کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : منیب احمد
آلنا
صاحبو ! یہ سوالات بہت خوفناک ہیں۔ ان پر ہم سنجیدگی سے غور نہیں کرتے۔ کریں تو ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے٬ چڑیا کے بوٹ (بچے) کی طرح ہم آہلنے سے گر جائیں۔ ہر شخص نے اپنے متعلق خوش فہمیوں کا آلنا بنایا ہوا ہے۔ یہ آلنا ہمارے لیے باعثِ سکون ہوتا ہے٬ باعث اطمینان ہوتا ہے٬ باعثِ تحفظ ہوتا ہے۔ یہ خوش فہمیاں ہمیں خود راضی رکھتی ہیں۔ صاحبو ! جینے کے لیے خود سے راضی رہنا ضروری ہے۔
ہمیں حالات سے شکایت ہوتی ہے٬ خود سے نہیں٬ چاہے ہمارا کردار کتنا ہی ٹیڑھا کیوں نہ ہو. یقین کیجیے کہ ہمارے رہبر ہم سے رنجیدہ خاطر ہیں کہ ہم اسلامی اصولوں پر نہیں چلتے. وہ خود پر بہت راضی ہیں. انھیں کبھی خیال نہیں آیا کہ انھوں نے بڑی نیک نیتی سے اسلام کو ریچوال میں تبدیل کر رکھا ہے.
دراصل یہ نیک نیتی خوش فہمی کی پیداوار ہے جسے آجکل Wishful Thinkig کہتے ہیں. سب سے بڑی خوش فہمی جو راہبروں میں پیدا ہوتی ہے ٬ یہ ہے کہ میں جانتا ہوں. مجھے علم ہے٬ میں عالم ہوں. جو سمجھتا ہے کہ میں جانتا ہوں ٬ اس میں مزید جاننے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی. دوسروں کی بات سننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی. دوسری خوش فہمی یہ کہ چونکہ میں جانتا ہوں ٬ اس لیے میرا فرض ہے کہ عوام (جو کہ نہیں جانتے) کو سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کروں.
صاحبو ! ایسے ہی ہوتا ہے. ہر مذہب کے ساتھ ایسے ہوا. پہلے Revelation آیا٬ پھر Revolation آ گیا اور بالآخر Superstition چھا گیا. پہلے الہامی باتیں ہوتی ہیں ٬پھر تعمیری انقلاب ہے. اس کے بعد اجارہ دار آ جاتے ہیں اور پھر ریچوال معجزات٬ کرامات٬ توہمات. اجارہ داروں کی آمد کے بارے میں کسی صاحب ذوق نے کیا خوب لطیفہ لکھا ہے. کہتے ہیں: