کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : رابعہ حمید سیٹھی
کنویں کے مینڈک
ایک کنویں میں ایک مینڈک رہا کرتا تھا. وہ کنواں اس کی کائنات تھا جس پر وہ حکمران تھا اور ہمہ وقت خوشی سے ٹراتا ریتا تھا. کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ سیلاب آیا اور سمندر کا ایک مینڈک کنویں میں آ گرا. کنویں کا مینڈک اسے دیکھ کر حیران ہوا.
بولا: “ابے تو کہاں سے آیا ہے؟”
سمندر کے مینڈک نے کہا: “میں سمندر سے آیا ہوں”
“سمندر کیا ہوتا ہے؟” کنویں کے مینڈک نے پوچھا.
“سمندر بہت بڑا ہوتا ہے” سمندری مینڈک نے جواب دیا.
کنویں کے مینڈک نے اپنے آپ میں پھونک بھری. بولا: ” کیا سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے؟”
“اس سے بہت بڑا” سمندری مینڈک بولا.
کنویں کے مینڈک نے خود کو اور پھلایا.” کیا اتنا بڑا؟”
خود میں پھونک بھرتے بھرتے دفعتاً ایک دھماکہ ہوا اور کنویں کے مینڈک کے چیتھڑے اڑ گئے. صاحبو ہم سب جو کائنات اور اس کے فزیکل علوم سے واقف نہیں، کنویں کے مینڈک ہیں. دراصل ساری کنفیوژن لفظ علم کی پیدا کردہ ہے.
ہمارے عالم دین سمجھتے ہیں کہ علم سے مراد علم دین ہے.
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علم حاصل کرنے کے لیے اگر چین بھی جانا پڑے تو ضرور جاؤ. ان کا مطلب کائنات سے متعلق فزیکل علوم تھا، دینی علم نہیں.. چونکہ دینی علم کا مرکز تو مدینہ تھا. دینی علوم حاصل کرنے کے لیے باہر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.
قران پاک میں بھی جگہ جگہ علم اور عالم کی فضیلت کا ذکر آیا ہے. وہاں بھی علم کا مفہوم کائناتی اور فزیکل علوم ہیں.
جب تک اپ اللہ کی تحقیقات کا علم حاصل نہیں کرتے تب تک آپ اللہ کی عظمت، اللہ کی کائنات کی وسعت، اس کے نظم اور منصوبہ بندی کی عظمت کو نہیں سمجھ سکتے. اور تب تک آپ قرآن پاک کے مفہوم کو بھی نہیں سمجھ سکتے. قرآن پاک کی عظمت کو نہیں سمجھ سکتے.
دیناوی علوم حاصل کئے بغیر دینی علم ایسے ہے جیسے بن پہیوں کے گاڑی ہو.
صاحبو ہمارے دینی مدرسے جو ہیں وہ صرف کنویں کے مینڈک پیدا کر سکتے ہیں اور دھڑا دھڑ کر رہے ہیں.
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر قصبے میں، ہر شہر میں، جگہ جگہ دینی مدارس قائم کئےجا رہے ہیں اور اس خوش فہمی میں کہ ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں. ہم ان دینی مدارس کے قیام کے لیے دھڑا دھڑ چندے دیتے ہیں.