سوچو اور لکھو
جزا و سزا
بقلم : رفعت شیخ
أدم دنیا میں اترے تو جنت کے ہجر اور اس قلیل مدتی مستقر کی اجنبیت میں کھوۓ کھویے سے تھے, کیا کریں ,کیا نہ کریں ,جو کریں تو کیوں اور جو نہ کریں تو کیوں ؟ جواب تھا جزا پانے کے لئے اور سزا سے بچنے کے لئے,,
ایک پھل چکھا, لطف ملا ,فائدہ بھی پایا تو اس پر قائم ہو گئے
ایک پتے نے لب و دہن میں زہر بھر دیا تو گریزاں رہنے لگے….
یوں جزا اور سزا کا انتہائ بنیادی تصور بندھ گیا , امر والوں نے حکم منوانے کے لئے اسے آ لہ بنایا, اور تہذیب کی داغ بیل ڈال دی گئ, یہ ہتھیار جہاں جتنی کامیابی اور خوبصورتی سے استعمال کیا جاتا ہے, وہ بستی اتنی ہی سکھی اور پر سکون رہتی ہے.
جہاں یہ تلوار کمزور ہاتھوں میں ہو, ناحق پہ گرے اور حق سے بچے وہاں انسانیت دم توڑنے لگتی ہے.
قانون اور جزا سزا کے لالچ اور ڈر سے معاشرہ راہ راست پہ نظر آ تا ہے , جرائم قابو میں رہتے ہیں ,لیکن دنیاوی جزا و سزا ایک بیرونی عنصر ہے یہ انسان کو ہدایت اور قانون پر کاربند تو رکھتا ہے لیکن جونہی اس نظام عدل کی گرفت ڈھیلی ہوئ وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے ,مغرب میں سڑک پر نہ تھوکنے والے کا لاہور ہوائ اڈے پہ اترتے ہی منہ کھل جاتا ہے .
خالق کائنات نے اس مقام پر بھی ہمیں نظر میں رکھا اور راہ راست پر رہنے کا ایک اندرونی عنصر بھی فراہم کر دیا یعنی
internal factor to stay focused
اور وہ یوں کہ جزا کی امید اور سزا کا خوف ہمیں وسیع تر معنوں میں عطا کر دیا ,
اچھا کرنے پر جزا کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو گا اور برا کرنے پہ یہاں بچ بھی گئے تو بعد از موت کوئ فرار نہیں ,
تو سمجھ یہی بات آ ئ کہ اعمال صالحہ کی بنیاد ایمان ہو تو ہی بات بنتی ہے . تبھی فلاح یافتہ ہوں گے.