سوال……………جیا
سوال اس معتبر ہستی کے نام جن کے نام یہ گروپ ہے۔۔ تحریر پرانی ہے۔۔ سوال کے عنوان سے لکھی گئی تھی۔۔۔ بیماری کے دنوں میں 26 اگست 2016 کی رات اسے کبھی نا بھولی۔۔۔ وہ بہت سوالی تھی۔۔۔ خالی کمرے کے خالی فضا میں خالی نظروں سے خالی ذہن وہ سوال کے س، و ، ا ، ل، میں گم تھی۔۔۔ حتی کہ وہ خالی کمرا بھی سوالی بن گیا۔۔۔ وہ خالی فضا بھی سوالی بن بیٹھی۔۔ سوالی نظریں اس کی خام خیالی کو مزید سوالی بناتی رہیں۔۔۔ اس کے من میں سوالوں کا سمندر امڈ آیا۔۔۔ سوال بذات خود کیا ہے۔۔۔ سوال خود بھی تو ایک سوال ہے۔۔۔ سوال ہم کو کب کہاں کیسے سجھائی دیتا ہے۔۔۔ کیا سب ہی سوال کر سکتے ہیں۔۔۔ کیا سوال کرنے کے لیے خاص زبان کا انتخاب کرنا چاہیے۔۔۔ سوال بھی اک فن ہے ہنر ہے کیا۔۔۔ کیا جس کو یہ فن حاصل نہیں وہ سوال ہی نا کرئے۔۔۔۔ کیا تجسس بھی ایک سوال ہے۔۔۔ یا سوال ہی تجسس ہے۔۔۔ سوال اندر سوال۔۔۔ جتنا گہرا ٹٹولنے کی کوشش کریں گے اتنا سوال میں ڈوبتے جائیں گے ۔۔۔ سوال کرئے بھی تو کس سے کرئے۔۔۔ کیا سوال ہی بے سکونی کی وجہ ہے۔۔۔ کیا سوال ہو تو جواب پھوٹتا ہے۔۔ یا جواب ہو تو سوال ابھرتا ہے۔۔۔ کیا جواب کی مٹی زرخیز ہو تو سوال کا بیج پھل دیتا ہے۔۔ یا جہاں جواب کی مٹی زرخیز ہو وہاں سوال کا بیج بویا جائے۔۔۔ آخر کہاں سے تلاش کریں یہ زرخیز زمین جواب کی کہ سوال کی مراد بھر آئے۔۔۔۔اس کا ایک ایک سیل سوالی بن گیا ۔۔۔ پھر وہ اس خالی کمرے کی خالی فضاؤں کو چیخ کر کہنے لگی کہ ہاں میں ایک خالی برتن کی طرح خالی ہوں “ہاں میں ایک سوالی ہوں” جیا