کتاب : تلاش
باب 10 : گلاب کا پھول
ٹرانسکرپشن : زاہد ملانہ
عجیب و غریب قصے
پرانے مذہبوں نے تخلیق کائنات کے متعلق عجیب و غریب قصے رائج کر رکھے تھے۔ کوئی کہتا دیوتاؤں نے ایک انڈا بنایا تھا۔ پھر اس انڈے کو چھوڑ دیا۔ اوپر کا حصہ آسمان بن گیا اور نچلا زمین۔ کوئی کہتا کہ اوپر زبردست آگ سلگ رہی ہے ۔ہمیں اس آگ سے بچانے کے لیے دیوتاؤں نے آسمان کی ڈھال بنا کر ہمارے اوپر پھیلا دی ہے۔ تاکہ ہم محفوظ رہیں اس ڈھال میں جگہ جگہ سوراخ ہیں ۔ ان سوراخوں سےاوپر کی آگ کی جھلکیاں ہمیں دکھائی دیتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ تارے ٹمٹما رہے ہیں۔ زمین کے متعلق یہ خیال عام تھا کہ یہ تھالی کی طرح چپٹی ہے اور ایک بیل نے اسے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے ۔جب کبھی بیل پاسا پلٹتا ہے تو زمین ہلتی ہے اور بھونچال آ جاتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ یونانی کہتے تھے کہ سورج ایک بڑا روشن تھال ہے جسے اپالو دیوتا نے اپنی رتھ پر رکھا ہوا ہے۔ رتھ کے آگے گھوڑے جتے ہوئے ہیں۔ اپالو روز اپنی رتھ میں بیٹھ کر زمین کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے۔ اس زمانے میں کوئی مفکر کائنات یا زمین کے متعلق کوئی اور خیال پیش کرتا تو مذہبی اجارہ دار اسے پکڑ لیتے کہ یہ شخص باغیانہ خیالات کا مالک ہے۔ لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کر رہا ہے۔ ملحدانہ خیالات پھیلا رہا ہے۔ اس پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جاتا اسے مذہبی پروہتوں کے کورٹ میں پیش کیا جاتا۔ اسے یا تو سنگسار کر دیا جاتا یا قتل کر دیا یا زہر دے دیا جاتا۔
یونانی دور کے بعد بھی یہ رسم صدیوں جاری رہی۔ عیسائی راہبوں نے بھی اپنی اہمیت اور عظمت قائم رکھنے کے لیے مفکروں کو ایسی سزا دی جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ عیسائیت میں کائنات کے متعلق ایسے مفروضوں کا جواز موجود نہ تھا جو پروہتوں نے رائج کر رکھے تھے۔