کتاب : تلاش
باب 4 : بڑی سرکار
ٹرانسکرپشن : ایمان عائشہ
ڈاکٹر ابدال بیلا
ڈاکٹر ابدال بیلا سے ایک روز میں نے پوچھا ” ڈاکٹر یہ بتلا، کیا تم نے پورے طور پر جان لیا ہے کہ انسانی جسم کس طرح کام کرتا ہے؟”
ڈاکٹر ابدال بیلا میرا دوست ہے۔ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔ ساتھ ہی افسانہ نویس بھی ہے ۔ ڈاکٹر کے حوالے سے وہ سختی سے حقیقت پسند ہے۔ رائٹر کے حوالے سے وہ خواب دیکھتا ہے۔ دیکھنے میں خالص جسمی ہے ۔ اونچا لمبا، پٹھے ہی پٹھے، مونچھ ہی مونچھ، باہر جسم ہی جسم ہے اندر سوچیں ہی سوچیں ۔ اندر، باہر کو جھٹلاتا ہے ۔ باہر اندر کو۔ خیال میں ماڈرن ہی ماڈرن جذبات میں ٹریڈیشن ہی ٹریڈیشن ۔
ایک طرفہ تماشا ہے۔
میں نے پوچھا: ” بتاؤ ڈاکٹر! کیا تم” ورکنگ آف دی ہیومن باڈی ” کو پورے طور پر سمجھتے ہو؟”
اس نے سر نفی میں ہلادیا ۔ بولا: “بالکل نہیں ۔”
میں نے کہا: “کیا تمام ڈاکٹر جانتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے ۔”
وہ قہقہہ مار کر ہنسا۔
میں نے کہا: ” بيلا ! سیانے کہتے ہیں کہ جاننے کے حوالے سے دنیا میں چار قسم کے لوگ ہیں۔
وہ جو جانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں۔
دوسرے وہ جو جانتے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ جانتے ہیں۔
تیسرے وہ جو نہیں جانتے اور جانتے ہیں کہ نہیں جانتے
چوتھے وہ جو نہیں جانتے اور نہیں جانتے کہ وہ نہیں جانتے۔
“بولو بیلا ! ” میں نے کہا ” تم اداکاروں کو کس کیٹیگری میں رکھتے ہو؟”
“مجھے نہیں معلوم ! ” وہ بولا : “میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ اگر میں صاحب اختیار ہوتا تو حکم دیتا کہ میڈیکل کتابوں کے ہر صفحے کے اوپر جلی حروف میں لکھ دو کہ ابھی ہم ہیومن باڈی کے اسرار و رموز کو پورے طور پر نہیں سمجھے اور ہر ڈاکٹر پر عائد کر دیتا ہے کہ وہ اپنے کمرے میں یہ جملہ جلی حروف میں لکھ کر دیوار پر ٹانک دے تا کہ یہ حقیقت ہر وقت اس کے ذہن میں رہے۔”
میں نے کہا: ” اچھا یہ بتاؤ کہ اگر تم جسم کے اسرار و رموز سے واقف نہیں ہو تو علاج معالجہ کیسے کرتے ہو؟ “
کہنے لگا : ” اندازے لگاتے ہیں۔ پرانے حکیم بھی اندازے لگایا کرتے تھے ۔
میں نے کہا : ” تمھارے اوران کے اندازوں میں بڑا فرق ہے۔”
بولا : ” وہ کیسے؟”