کس لیے؟ کیا اس لیے؟۔۔۔سمے کا بندھن
کس لیے؟ کیا اس لیے؟
ہائیں پھر۔۔پھر وہی علی کاٹج۔۔یہ میں ادھر کیسے چلا آیا۔۔؟
یہ کیا ھو رہا ھے؟ اسلام آباد میں گھومتے پھرتے ہر دوسرے چوتھے دن انجانے میں میں خود کو علی کاٹج کے سامنے کھڑا پاتا ھوں۔۔پتہ نہیں کیسے انجانے میں میں ادھر جا نکلتا ھوں۔۔کھڑا ہو کر کاٹج کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا ھوں۔۔پھر کسی آواز پر چونکتا ھوں۔۔خود کو وہاں پا کر حیران ھوتا ھوں۔۔یہ میں ادھر کیسے پہنچ گیا۔۔!!
میرا نام امتیاز ھے۔۔میں نارمل آدمی ھوں۔۔زندگی میں کوئی الجھن نہیں۔۔کوئی کشکمش نہیں۔۔شادی شدہ ھوں۔۔مجھے آنا سے پیار ھے۔۔فرزانہ میری بیوی ھے۔۔میں اسے آنا کہ کر بلاتا ھوں۔۔گھر میں کوئی پرابلم نہیں۔۔کوئی تلخی نہیں۔۔کوئی دکھاوا نہیں۔۔آنا بہت ہی پیاری بیوی ھے۔۔پہلے میں فیصل آباد میں اسسٹنٹ تھا۔۔تنخواہ کم تھی لیکن گزارہ ھو جاتا تھا۔۔بس آنا میں ایک نقص ھے۔۔اسے ایک لگن رہتی ھے کہ ہمارے بچے اچھی تعلیم پائیں۔۔کانونٹ سکول میں پڑھیں۔۔اعلی تعلیم حاصل کریں۔۔بڑے ھو کر کچھ بنیں۔۔!!
اس خواہش کے زیر اثر وہ مجھے اکساتی رہی۔۔کچھ کرو،امتیاز کچھ کرو۔۔اسسٹنٹ بن کر بیٹھ رہنے سے کچھ نہیں ھو گا۔۔
ہم بچوں کو انگریزی سکول میں داخل نہیں کرا سکیں گے۔۔کلرکوں کی آبادی بڑھانے سے فائدہ؟
آنا مجھے اکساتی رہی،اکساتی رہی۔۔نتیجہ یہ ھوا کہ میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کرتا رہا اور کامیاب ھو گیا۔۔اب یہاں اسلام آباد میں میری تعیناتی ھو گئی ھے۔۔افسر بن گیا ھوں چارج لے لیا ھے۔۔مکان کی تلاش کر رھا ھوں۔۔مکان ملے تو آنا اور بچوں کو فیصل آباد سے لے آئوں۔۔!
یہاں اسلام آباد میں مکان کی بڑی مشکل ھے۔۔ملتے تو ہیں پر کرائے بہت زیادہ ہیں۔۔ایک مہینہ ھو گیا ھے مجھے اسلام آباد میں جوتے چٹخاتے ھوئے۔۔!!
ادھر، ایف سیون میں علی کاٹج دیر سے خالی پڑا ھے۔۔بہت بڑا بنگلہ ھے۔۔بنگلہ دیکھ کر جرات نہ ھوئی کہ کرایہ پوچھوں۔۔تین ہزار سے کم کیا ھو گا۔۔میری دسترس سے باہر ھے۔۔ایک روز کھڑا باہر سے بنگلے کو حسرت زدہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ ایک بوڑھے میاں آ گئے۔۔بولے، صاحب جی کیا دیکھ رھے ہیں آپ؟۔۔۔یہ بنگلہ رہائش کے قابل نہیں ھے۔۔آسیب زدہ مکان ھے۔۔اسے کوئی کرائے پر نہیں لے گا۔۔دو سال سے خالی پڑا ھے۔۔دو ایک کرایہ دار آئے تھے۔۔چار اک دن ٹھہرے پھر بھاگ گئے۔۔!!
کیا کرایہ ھو گا اس کا، بڑے میاں؟۔۔میں نے پوچھا
کرائے کی بات نہیں وہ بولا۔۔مالک مکان تو مفت دینے کے لئے تیار ھے تاکہ مکان آباد ھو جائے۔۔!!
بس اس دن سے یہی کیفیت ھے۔۔میں مکان کی تلاش میں گھر سے نکلتا ھوں۔۔چاھے ایف ایٹ کی طرف جاؤں یا جی نائن کی طرف۔۔گھومتے پھرتے دفعتا کیا دیکھتا ھوں کہ ایف سیون میں علی کاٹج کے سامنے کھڑا ھوں۔۔چونکتا ھوں، حیران ھوتا ھوں یہ میں ادھر کیسے نکل آیا۔۔!!
ایسے لگتا ھے جیسے علی کاٹج سے میرا گہرا تعلق ھے۔۔جیسے علی کاٹج مجھے بلا رہا ھے۔۔اسے مجھ سے کچھ کہنا ھے۔۔جیسے وہ میرا منتظر ھے۔۔!!
پہلے تو یہ خیال میرے دل کی گہرائیوں میں دبکا بیٹھا رہا۔۔پھر ایک روز اچھل کر ذہن میں آ گیا۔۔میں نے کئی بار اسے ذہن سے نکالا۔۔تالی مار اڑانے کی کوشش کی۔۔لا حول پڑھتا رہا۔۔لیکن وہ میرے ذہن میں میخ کی طرح گڑ گیا۔۔کسی صورت میں اسے ذہن سے نکال نہ سکا۔۔مجبوراً مجھے اس خیال کو اپنانا پڑا۔۔کوئی چارہ نہ تھا میں نے تسلیم کر لیا۔۔سچے دل سے تسلیم کر لیا کہ علی کاٹج کا میری زندگی سے گہرا تعلق ھے اور اس حقیقت کو نظر انداز کرنا عبث ھے۔۔لا حاصل ھے۔۔!!
اس پر میرے دل میں ایک انجانی جرأت پیدا ھو گئی۔۔ویسے فطری طور پر میں ایک ڈرپوک آدمی ھوں۔۔اونہوں، حقائق سے نہیں ڈرتا۔۔لیکن غیر مرئی چیزوں سے بہت ڈرتا ھوں۔۔جنات سے ڈرتا ھوں۔۔ارواح سے ڈرتا ھوں۔۔کسی ہانٹڈ ہاؤس میں رہنا میرے لئے ممکن نہیں لیکن اس روز مجھ میں گویا ایک انجانی قوت پیدا ھو گئی۔۔میں نے سوچا چلو چل کر علی کاٹج کے بارے میں کچھ اتا پتہ لگاؤں ۔۔چوکیدار سے ملو۔۔اس سے پوچھو۔۔!!
اس دوران میں مجھے علم ھو چکا تھا کہ علی کاٹج میں ایک چوکیدار رہتا ھے۔۔جو دن کے وقت محنت مزدوری کرتا ھے اور رات کو بنگلے میں آ کے پڑا رہتا ھے۔۔اس کا نام فضلو ھے۔۔فضلو سے کبھی میری مٹھ بھیڑ نہ ھوئی تھی۔۔شام کو وہ گھر پر نہیں ھوتا تھا اس لئے میں نے سوچا رات کے وقت وہاں جاؤں ۔۔فضلو سے ملوں،بات کروں۔۔پاس بیٹھوں۔۔شائد کچھ اتا پتہ چلے۔۔!!
میں نے فضلو سے ملنے کا منصوبہ بنایا۔۔کھدر کا ایک میلا جوڑا پہنا،ہاتھ میں ایک بیگ لیا اور علی کاٹج کی طرف چل پڑا۔۔!!
فضلو ساٹھ سال کا بوڑھا آدمی تھا۔۔اس کی پیشانی پر ایک مستقل گھوری تھی۔۔رنگ کالا تھا۔۔ایسے لگتا تھا جیسے لوہے کا بنا ھوا ھو۔۔آنکھیں اندر دھنسی ھوئی تھیں۔۔وہ دیکھتا نہیں تھا،گھورتا تھا۔۔آواز کرخت تھی، لہجہ رہتگی تھا۔۔غالباً وہیں کا رہنے والا تھا۔۔!!
مجھے دیکھ کر اس کے ماتھے کی تیوری اور ابھر آئی۔۔آنکھیں اور دھنس گئیں۔۔کون ھے تو۔۔اس کی آواز میں بھی لوہے کی کھنک تھی۔۔!!
مسافر ھوں، رات کاٹنے کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں۔۔میں نے کہا
اس نے لپک کر لالٹین اٹھائی اور میری طرف گھورنے لگا۔۔تو تو بابو ھے رے۔۔وہ بولا
ہاں بابو ھوں میں نے کہا۔۔میرے ایک دوست نے چھٹی لکھ کر مجھے بلایا تھا۔۔یہاں آیا تو پتہ۔چلا کہ وہ مکان چھوڑ کر چلا گیا ھے۔۔اگر آج کی رات کے لئے تو مجھے ٹھکانہ دے دے تو کل کے لئے میں کوئی انتظام کر لوں گا۔۔
تو رات یہاں گزارے گا؟ اس بنگلے میں۔۔؟
ہاں۔۔میں نے جواب دیا۔۔بس مجھے ایک چارپائی دے دے۔۔اس پر پڑا رہوں گا۔۔وہ ہنسا۔۔اس کی ہنسی بڑی بھیانک تھی۔۔اس بنگلے ماں کوئی بابو رات نہیں گجار سکے ھے۔۔وہ بولا۔۔!!
تو جو رہتا ھے، یہاں۔۔!!
میری اور بات ھے۔۔وہ بولا۔۔دیکھ بابو، میری طرپھ سے نہ نہیں۔۔بیشک یہاں کھاٹ پر پڑ رہ میرے ساتھ۔۔پر جو آدھی رات کے بخت تجھے کچھ ھو گیا تو میری جمے داری نہیں ھو گی۔۔۔!!
نہیں، تیری ذمہ داری نہیں ھو گی۔۔تیری تو مہربانی ھو گی۔۔مین نے کہا
اور جو آدھی رات کے بخت تجھے ہسپتال لے جانا پڑا تو۔۔؟
نہیں،نہیں تو فکر نہ کر فضلو۔۔!!
بڑا دل گردے والا ھے تو بھئی۔۔بیٹھ جا کھاٹ پر۔۔کیا یونہی کھڑا رھے گا
بات بن گئی میں نے سوچا۔۔میری سکیم چل گئی۔۔میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔۔!!
ایک بات پوچھوں فضلو؟۔۔۔میں نے کہا
پوچھ۔۔۔وہ بولا۔۔ایک کیا دو پوچھ۔۔!!
یہاں رات کو ھوتا کیا ھے۔۔؟
ہوتا تو کچھ نہیں وہ بولا۔۔بس وہ بڈھا ساری رات بنگلے ما گھومتا پھرتا رھے ھے۔۔!!
کدی بگیچے مین کدی برمدے میں۔۔کدی ادھر کدی ادھر۔۔!!کمروں کے درواجے بجاوے ھے۔۔آواجیں دے ھے۔۔!!
کسے آوازیں دے ھے؟؟
پتہ نہیں،کسے دے ھے آواجیں۔۔کدی کدی اپنے گھر والی کا نائوں لے ھے۔۔!!پھاطمہ پھاطمہ کرے ھے۔۔۔!
تجھے پتہ ھے، یہ بڈھا کون ھے۔۔؟
ہاں۔۔وہ بولا۔۔علی ھے، اس گھر کا مالک علی احمد۔۔جس کے نائوں پر یہ بنگلہ ھے۔۔!
اور وہ کہتا کیا ھے؟۔۔۔میں نے پوچھا
پتہ نہیں کیا کہتا ھے۔وہ بولا۔۔پر جو کچھ بھی وہ کہے ھے۔۔وہ سنا نہیں جاوے ھے۔۔سہارا نہیں جاوے ھے۔۔بڑا بڑا دل گردے والا بھی ہمت ہار دیوے ھے۔۔اٹھ کر بھاگ لے ھے۔۔!!
مطلب ھے کہ اس کے لفظ سمجھ میں نہیں آتے۔۔؟
نہیں، نہیں۔۔وہ بولا۔۔لپھج تو سمجھ میں آویں ہیں۔۔پر یوں سمجھ ماں نہیں آوے ھے کہ وہ کہتا کیا ھے۔۔۔رک رک کر بولے ھے۔۔پہلے تو کچھ پوچھے ھے۔۔پتا نہیں کیا پوچھے ھے۔۔اونچی آواج میں پوچھے ھے۔۔پوچھتا جائے ھے۔۔پوچھتا جائے ھے۔۔پوچھتا جائے ھے۔۔۔ساتھ گھومتا پھرتا رھے ھے۔۔ابھی آواج ادھر سے آئی پھر ادھر سے آ رہی ھے۔۔پھر بڑا کمرہ جو ھے نا اس میں گونجی۔۔!!
پھر اوپر ٹیرس سے بول ریا ھے۔۔انا کسی سے بول ریا ھے۔۔پوچھ ریا ھے۔۔پوچھے جا رہا ھے۔۔پوچھے جا رہا ھے۔۔پتہ نہیں کیا پوچھتا ھے۔۔بس ایک لپھج بولے جائے ھے۔۔کس لئے؟۔۔کس لئے؟۔۔۔۔کس لئے؟۔۔۔پھاطمہ کس لئے؟۔۔۔یوں جیسے سوئی رکاٹ پہ اٹک جائے ھے۔۔کدی ادھر سے آواج ائے ھے کدی ادھر سے اواج آئے ھے۔۔کدی بگیچے سے۔۔کدی بڑے کمرے سے۔۔کدی ٹیرس سے۔۔کدی اناکسی سے۔۔چاروں طرپھ سے آواجیں آئیں ہیں۔۔سارا گھر ” کس لئے ” کی اواجوں سے بھر جائے ھے۔۔!!
پھر چپ کا تمبو تن جائے ھے۔۔اتنی ڈونگی چپ کے گھر کھوہ بن جائے ھے۔۔۔اور پھر وہ اس کھوہ میں سے بولے ھے۔۔۔کیا اس لئے پھاطمہ؟۔۔۔کیا اس لئے؟۔۔جد وہ یہ کہے ھے تو سنا نہیں جائے ھے۔۔سہارا نہیں جائے ھے۔۔ساری دنیا کا دکھ اس کی آواج میں سمو جائے ھے۔۔جیسے جرب لگنے پر انڈا پھوٹ گیا ھو۔۔۔چنٹری چنٹری ھو گیا ھو۔۔۔جیسے آنکھ پھوٹ کر آنسو بن گئی ھو۔۔جیسے موٹر کا سیسہ چوٹ لگنے پر جروں کا ڈھیر بن جاوے ھے۔۔جیسے دل چلتا چلتا رک جاوے۔۔۔جان نچر جاوے۔۔لوتھڑا رہ جائے۔۔!!
پھر بنگلے پر موت چھا جاوے ھے۔۔کالی بولی موت کچھ ملٹ سب نفی ھو جاوے ھے۔۔جھینگر بولنا بند کر دیویں ہیں۔۔ٹٹیری گونگی ھو جاوے ھے۔۔گلی کے کتے سن ھو جاویں ہیں۔۔اس آواج کو سن کر۔۔اس ٹوٹ کو سن کر سدھ بدھ ماری جاوے ھے۔۔!!
میں خوف کے مارے کانپنے لگا۔۔مجھے دیکھ کر وہ ہنسا۔۔ابی نہیں بابو۔۔ابی نہیں۔۔ابی سے کیوں ڈر رھے؟۔۔وہ تو آدھی رات کے بخت آوے ھے۔۔۔یہاں بنگلے میں۔۔!!
ہاں، میں ڈرتا ھوں۔۔میں نے کہا۔۔۔تو میری بات چھوڑ۔۔یہ بتا وہ بڈھا کیا کرتا ھے۔۔!!
وہ ہنسا۔۔پھر وہ پھر سے پوچھنے لگے ھے۔۔کس لئے پھاطمہ؟۔۔کس لئے؟۔۔۔اور وہ چکر پھر سے چل پڑے ھے۔۔ساری رات یو چکر چلتا رھے ھے۔۔۔یونہی چلتا رھے ھے۔۔تو اسے نہیں سہار سکے گا بابو۔۔۔کوئی بھی نہیں سہار سکے ھے۔۔۔دل پر بوجھ پڑ جاوے ھے۔۔۔نسیں دھنکی کی طرحیوں بجیں ہیں۔۔۔!!
تو کیسے سہارے ھے فضلو۔۔۔؟
میں نے بس چار اک دنا سہارا تھا پہلے پہل۔۔اب تو ماں افیم کی گولی کھا کر پڑ رہوں ہوں۔۔۔تو بھی کھا لے ایک۔۔۔آج کی رات۔۔!!
یہ بتا فضلو کہ صرف بڈھے کی آوازیں آئیں ہیں یا کچھ نظر بھی آئے ھے۔۔۔؟ میں نے پوچھا
تو پوچھے ھے نجر بھی پڑے ھے کچھ۔۔بھئی میرے سرہانے آ کے کھڑا رھے ھے۔۔۔یہ سامنے پلاٹ میں گھومتا نجر آئے ھے۔۔سارے گھر میں گھومتا دسے ھے۔۔وہی کالی میلی اچکن۔۔وہی سیدھا پاجامہ۔۔ہاتھ میں سوتی سر پر ٹوپی۔۔!!
تو نے اسے جیتے جی بھی دیکھا کبھی؟۔میں نے پوچھا
ہاں۔۔۔وہ بولا۔۔صرف ایک بار۔۔۔پر اس وخت مجھے پتا نہ تھا کہ یہ علی ھے۔۔تیری طرح آیا تھا وہ میرے پاس۔۔رات گجارنے کے لئے۔۔۔دکھ نا بابو وہ تو بیس سال سے ادھر کویت ما بیٹھا تھا۔۔!!
دھڑا دھڑ کمائے جا ریا تھا اور پیسہ گھر بھیجھے جا ریا تھا۔۔یہاں گھر میں تو اس کی دو لڑخیاں،ایک لڑخا،ان کی ماں اور نوکر رہیں تھے۔۔ہم تین نوکر تھے۔۔ببر جی تھا۔۔ایک لڑخا تھا اور ایک میں تھا۔۔!!
جس رات وہ آ کر تیرے پاس رہا تھا، اس نے تجھے کچھ بتایا تھا؟۔۔میں نے پوچھا
ہاں، ہاں۔۔۔سب کچھ بتایا تھا۔۔بس یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ علی ھے۔۔وہ تو ہمیں اگلے دن پتا چلا جد اس کی لاش ہسپتال سے آئی۔۔۔ہوا یوں تھا کہ اس کی گھر والی پر دورہ پڑ گیا۔۔ایک پاسا مارا گیا۔۔جبان بند ھو گئی۔۔اسے اٹھا کر ہسپتال لے گئے۔۔اس کے چار چھ روج بعد وہ آیا۔۔جس روج وہ آیا اسی روج بڑی لڑکی کا جنم دن تھا۔۔گھر میں میں بڑی پالٹی تھی۔۔۔بڑے انتجام تھے۔۔پچیس ممانوں نے آنا تھا۔۔ہم سب انتجاموں میں لگے وے تھے۔۔جد وہ آیا تو اسے کسی نے نہ پوچھا کہ بھئ تو کون ھے۔۔کسی نے نہ پچھانا۔۔اس کی گھر والی یہاں تھی نہیں جو پچھانتی۔۔جب اس نے اپنے لڑخے اور لڑخیوں کو دیکھا تو وہ طور بطورا مارا گیا۔۔ماں جانوں وس کے دل کو دھکا لگ گیا۔۔!!
وہ کیوں؟۔۔۔میں نے پوچھا
وہ تینوں ولیتی سکولوں کے پڑھے وے تھے۔۔پر سر پر بالوں کے یہ بڑے بڑے گھونسلے رکھے وے تھے۔۔منہ پر رنگ روگن تھے۔۔نیچے جانگیہ گھگھرے۔۔۔باہیں بھی ننگی، ٹانگیں بھی ننگی۔۔۔پتہ ہی نہ چلے تھا کہ کون لڑخا ھے، کون لڑخی ھے۔۔جد وہ میرے پاس آیا تھا تو گھبرایا وا تھا۔۔میں نے اسے کہا تو ابی سے گھبرا گیا۔۔ابی تو دیکھنا۔۔جد پالٹی ھو گی تد دیکھنا۔۔!!
کیا کیا مخلوق آتی ھے یہاں، پالٹی میں۔۔ایسے ایسے حلیے جو تو نے کدی دیکھے نہ ھوں۔۔ایسا ایسا پہناوا کہ توبہ ھے۔۔۔اور پھر جب ٹیپ بجے گا۔۔ایسے ایسے انگریجی گیت جو تو نے کدی سنے نہ ھوں۔۔۔گیت کم کم چیکھیں جیادہ۔۔پھر ناچ ھو گا، پاگلوں کا ناج۔۔پتہ نہیں یہ سیٹھ لوگ اپنے بچوں کو انگریجی تنیم دے کر کیسی کیسی مکلھوک پیدا کر دیتے ہیں۔۔!!
میں نے اس سے کہا، وہ ہمارا سیٹھ علی جو ھے۔۔دھڑا دھڑ پیسے بھیج رہا ھے کویت سے اندھا دھند۔۔کس لئے؟۔۔کیا اس لئے کہ یہ مکلھوک بنائے۔۔۔؟
تو علی کو جانتا ھے؟۔اس نے مجھ سے پوچھا
میں نے کہا نہیں۔۔وہ کدی آیا بھی ھو گھر میں۔۔!!
میں اسے جانتا ھوں۔۔اس نے کہا۔۔یہ کہ کر وہ کھاٹ پر بیٹھ گیا۔۔بولا۔۔وہ اپنے لئے پیسے کمانے نہیں گیا وہاں کویت میں۔۔یہاں وہ راج کا کام کرے تھا۔۔ارمان سے دو وخت کی روٹی کھاوے تھا۔۔بس ایک تخلیف تھی اسے۔۔اہلکار اسے بے گار پر لے جاویں تھے۔۔اس کی بے عجتی کریں تھے۔۔ایک بار تو تھانے دار نے بے وزہ اسے حوالات میں بند کر دیا تھا۔۔بس اس روج سے اسے ایک لگن لگ گئی کہ باہر جاؤں ، کمائی کروں۔۔اپنے بچوں کو اونچی تلیم دوں۔۔ولیتی سکولوں میں پڑھائوں تاکہ بڑے ھو کر وہ بڑے لوک بنیں۔۔اور کوئی ان کی بے عجتی نہ کر سکے۔۔!!
ان سے بیگار نہ لے سکے۔۔انھیں بے وزہ حوالات میں نہ ڈال سکے۔۔اس لئے وہ باہر چلا گیا کویت میں۔۔اپنے لئے نہیں،اپنے بچوں کی تلیم کےلئے۔۔!!
آج بیس سال ھو گئے کہ وہ وطن سے باہر بیٹھا ھے۔۔دن رات،دن رات اس کا ایک کام ھے۔۔مسالا لگاتا ھے۔۔اینٹ پر اینٹ رکھتا ھے اور اسے ٹھونکتا ھے۔۔پھر مسالا لگاتا ھے۔۔اینٹ پر اینٹ رکھتا ھے۔۔اینٹ پر اینٹ رکھے جاتا ھے۔۔دن رات اوبر ٹیم کرتا ھے۔۔اوبر ٹیم کی خاطر وہ گھر بھی نہیں آیا کدی۔۔ساری جندگانی اس نے بچوں کی تلیم کے لئے قربان کر دی۔۔۔!!
عین اس وقت باغیچے سے آواز آئی
کس لئے؟۔۔۔کس لئے؟۔۔۔کس لیے؟۔۔فاطمہ کس لئے۔۔۔؟
لے!۔۔فضلو بولا۔۔وہ آ گیا۔۔آدھی رات ھو گئی نا اور وہ آ گیا۔۔!!
کس لئے؟۔۔کس لیے؟۔۔۔بنگلے کا کونہ کونہ اس کی آواز سے گونجنے لگا۔۔وہ آواز بڑی خوفناک تھی۔۔اسے سن کر جسم کے بال کھڑے ھو جاتے تھے۔۔وہ آواز عام گلے سے نہیں نکل رہی تھی۔۔ایسے لگتا تھا جیسے آدھا گلا کٹا ھوا ھو۔۔آدھے سے آواز نکل رہی ھو۔۔جیسے بکرے کی سہ رگ کٹنے پہ نکلتی ھے۔۔!!
وہ آواز سن کر میں سن ھو گیا۔۔۔ہاتھ پاؤں میں سکت نہ رہی۔۔دل پر منوں بوجھ پڑ گیا۔۔۔سارے جسم میں سوئیاں چھبنے لگیں۔۔میں نے لپک کر بیگ اٹھایا اور دروازے کی طرف جست لگائی۔۔مجھے ایسے لگا جیسے وہ میرے پیچھے پیچھے بھاگ رہا ھو۔۔۔کس لئے؟۔۔۔کس لئے؟۔۔۔مجھ سے پوچھ رہا ھو۔۔کس لئے۔۔۔امتیاز کس لئے۔۔۔؟
جب میں گلی کے نکڑ پر پہنچا تو وہ آواز چھن سے ریزہ ریزہ ھو کر ٹوٹ گئی۔۔۔کیا اس لئے۔۔۔؟
پھر ایک خوفناک خاموشی چھا گئی۔۔۔جیسے سارا محلہ اندھے کنوئیں میں ڈوب گیا ھو۔