کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : ایمان عائشہ
زبان
سب سے مشکل تو یہ تھی کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں پٹھانوں اور مغلوں کے ادوار کی وجہ سے جو سرکاری زبان رائج تھی ، اس میں عربی اور فارسی زبانوں کی آمیزش تھی۔ زبان کی وجہ سے ہندی مسلمانوں کا جذباتی تعلق فارس اور عرب ممالک سے تھا ۔ اس تعلق کو ختم کرنا ازبس ضروری تھا ۔ لہذا انھوں نے اردو زبان کی بنیاد ڈالی جو مقامی زبانوں اور ہندی کی آمیزش سے مرتب کی گئی تھی ۔ صاحبو ! یوں ہم اردو سے ہوتے ہوئے انگریزی زبان تک پہنچے اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری کوئی قومی زبان نہیں۔ اردو جسے ہم رابطہ زبان تسلیم کرتے ہیں ، وہ ہمارے سیکرٹریٹ کے باہر دھتکاری ہوئی کھڑی ہے۔
سیکرٹریٹ کے اندر گورا صاحب کے بجائے کالا صاحب ہے جو گورے کی نسبت زیادہ سٹیٹس زدہ ہے۔ انگریزی ہماری سرکاری زبان ہے اور سماجی طور پر سٹیٹس سمبل ہے۔
ہمارا دارالحکومت ایک سٹیٹس کالونی ہے جس میں گریڈوں کی ذات پات سختی سے رائج ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو اردو اسکول میں داخل کرنے کو کسر شان سمجھتے ہیں ۔ بچے میٹریکولیشن کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، وہ او لیول اور اے لیول کرنے کے خواہش مند ہیں ، انگلش اسکول یوں دھڑا دھڑ قائم ہوتے جا رہے ہیں، جس طرح برسات میں کھمبیاں اگتی ہیں۔ گورے کا پروگرام پھل لایا ہے ۔ نوجوان ، تہذیب کو عقل سے گری ہوئی گھٹیا چیز سمجھنے لگے ہیں ۔ مذہب پر شرمسار ہیں ۔