کتاب : تلاش
باب 10 : گلاب کا پھول
ٹرانسکرپشن : رفعت شیخ
صاحبو ! بات کہنے کی نہیں – لیکن کہے بغیر چارہ بھی نہیں ، بڑی تلخ بات ہے لیکن بڑی سچی ، اتنی سچائی کہ ماننے کو جی نہیں چاہتا ،
وہ یہ کہ ہم میں سے چند ایک افراد ہوں گے جو قرآن پڑھتے ہیں ، انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اتنے چند !
باقی سب آپ ، میں ، ہم قرآن پڑھتے نہیں ، اسے استعمال کرتے ہیں، زیادہ تر لوگ ثواب کمانے کے لئے تلاوت کرتے ہیں، کچھ اسے مرحوم عزیز و اقربا کو ثواب پہنچانے کے لئے قرآن پڑھتے ہیں، کئی لوگ آیات کو تعویذ کے طور پر استعمال کرتے ہیں،
کچھ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ورد کرتے ہیں،
صوفی اکھٹے ہو کر ذکر کرتے ہیں تاکہ وجدان کی کیفیت پیدا ہو ، وجدان بھی تو ایک قسم کی لذت ہے ۔
ہمیں راہ دکھانے والے اپنے نظریات کی تقویت کے لئے، عوام کو مرعوب کرنے کے لئے، شوکت نفس کے لئے قرآن پڑھتے ہیں، لیکن بہر صورت کوئی شخص قرآن کو سمجھنے اور جاننے کے لئے قرآن نہیں پڑھتا۔
سیانے کہتے ہیں __ قرآن گلاب کے پھول کی مانند ہے پتی در پتی
پتی در پتی
اوپر کی پتی اٹھاؤ تو نیچے ایک اور پتی ، اسے اٹھاؤ تو ایک اور پتی، اسے اٹھاؤ تو ایک اور پتی۔۔۔۔
مفہوم در مفہوم ۔۔۔
اوپر کا مفہوم ہٹاؤ تو نیچے ایک اور مفہوم ،
اوپر سطحی ، نیچے کائناتی ، اکثر لوگ پہلی پتی یعنی اوپر کے مفہوم پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پا لیا ، ہم نے پا لیا ۔
قرآن کی بات تو وہی تیتر کی بولی والی بات ہے، تیتر بولا تو مفکر نے کہا کہ کہہ رہا ہے’ سبحان تیری قدرت ‘۔ بنیا بولا ابے نہیں ! کیوں خواہ مخواہ بات کو الجھا رہا ہے، تیتر کہہ رہا ہے
نون- تیل- ادرک۔۔۔!
پہلوان بولا، تم دونوں غلط کہہ رہے ہو تیتر کہہ رہا ہے کہ کھا گھی اور کر کسرت ۔۔۔۔
قرآن کہتا ہے لوگو ! مجھے پڑھو ، سمجھو ، غور و فکر کرو ، پھر تمھیں ایسی ایسی عقل و دانش کی باتیں ملیں گی کہ تم حیران رہ جاؤ گے، پردے اٹھ جائیں گے، بڑے بڑے راز کھلیں گے جو تمہیں تسخیر کائنات میں مدد دیں گے۔