Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 5 : آٹے میں پانی، دودھ میں سفیدی

ٹرانسکرپشن : سیدہ حنا حسین

سی اور لک


صرف انسان پر ہی محدود نہیں، یہ بات تمام مخلوقات پر عائد ہوتی ہے ۔ اس دنیا کی ہر چیز اس قدر خوبصورت ہے ۔ گل، بوٹے، پتے، کانٹے، ایک ایک ذرہ حکمت اور حسن سے بھرا ہوا ہے۔ پتا نہیں وہ کون عالم تھا۔ جس نے کہا تھا کہ اگر میں خدا ہوتا تو بالکل ایسی دنیا بناتا، اس لیے کہ اس سے بہتر دنیا بن ہی نہیں سکتی۔
ایک عالمی شہرت کے آرٹسٹ نے کہا تھا “ لوگو شکر کرو کہ مانوسیت کے پردے کی وجہ سے ہمیں اس دنیا کا حسن نظر نہیں آتا۔ اگر ہمیں نظر آ جاۓ کہ پتے پتے میں ، ذرے ذرے میں کتنی حکمت ہے، کتنا حسن ہے تو ہم ہر ایسا عالم حیرت طاری ہو جاۓ کہ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں اور کسی کام جوگے نہ رہیں۔
قرآن حکیم میں بھی باری تعالیٰ بار بار فرماتے ہیں کہ لوگو دیکھو، غور سے دیکھو۔ تم دیکھتے کیوں نہیں ؟ دیکھو تو سہی کہ ہم نے کیا کیا بنایا ہے۔ جب قرآن کہتا ہے کہ دیکھو ۔ تو مطلب سرسری دیکھنا نہیں ہوتا۔ دیکھو سے مراد see نہیں بلکہ look ہوتا ہے یعنی خالی دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ سمجھنے کے لیے دیکھو۔ یہ سائنسی رویہ ہے ۔ سائنس نے یہ رویہ قرآن سے لیا ہے۔
ایک معروف سائنسدان Nathanial Shaler نے دیکھنے کی اہمیت کو اپنے مضمون میں واضح کیا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے
“ اوگاسز نے مجھے دیکھنا کیسے سیکھایا۔”
اوگاسز اس کا استاد تھا ۔ شیلر لکھتا ہے۔
“ جب میں اپنے استاد اوگاسز کی لیب میں داخل ہوا تو انہوں نے ایک ٹین کی تھالی میں ایک مچھلی رکھ دی اور مجھ سے کہا ، اسے دیکھو، غور سے دیکھو۔ اس کے بارے کسی سے بات کرنا نہ ہی کوئی حوالے کی کتاب پڑھنا ۔ جب میں پوچھوں کہ تم نے کیا دیکھا ؟ اس وقت مجھے بتانا، اس پہلے نہیں۔
ایک گھنٹہ بھر میں مچھلی کو دیکھتا رہا ۔ میں سمجھا، میں نے مچھلی کو پورے طور پر دیکھ لیا ہے۔ اب میں امید لگا کر بیٹھ گیا کہ اوگاسز مجھ سے پوچھے گا۔
اوگاسز میرے قریب ہی تھا لیکن اس نے مجھ سے نہ پوچھا۔ ایک دن گزر گیا ، دو دن گزر گۓ، پورا ایک ہفتہ گزر گیا لیکن اوگاسز نے نے میری طرف توجہ نہ دی۔ ویسے رسمی طور پر علیک سلیک کرتا رہا۔ کبھی کبھی کانی آنکھ سے مجھے دیکھ بھی لیتا۔ میں مجبوری میں مچھلی کو بار بار دیکھتا رہا اور یوں پورے طور پر اس سے واقف ہو گیا۔
آخر اوگاسز میرے پاس آیا اور پوچھا :” بتا تو نے مچھلی میں کیا کیا دیکھا؟”
“ میں نے ایک ایک کر کے ساری باتیں بتا دیں۔”
“ وہ غور سے سنتا رہا ۔ جب میں بتا چکا تو وہ بولا: “ اونہوں ! ابھی مشاہدہ کچا ہے اور دیکھو۔” یہ کہہ کر چلا گیا۔
میں نے پھر سے مچھلی کو دیکھنا شروع کر دیا۔ اب کی بار مجھے نئی نئی باتیں نظر آنے لگیں ، ایسی باتیں کہ میں خود بھی حیران رہ گیا۔
“ ایک ہفتے بعد جب میں نے اوگاسز کو سب کچھ بتا دیا تو اس نے مجھے شاباش نہ دی بلکہ کہا : “ ہاں اگر کوشش کرتے رہے تو دیکھنا سیکھ جاؤ گے۔”

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button