ممتاز مفتی کے نام خط از اعجاز انصب
خط بنام مفتی
مفتی جی!
آپ کو سلام و آداب کی تو یقینا ضرورت نہیں ہوگی۔
جنت میں بھلا ایسے تکلفات کیا ہوتے ہونگے؟
جبکہ ان تمام تکلفات کی ضرورت تو ہمیں ہے۔
آپ تو جانتے ہی ہیں میں ملاقاتوں اور خواہشات پر یقین نہیں رکھتا۔ میں تو ساتھ رہنے کی کوشش کرتا ہوں چاہے میں دنیا میں رہوں اور آپ جنت میں۔ اگر میں دنیا میں آپ کے ساتھ رہا تو یقینا جنت میں آپ کے ساتھ ہونگا ان شاء اللہ۔
آپ تو اپنے ساتھ بہت سے دوسرے انسانوں کو جنت میں لے گئے۔ جبکہ ہم تو ابھی دنیا ہی تلاش کررہے ہیں۔اور جو دنیا تلاش کرچکا ہے وہ اب جنت کی فکر میں ہے۔ حالانکہ دنیا سے پہلے تو جنت ہی ہوتی تھی نا۔
ہم تو دوسرے کی قبر اور اس کے خدا کی فکر کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں اپنی قبر اور اپنے خدا کی خبر ہی نہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں خدا تو سب کا ایک ہے مگر ہم دوسرے کے خدا کو معلوم نہیں کیوں اپنا خدا نہیں سمجھتے۔
آپ کی کتابوں اور باتوں پر تو سب نامہ محبت لکھ چکے ہیں مگر آپ تو مجھے جانتے ہیں میں تو ہر اچھائی پر اختلاف کرنے کی عادت رکھتا ہوں۔
تو یہ جان کر آپ کو خوشی ہوگی میں آپ کی کتابیں اور باتیں نہیں چاہتا۔ میں تو ایک اور ممتاز مفتی، اشفاق احمد، اشتیاق احمد اور عکسی مفتی چاہتا ہوں جو ہمیں پھر سے پہلے سے بھی بڑا ادب بنا کر دیں۔
ہمیں بنی بنائی جنت نہیں، ہمیں وہ جنت چاہیے جو ہم نے خود بنائی ہو۔ ہمیں ادب پڑھنا نہیں ادب بنانا ہے۔ ہمیں انسان بنانے کی نہیں ہمیں انسان بننے ہے کی ضرورت ہے۔
یہاں سب سوچ رہے ہیں کہ، یہ کیسا محبت نامہ ہے آپ بس ان کو یہ بتا دیجیے گا۔
یہ میرا اور آپ کا معاملہ ہے۔ اور ویسے بھی ایک خط میں لکھا ہی کیا جاسکتا ہے سوائے اس کے۔
یہ آپ کے جنتی دل کی آواز ہے جو میرے جہنمی دل سے نکل کر پھر سے جنت کی طرف رواں دواں ہے۔
جس محبت کا آغاز دنیا میں ہوچکا اعجاز۔
اسی محبت کا انجام اب جنت میں ہوگا۔