کتاب : تلاش
باب 10 : گلاب کا پھول
ٹرانسکرپشن : مریم جگنو
تبلیغ
سارا قصور ہماری تبليغ کا ہے۔ ہم میں وہ مشنری سپرٹ نہیں جو عیسائی مبلغوں میں ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی تبلیغ کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ دور دراز اجنبی ملکوں میں جا کر رہتے ہیں عوام میں گھل مل جاتے ہیں۔ مذہب کی بات نہیں کرتے۔ تقریریں نہیں جھاڑتے۔ بحثیں نہیں کرتے۔ مناظرے نہیں کرتے۔ صرف لوگوں کی خدمت کرتے ہیں لوگوں کو دوا دیتے ہیں۔ مایوسوں کو امید دلاتے ہیں۔ دکھیوں کے دکھ بانٹتے ہیں۔ نیچ ذات والوں کو مساوات دیتے ہیں۔ پاس بٹھاتے ہیں اپناتے ہیں۔ ان کے برتاؤ کا لوگوں پہ اتنا خوشگوار اثر پڑتا ہے کہ لوگ خود بخود عیسائیت قبول کر لیتے ہیں۔
دراصل یہ طریقہ کار صوفیوں کا تھا۔ جو عیسائیوں نے اپنا لیا ہے۔ صاحبو میں بھی احمق ہوں جو تبليغ کی بات کر رہا ہوں۔ جب اصل ہی راہزنوں کے ہاتھ لٹ رہا ہے تو منافع کی بات کیا کرنا۔ ہمارے راہبر خود اسلام مسخ کر رہے ہیں۔ اسے ریچوال بنائے جا رہے ہیں انھوں نے اسلام کو جسم کی شکل دے رکھی ہے۔ روح کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ ان کا تبليغ کا انداز جارحانہ ہے۔ ان میں شدت ہے وہ حکم چلاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حکم نہیں چلاتا۔ authoritarian نہیں۔ مذہب کے معاملے میں ہمارے مبلغ جذباتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے معاملے میں جذباتی ہونا ایک وصف ہے۔