کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : ایمان گل
اسلام پسند
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے علماۓ دین نے انسان کو کبھی اشرف المخلوقات نہیں سمجھا، کیوں؟
غیر مسلموں کو تو وہ بھٹکے ہوۓ راندہ درگاہ سمجھتے ہیں اور عام مسلمانوں کو بے عمل قرار دے کر تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے نفس لاشعور میں مسلمانوں کہ درجہ بندی کر رکھی ہے۔ اس درجہ بندی کی نوعیت انگریزی کی کہاوت کے مترادف ہے۔ کہاوت یوں ہے
All are queer, Save thee & me.
And even thee, my dear A little bit queer.
اس حقیقت کا احساس سب سے پہلے 1964/65 میں ہوا۔ ان دنوں میں وزارت اطلاعات میں کام کر رہا تھا۔ میرے کمرے میں ایک الماری کتابوں سے بھری ہوٸی تھی۔ایک دن اتفاقا میں نے الماری کھولی اور ایک کتاب نکالی۔ یہ کتاب ایک بہت بڑے عالم دین کی تصنیف تھی۔ اپنے پروفیشن کے حوالے سے میں جانتا تھا کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں اور زندگی بھر کی محنت و مشقت سےانھوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے اور اپنے علم کے زور پر خود کو منوایا ہے۔
خصوصی بات یہ تھی کہ انھوں نے ذاتی کاوش کے زور پہ یہ اعزازی مقام حاصل کیا۔ اگرچہ میں دینی علوم سے ناواقف تھا لیکن میں انھیں بڑا مانتا تھا۔
تفریحاً کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوۓ دفعتاً میں چونکا۔ ارے یہ کیا؟ انھوں نے اعلانیہ مسلمانوں کی درجہ بندی کر رکھی تھی۔
وہ کلمہ گو کو مسلمان نہیں مانتے تھے۔خود کو اور اپنی قبیل کے لوگوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور عام مسلمانوں کو اسلام پسند کہتے تھے۔ عام مسلمانوں کے لیے ان کے دل میں تحقیر کا جزبہ تھا جس کا بات بات پہ اظہار ہوتا تھا۔ مسلمانوں میں رابطہ پیدا کرنے کی بجاۓ وہ افراق و تفریق پیدا کر رہے تھے۔ میں نے ان کے کردار کو جاننے کے لیے کتاب کا بغور مطالعہ کیا۔ علم کے زعم نے انھیں بت بنا رکھا تھا۔
سیانے کہتے ہیں، لوگو دو تکبروں سے بچنا۔ ایک علم کا تکبر، دوسرا نیکی کا تکبر۔ ان میں دونوں موجود تھے۔