لکھ یار

حیات از قلم عظمیٰ خرم

#پری_اپرووڈ 

#حیات_پارٹ_17

#حیات

پارٹ 17

احد ایک ہفتے کے سرکاری دورے سے گھر واپس لوٹا تو گھر کے باہر یمنہ کی گاڑی دیکھ کر حیران رہ گیا پر اندر اس سے بھی بڑی حیرت اس کی اسکی منتظر تھی یمنہ اس کی نابینا والدہ کو قرآن کی تفسير سنا رہی تھی دونوں خواتین حضرت سليمان علیہ السلام کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں ۔اس کی سادہ لوح ماں اپنا سادہ سا گاوں کی کچی مسجد جیسا علم اس کے ساتھ بانٹ رہی تھی اور یمنہ اپنا سائنس اور فکشن سے بھرپور گیان اس کی بےبے کو دے رہی تھی ،”آپ کو پتا ہے میرا دل چاہتا ہے اگر اللّه میاں میری ایک خواہش قبول کریں تو میں حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملنا چاہوں گی ان کے زمانے میں جا کے ان کی سلطنت کو دیکھنا چاہوں گی “۔ اس کی معصوم خواہش پر بختاور بولی ،”نا نا !نا میری دھی ایسے نہیں سوچتے اللّه سوہنے نے کتنے پیارے نبی صلی اللّه علیہ وسلم کی امت بنایا ہے ہمیں اور ہم کیسے کسی اور نبی کی خواہش کر سکتے ہیں مولوی صاب نے ایسی ویسی باتیں سوچنے سے منع کیا ہے ،پھر سوچو ہم جن چڑیلیں دیکھنے جایں ؟وہ تو یہاں بھی بڑی مل جایں گی وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے پھر “۔

“ہاں ماں جی یہ تو صحیح بات ہے ویسے چڑیلیں تو ہر جگہ مل سکتی ہیں اور اب تو موٹر کار بھی چلا لیتی ہے “۔احد نے اندر آتے ہنستے ہوے لقمہ دیا ۔

“ارے آ گیا میرا پتر !ماں صدقے دیکھ ذرا میرے سوہنے رب نے کیسی رونق لگا دی ہے میرے گھر میں ورنہ تو جاتا تھا تو دل اداس ہو جاتا تھا پر اب یمنہ آ جاتی ہے تو میرا بھی دل لگ جاتا ہے “۔ احد کو ماں کی باتیں سن کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔اپنی تعریف سن کر یمنہ کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا اور وہ جلدی سے جانے کو اٹھی ۔”ارے میں آیا اور آپ چل دیں رکیں ذرا ایک کپ چاے ہو جائے “۔ پر وہ بابا کے واپس آنے کا بہانہ کر کے چل دی ۔

اس کے جاتے ہی بختاور نے یمنہ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیے ۔بختاور کی زبانی اسے پتا چلا کہ اس کے جانے کے بعد یمنہ اسے ملنے گھر آئی تھی پر احد کے جانے کا سن کر بختاور کے پاس بیٹھ گئی ،اور اپنا تعارف کروایا باتوں باتوں میں دونوں کی خوب جمی ۔بختاور اسے اپنے ماضی کے قصے سناتی اور وہ اسے حال اور مستقبل کی کہانیاں سناتی ۔کالج سے چھٹیوں کی اور احد کی غیر موجودگی کی وجہ سے یمنہ صبح سے شام تک بختاور کے ساتھ رہتی کبھی دونوں لارنس گارڈن چلی جاتیں ۔احد نے اپنی ماں کے اندر زندگی کی اس رمق کو بڑی شدت سے محسوس کیا ۔اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کہ ،”وائی زيڈ”،میں بہت کچھ خاص تھا ،اس سے ملنے سے پتا چلتا تھا جیسے کوئی حصار اسے گھیرے ہوے ہے اور جب آپ جدا بھی ہو جایں تب وہ حصار آپ کو بھی گھیر لیتا ہے ۔وہ انہی سوچوں میں گم کھانا کھاتے مسلسل مسکرا رہا تھا تبھی بختاور بولی ،”بول نا کیا خیال ہے تیرا ؟اچھی ہے نا ؟کاش تیری منگنی شریں سے نہ ہوئی ہوتی تو میں اس بچی کا ہاتھ مانگ لیتی تیرے لئے “۔ 

احد کی مسکراہٹ کو بریک لگ گئی گویا ۔،”کیا بےبے تو بھی کیا کیا سوچتی رہتی ہے ،ویسے اگر تو کہے تو مجھے کوئی اعترض نہیں دونوں سے کر لیتا ہوں “۔ 

بختاور نے حیرانی سے بیٹے کی خواہش سنی ،”حد ہے کاکا !تو وی كملا ہو گیا ہے ۔خبردار جو ایسا سوچا بھی ۔دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے “۔

“میری بھولی ماں تبھی تو کہہ رہا ہوں گھر میں زمین اور آسمان دونوں ایک ایک کمرے کے فرق سے موجود رہیں گی ،تیرا دل بھی لگا رہے گا “۔ احد شرارت سے قہقہہ لگا کر ہنس دیا پر ماں کی شکل دیکھ کر بولا ،”ارے میں تو مذاق کر رہا ہوں بےبے “۔ تب کہیں جا کے بختاور کی جان میں جان آئی ۔

“اچھا سن !میں سوچ رہی تھی اب تو تو افسر لگ گیا ہے تو تو کیوں نہیں کسی وڈے افسر سے بات کرتا کہ ہمیں ہمارے حصے کی زمین دلوا دیں ۔دیکھ نا پتر اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے سرکاری تو میٹھا گڑ ہے کتنا بھی کھا لو منہ میں گھل کے ختم ۔گھر بن جائے تو میں بھی ذرا ٹور سے شادی کی تاریخ مانگنے جاؤں ملک صب سے “۔

احد سے سنجیدگی سے ماں کی بات سنی ،”دیکھ اماں تو فکر نہ کر زمین کا کام تو ہو جائے گا پر تو فلحال میری شادی بھول جا اور ملک صب کے گھر کا راستہ بھی ۔میں تجھے بتانے ہی والا تھا کہ میں نے منگنی ختم کر دی ہے ۔بس اس سے زیادہ مجھے کچھ نہ پوچھنا “۔ 

احد ہاتھ دھونے اٹھ گیا تو بختاور کو سمجھ نہیں آیا کہ اس خبر پر اسے غمزدہ ہونا چاہیے یا خوش ؟اور پھر اس نے خوش ہونے کا فیصلہ کیا ۔اس کا وجود بھی ،یمنہ ضمیر کے جادوئی حصار میں تھا ۔ 

اگلے دن احد دفتر پہنچا تو اس کے پی اے نے بتایا کہ پٹواری صبح سے آ کے بیٹھا ہے کہتا ہے جسٹس ضمیر صاحب نے بھیجا ہے ۔

اف یہ میری اماں بھی نا پتا نہیں مجھے کوئی چپڑاسی سمجھتی ہے جو ادھر ادھر لوگوں کو سفارش کرتی پھرتی ہے ۔جانے کیا کیا کہا ہو گا یمنہ کو انہوں نے، جو ایم ضمیر صاحب نے پٹواری کو اس کے دفتر بھیج دیا ۔

پٹواری آتے ہی جی حضوری کرنا شروع ہو گیا ،”مائی باپ ہیں آپ ،جب چاہیں مجھے بلوا سکتے ہیں جسٹس صاحب نے آپ سے ملنے کو کہا تھا مجھے ایک عرصہ ان سے تعلق رہا ہے پر آپ کی تو رعیت میں آتے ہیں ہم ۔کسی تیسرے کی کیا ضرورت پھر ۔بس آپ حکم کریں سر “۔

احد نے بیزاری سے اس کی تقریر سنی ،”ہاں میں نے ان سے ذکر کیا تھا تبھی انہوں نے خود تمہیں کہلوا بھیجا ہو گا ۔میں ذرا مصروف تھا ورنہ خود بلوا لیتا تمہیں “۔ 

احد نے ساری تفصیل اور پرانے کاغذات پٹواری کے حوالے کئے ۔

اور شام کو اس کے دفتر میں اسے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ ان کو تو مکان اور زمین اس کے والد کی وفات کے فورا بعد ہی آلاٹ ہو گئی تھی پر وہ تب سے کسی اور کے قبضہ میں ہے ۔

اپنے تمام تر پروٹوکول اور پٹواری کے ساتھ وہ اندرون لاہور سے ملحقہ علاقے میں اس مکان تک پہنچا یہ کوئی پرانی حویلی تھی جس کے ہر کمرے میں دس سے بارہ افراد پر مشتمل خاندان آباد تھا ۔اندھیرے سيلن زدہ کمرے اپنے مکینوں کی طرح باس مار رہے تھے ۔کمرے کے اندر کمرہ گویا کوئی تہہ در تہہ سرنگ ۔کمروں کے باہر کھلی نالیاں اور ان پر بیٹھے ننگ دھڑنگ میلے کچیلے بچے ۔اس سے زیادہ دیکھنے کی تاب نہیں تھی اس میں اس نے شکر کیا کہ اس کی ماں کی بینائی جا چکی ہے اور وہ یہ منظر دیکھنے سے محفوظ رہی ۔

حویلی کے نقلی مالک نے اپنی ضرورت کے پیش نظر حویلی کا بیشتر حصہ کمرا ،کمرا کر کے بیچ دیا تھا اور کچھ حصہ اب بھی کرایہ پر تھا ۔ایک افسر کو اپنے درمیان پا کر اور معاملے کی سنگينی کو محسوس کرتے ہوے ایک رش لگ چکا تھا سب کی ترستی ،مجبور آنکھیں بے چینی سے منتظر تھیں کہ دیکھیں کیا فرمان جاری ہوتا ہے ۔احد کو ایک لمحے کے لئے لگا کہ وہ کوئی جج ہے اور اتنے بہت سے انسانوں کو یہاں سے بیدخل کرنے کا حکم دے کر گویا ان کے سزائے موت کے فرمان پر دستخط کرنے والا ہے ۔

پر وہ خاموشی سے واپس پلٹ آیا اور پٹواری کو حکم دیا کہ جس جس کے پاس مالکانہ حقوق ہیں انہیں پکے کاغذ بنوا دیے جایں تاکہ کل کو کوئی انہیں یہاں سے بیدخل نہ کر سکے ۔ایک بھوکا ہی دوسرے فاقہ زدہ کا دکھ سمجھ سکتا ہے ۔

اس کے سینئیر کو پتا چلا تو اس نے احد کو شہر سے باہر اسی مالیت کی زمین آلاٹ کروا دی ۔احد کے لئے وہ زیادہ خوشی کی بات تھی ۔اب وہ جب چاہتا جیسے چاہتا اپنی ماں کے لئے گھر بنا سکتا تھا ۔

بختاور کی تو مانو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔پر تبھی احد کو اپنے بھائیوں اور بہن کا خیال آیا ۔آج نہیں تو کل اسے انہیں حصہ دینا ہی تھا ۔وہ خود حافظ قرآن تھا اللّه کے حکم کے خلاف کیسے جا سکتا تھا ۔اس نے اپنے دونوں بھائیوں کو اپنے دفتر بلا بھیجا تاکہ ان کی راے جان سکے ۔حصے کا سنتے ہی دونوں بھائی دوڑے چلے آے پر دونوں نے زمین کے بدلے پیسے کی ڈیمانڈ رکھی ۔شازی کو بھی پیغام بھجوایا پر اس نے اپنا حصہ لینے سے انکار کر دیا ۔پر احد نے اسے زبردستی قائل کر ہی لیا کہ اسے بھی زمین کے بدلے پیسہ ملے گا ۔

صرف زاہد نے اس پر بے اعتباری کی حد کر دی اس کا کہنا تھا کہ اسے فوری پیسہ چاہیے جبکہ احد انہیں بتا چکا تھا کہ وہ فوری پیسے نہیں دے سکتا اس نے ماں کو کچھ مہینوں میں حج کروانے لے کر جانا ہے ۔پر زاہد نے اس قدر تماشا لگایا کہ دکھی دل کے ساتھ حج کے لئے تمام تر جمع شدہ رقم اسے زاہد کو حصے کی مد میں دینی پڑی۔

بختاور شدید صدمے کی کیفیت میں تھی ایسے جیسے کسی نے اس کی زندگی بھر کی متاع لوٹ لی ہو ۔دل شدید غمزدہ تھا پر اس نے منہ سے ایک لفظ نہ کہا ۔احد ماں کی حالت دیکھ کر بے بسی سے پیچ و تاب کھاتا رہا۔اس کی عقل حیران تھی کہ اس کے بھائی کیسے اتنے سنگدل ہو سکتے ہیں جنہیں اپنی ماں کی کوئی قربانی یاد ہی نہیں ۔کیا کوئی اتنا احسان فراموش بھی ہو سکتا ہے بھلا ۔

جاری ہے……..

از قلم ،”عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button