لوگوں کے سروں پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں تسبیح نظر آئے گی،ایک دوسرے کو افطاری کی دعوت دینے کے لئےلائحہ عمل تیار کیاجائے گا،پکوڑے اور سموسے والوں کے چولہے پھر سے روشن ہوجائیں گے،مسجدیں نمازیوں سے کچھاکھچ بھر جائیں گیں،دفتری اوقات میں کمی کردی جائے گی،اعتکاف کے سلسلے میں تگ و دو کی جائے گی،یوم القدس کی ریلیوں کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ہرطرف ایک عجیب سماں ہوگا اور عجیب منظر ہوگا لیکن سوال یہ پیداہوتاہے۔۔۔
سوال یہ پیداہوتاہے۔۔۔
کہ کیا اس ایک مہینے میں ختمِ قرآن اورتلاوتِ قرآن پر کمر کس لینے والے قرآن مجید پر عمل کرنا بھی شروع کردیں گے،کیااجتماعی افطاری کے لئے چندہ مہم شروع کرنے والے اپنی جیب سے بھی حصہ ڈالیں گے،کیا مسجدوں میں نئی صفیں اور واٹر کولرز کے انتظامات پر زور دینے والے اپنے گھروں کے دروازے بھی ہمیشہ کے لئے غریبوں اور مسکینوں کے لئے کھول دیں گے،کیا ہاتھوں میں تسبیح اور سر پر ٹوپی سجانے والا یہ شخص اب رشوت ،غیبت اور کرپشن سے بھی باز آجائے گا۔کیا ایک دوسرے کو افطاری کی دعوت دینے والے اپنے لذیذ اور مزیدار کھانے غربا میں تقسیم کر کے خود اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے ہمراہ نمک کے ساتھ افطاری کرنا پسند کریں گے،کیا افطاری میں پکوڑے اور سموسے تقسیم ہوتے دیکھنے کے بجائے ہمیں صلہ رحمی،درگزر،عفو اور بخشش جیسے ہدیے تقسیم ہوتے نظر آئیں گے،کیانمازیوں سےکھچاکچ بھری ہوئی مسجدوں کے منبروں سے آئندہ کسی مسلمان کی دل آزاری نہیں کی
جائے گی اور ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے نہیں دئے جائیں گے،کیا دفتری اوقات میں کمی کرنے والے دفتری ملازموں کو کسمپرسی اور بے بسی سے نجات دلانے کے لئے بھی سنجیدگی سے غوروفکرکریں گے،کیا اعتکاف کے سلسلے میں لوگوں کو پکڑپکڑ کر مسجدوں میں بند کرنے والے دہشت گردی،تعصب،فرقہ واریّت،مہنگائی اور اجتماعی ظلم و ناانصافی کے جن کو بھی بوتل میں بند کرنے کے لئے اسی طرح زور لگائیں گے،کیا یوم القدس کے انتظامات کو حتمی شک دینے والے اب امام خمینی کے نقشِ قدم پر بھی چلناشروع ہوجائیں گے،کیا اب وہ امام خمینی کی مانند کبھی بھی باطل حکومت کے بت کوسجدہ نہیں کریں گے،شاہانہ طرزِ زندگی اور ٹھاٹھ باٹھ سے اجتناب کریں گے،قدس کی آزادی کے لئے امام خمینی کی مانند وہ بھی اپنی زندگی وقف کردیں گے۔۔۔اگر ایسا نہیں ہوگا تو پھر سوال یہ پیداہوتاہے ۔۔۔
سوال یہ پیداہوتاہے۔۔۔
کہ کیارمضان المبارک کی اہمیّت یہی ہے کہ اس میں چندہ اکٹھا کرکے لوگوں کا منہ میٹھاکیاجائے،مسجدوں کا رنگ و روغن کیاجائے،دن رات آنکھیں بند کرکے قرآن پہ قرآن ختم کئے جائیں،افطاریوں کو پبلک ریلیشنز کے لئے استعمال کیاجائے،اعتکاف اور یوم القدس کے پروگراموں کو تنظیمی پراگرس کے طور پر کیش کیاجائے۔۔۔
اگرہمیں ہر طرف یہی سماں اور یہی منظر نظرآئےتو پھر بلا شبہ ہمارے پاس موجودہ اسلام وہ اسلام نہیں ہے جو رسولِ خدا ان کےاہلِ بیت اور ان کے اصحاب کا اسلام تھا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
پیغمبرِ اسلام ،ان کے اہل بیت اور ان کے اصحاب جب رمضان المبارک میں غرباکی مدد کرتے تھے تو اس سے پہلے مخیّر حضرات کو بلا کر آٹے اور گھی کے انبار نہیں دکھاتے تھے کہ آو دیکھو ہم یہ سب غریبوں میں تقسیم کرنے جارہے ہیں اور ناں ہی تقسیم کرتے وقت ماہر قلمکاروں اور عکس برداروں کو بلوا کر اپنی تصویریں بنواتے تھے کہ آج فلاں جگہ پر اتنے غریبوں میں اتنے آٹے کے تھیلے اور چیک تقسیم کئے گئے ہیں۔
وہاں خاموشی تھی،سکوت تھا ،رات کی تاریکی تھی،نہ کوئی دیکھنے والا ہوتا اور نہ کوئی گننے والا،کسی یہودی کے باغ میں کام کرنے والا ایک شخص آکرلوگوں کے دروازوں پر دستک دیتاتھا،یتیم دوڑ کر اس کے پاس آجاتے تھے،یتیم اس کی محبّت کی خوشبو کو سونگھتے تھے،وہ یتیموں ،غریبوں اور فقیروں کے دکھوں کو لمس کرتا تھا۔دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے یتیموں اور فقیروں سے دور نہیں کرسکی حتّیٰ کہ وہ عین تختِ حکومت پر جلوہ افروز ہوگیالیکن اس کے باوجود اس کی حکومتی مصروفیات بھی اس کے اور یتیموں ،بیواوں اور بے نواوں کے درمیان حائل نہ ہوئیں۔
وہ اپنی بیعت کے روز بیعت کے بعد بیلچہ اٹھاکر مزدوری کرنے چلاگیا،وہ اپنے معمول کے مطابق اپنے دورانِ حکومت میں بھی اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر مزدوری کرتا تھا،بیت المال سے اس کی آمدنی اتنی نہ تھی کہ وہ
فکرِ معاش سے آزاد ہوجاتا،وہ دن بھر مشقْت کرتا اور شب بھر اپنے زخمی ہاتھوں کے ساتھ محتاجوں اور فقیروں میں روٹیاں تقسیم کرتا۔۔۔
اسی طرح شب و روز گزرتے رہے، یہی رمضان المبارک کے ایّام تھے،انیس رمضان المبارک کو اس شخص نے اپنی زندگی کی آخری افطاری بھی نمک سے کی اور پھر کتنے ہی دنوں تک یتیم اور فقیر دروازوں پر نظریں لگائے بیٹھے رہ گئے۔ان میں سے اکثر کو اس شخص کی شکل بھی یاد نہیں تھی چونکہ آنے والا ہمیشہ منہ چھپاکر آتاتھا اور اپنے اسٹیکر تقسیم کئے بغیر ،اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر واپس چلاجاتاتھا ،وہ جو خاموشی سے آتا اور خاموشی سے چلاجاتا، ۲۳رمضان المبارک کو ہمیشہ کے لئے اس دنیاسے چلاگیا۔
اس کے جانے سے ساری دنیایتیم ہوگئی لیکن بہت سارے یتیموں کو پتہ نہیں چلا کہ اب ان کی ضرورتوں کو پوراکرنے والا کبھی بھی واپس نہیں آئے گا۔وہ اسی طرح دروازے پر آس لگائے بیٹھے رہے۔
میں کبھی کبھی سوچتاہوں کہ اگر بات صرف روٹی اور کپڑے کی ہوتی،دنیاوی ضرورتوں کی ہوتی تو یہ سائل اوریہ فقیر اٹھ کر کسی اور دروازے پر بیٹھ جاتے لیکن اس شخص کی محبت ان لوگوں کے ساتھ اتنی زیادہ تھی کہ یہ لوگ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔آخر سب کچھ روٹی اور کپڑاہی تو نہیں،محبتّ اور خلوص بھی تو کوئی شئے ہے۔
محبّت یکطرفہ نہیں ہوتی ،یہ فقیر لوگ،یہ مفلوک الحال لوگ، اس جانے والے شخص سے اس لئے اتنی زیادہ محبّت کرتے تھے کہ وہ بھی ان سے شدید محبّت کرتاتھا۔اس لئےکہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتاہے اور اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ دوسرا آپ سےمحبت کرتاہے یا نہیں تو دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اپنے دل میں جھانکئےاور دیکھ لیجئے ،جتنی آپ کو دوسرے سے محبت ہے اتنی ہی اسے بھی آپ سے محبت ہے۔
آج چودہ سو سال کے بعدبھی جب کوئی فقیر “حضرت علی [ع]” کے نام پر مانگتاہے تو مجھے لگتاہے کہ کائنات کے فقیروں کے ہاتھ آج بھی علی[ع] کے سامنے پھیلے ہوئےہیں۔آخر کیاوجہ ہےکہ دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں لیکن فقیر کسی بادشاہ کانام نہیں لیتے بلکہ بادشاہ کے دروازے پر بھی جاکر علی [ع] کا نام لیتے ہیں۔
اگر ہم تھوڑی سی توجہ کریں تو سمجھ جائیں گے کہ فقیر ،”علی ع” کا نام لے کر لوگوں میں یہ منادی کررہاہوتا ہے کہ اے گھومتے پھرتے انسانو!اے ہمیں ٹکے ٹکے کی خیرات دینے والو!اے ہمیں فطرانے،چندے اور زکواتیں دینے والو! کیا تم میں سے کوئی ہے جو ہمیں حضرت امام علی ]ع[ جیسی محبت بھی دے ،جو ہم سے نفرت نہ کرے جو ہمیں اپنے سر سے اتارنے کی کوشش نہ کرے،جوہم سے اظہارِ یکجہتی کے لئے علامتی بھوک ہڑتال کے بجائے حقیقی طور پر ہمارے غم کی وجہ سے پیٹ بھر کر کھانانہ کھائے۔
میرے اور آپ سمیت دنیاکا ہر فقیر اور ہر سائل چاہے سمجھے یانہ سمجھے،وہ علی [ع] جیسی محبّت اور توجہ کا متلاشی ہے،وہ حضرت امام علی [ع] جیسے خلوص کا تشنہ ہے۔یہانتک کہ ممتاز مفتی کو بھی اس دنیا سے جاتے جاتے اپنی ” تلاش “میں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ انسان محبت اور توجہ کی تلاش میں ہے ۔ وہ اس صدی کے ان ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے شدّت کے ساتھ اس حقیقت کو لمس کیا ہے ۔اس تلاش “کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ ،لطیف پیرائے میں “بڑوں” کو ٹوکا،وہ اسلام کو مذہب کے بجائے انسان کی فطرت سمجھتے تھے اور ان کی دانست میں مفتیوں کے
فتوے انسان کو اس کی فطرت سے جدا نہیں کرسکتے۔ان کے نزدیک اسلام،انسان کو خدا کے ساتھ ملانے کے لئے آیاتھا،ایک دوسرے سے کاٹ کر فرقوں میں تقسیم کرنے کے لئے نہیں، انہوں نے فروعات کی پٹاری میں ڈال کراسلام تقسیم کرنے والوں کو اپنے رساقلم کے ساتھ بہت سمجھانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ لال مسجد کے فتووں
اورخطبوں کااپریشن بھی کر گئے۔
وہ انسان اور خدا کے درمیان فاصلے کے قائل نہیں تھے،وہ” کالے کوٹھے” کی زیارت کے لئے گئے تو انہیں وہاں بھی محبت اور توجہ کی تلاش تھی، انہوں نے اپنی” تلاش ” میں ببانگِ دہل اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں “مسلمان” سمجھ میں نہیں آرہا،وہ “لبّیک” کے بدلے میں ارْجِعي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً کی صدا سننا چاہتے تھے۔ انہیں وہ مسلمان نہیں مل رہاتھا جس کی انہیں تلاش تھی،سچ تو یہ ہے کہ وہ مسلمان کسی کوبھی نہیں مل رہا جس کی سب کو تلاش ہے، اور اس کے نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جو مسلمان ،حضورِ اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی گود میں پال کر حضرت علی [ع] کی صورت میں بنی نوع انسان کودیا تھا وہ کچھ اور قسم کا تھا اور جو مسلمان آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ کسی اور شکل کاہے۔
ممتاز مفتی اور ان جیسے دانشمندجس صوفی اور جس مسلمان کی بات کرتے ہیں وہ دنیائے معرفت کو سوائے حضرت امام علی [ع] کے کہیں اور نہیں ملتا۔حضورِ اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہی وہ ہستی ہے جو مخلوقِ خدا سے خالص محبت کرتی ہے اور مخلوقِ خدا بھی اسے ٹوٹ کر چاہتی ہے۔ آئیے اس اضطراب،بے چینی اور تشنگی سے معاشرے کو نجات دلانے کے لئے ہم بنی نوعِ انسان کو یہ پیغام دیں کہ رمضان المبارک ،نمازوں،افطاریوں اور تلاوتِ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ ” محبت اور توجہ” کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں اس شخص کو تلاش کیجئے جس کا طرزِ زندگی “عینِ صراطِ مستقیم” ہے۔ جو براہِ راست بندوں کو خدا سے ملاتاہے۔جس کے فضائل دوستوں نے خوف کے مارے چھپائے رکھے اور دشمنوں نے بغض کے مارے لیکن اس کے باوجود اس کے فضائل سے کائنات پرہے۔
آئیے اس ماہ مبارک رمضان میں ہم “علی[ ع ]کے طرزِ زندگی ” کو بھی تلاش کریں۔قرآن مجید کی تلاوت اور نمازِ تراویح کے ساتھ ساتھ قرآن کے پیغام پر توجہ بھی دیں،فطرانہ دینے کے ساتھ ساتھ غریبوں سے محبت بھی کریں ،نمازوں کے ساتھ ساتھ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے توبہ بھی کریں یوم القدس کے نعروں کے ساتھ ساتھ قدس کی آزادی کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف بھی کریں۔
آئیے ہم علامتی رمضان المبارک کے بجائے حقیقی رمضان المبارک بنانے کے لئے آواز اٹھائیں۔حقیقی رمضان المبارک یعنی ہر عمل محبت اور توجہ کے ساتھ ۔۔۔ اگر بات صرف روٹی اور کپڑے کی ہوتی،دنیاوی ضرورتوں کی ہوتی تو یہ سائل اوریہ فقیر،یہ ادیب اور دانشمند،حضرت علی [ع] کے دروازے سے اٹھ کر کسی اور دروازے پر بیٹھ جاتے لیکن سب کچھ روٹی اور کپڑاہی تو نہیں،محّبت اور خلوص بھی تو کوئی شئے ہے۔