جاوید چودھری کی زبانی
ممتا ز مفتی ہمالیہ ہے۔
اس سے دور رہنے والا سُکھی ،نہ قریب رہنے والا خوش،جودور ہے وہ ہر وقت”روزے دی جالی چم لین دے“کا ورد کررہا ہے اور قریب رہنے والا”یا اللہ بچا“کی تسبیح کر رہا ہے لیکن وہ ہمالیہ کی طرح استادہ ہے خاموش باوقار سیدھا۔نہ دوری کا غم نہ قربت کا اندیشہ جو قریب ہے اس سے لا تعلق اور جو دور ہے آس لگائے بیٹھا ہے اس سے نا آشناکوئی آجائے آجائے کوئی اُٹھ کر چلا جائے چلا جائے،آنے والے کا سواگت کرے گانہ جانے والے کوروکے گا۔اس کے سامنے چائے کاایک کپ دھرا ہے چُپ چاپ اُٹھ کر پی جائے گااور سامنے بیٹھے شخص کو جھوٹے منہ تک سے نہیں پوچھے گا۔سگریٹ کی طلب ہوئی تو پیکٹ سے سگریٹ نکال کر لگائے گااور مزے سے ناک منہ سے دھواں اگلنے لگے گا پر مجال ہے،جو دوسرے کوسگریٹ پیش کر دے۔پوچھیں تو آنکھ مار کر کہے گامیں منہ پھٹ ہوں اور منہ پھٹ لوگوں کو پسند کرتا ہوں،جسے طلب ہے وہ کہے چائے ہوئی تو پیش کردوں گا نہ ہوئی توافسوس میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کروں گااور کہنے والاکھسیانی ہنسی ہنس کرخاموش ہو جاتاہے کیونکہ ممتاز مفتی ہمالیہ جو ہوا۔
جو ممتاز مفتی کو پڑھتا ہے وہ کہتا ہے مفتی یہ ہے لیکن جو ملتا ہے وہ کہتا ہے نہیں ممتاز مفتی وہ نہیں یہ ہے۔ یہی سوال جب اس سے پوچھا جاتا ہے تو وہ مزے سے کہتا ہے صاحبو نہیں میں نہ وہ ہوں اور نہ یہ بلکہ میں دھوکہ ہوں۔ جب میں ایلی ہوتا ہوں تو اس وقت میرے اندر ممتاز مفتی قہقہے لگا رہا ہوتا ہے جب ممتاز مفتی بن کر تخت پر بیٹھتا ہوں تومیرے اندرایلی بغلیں بجا رہا ہوتا ہے جب میں ممتاز ہوتا تومیں اس وقت ممتاز نہیں ایلی ہوتا ہوں اور جس وقت ایلی ہوتا ہوںاسوقت ایلی نہیںممتاز ہوتا ہوں۔حیرت اب کیا کہیے کیا سمجھئے یہ ڈور ہے یاالجھاوسمجھنے لگیں تو الجھ جاتے ہیں۔ الجھنے لگیں توسمجھ جاتے ہیں اکثر ایسا بھی ہواکہ کوئی ممتاز مفتی سے ملنے گیا اور اس کا پالاممتاز مفتی سے پڑگیا اب بھگتو،جب ممتاز مفتی بول رہا ہوتو ایمان کی دستارپر ہاتھ رکھ کربیٹھنا پڑتا ہے کیونکہ وہ کہتاہے۔”اللہ تعالیٰ بچہ ہے لاکھ گناہ کرو شرک کروحکم عدولی کروجب احساس ہوجائے سر جھکا کر کھڑے ہو جاووہ فوراََ خوش ہوجائے گا“ اللہ تعالیٰ سے بچ کر رہواگر اسے تمہاری کوئی ادا پسند آگئی تو جھپا ڈال لے گا پھر گھر کے رہو گے نہ گھاٹ کے“ اور ہنس کر کہتا ہے”اللہ تعالیٰ تو ہر وقت میرے ساتھ ہے۔میرے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے چلتا پھرتا ہے میں تو اس سے تنگ آیا بیٹھا ہوں۔“ یہ سب کچھ ممتاز مفتی بغیر ڈرے جھجکے رُکے کہہ جاتا ہے،اور کیوں ڈرے؟کس سے جھجکے؟کہاں رکے؟کیونکہ وہ ہمالیہ جو ہوااور ایلی، اس کے سامنے بیٹھنے سے پہلے ہزارہزار مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔روایت کہتی اخلاق بچاو۔اخلاق کہتا ہے میری خیر ہے۔ عقل بچاوعقل قہقہہ لگا کر کہتی ہے مجھے چھوڑوذرا دل کو سنبھالواور جب ایلی بولتا ہے توبولتا ہی چلا جاتا ہے۔کہتا ہے یورپ کی عورت نے ننگا ہوکر حسن کھو دیا،کہتا ہے گورے سوچ رہے ہیں نسل کیسے بڑھے گی کیونکہ مردوں کو عورتوں میں کشش ہی محسوس نہیں ہو رہی۔ممتاز مفتی دانشوروں میں خوش رہتا ہے اور ایلی لڑکے بالوں میں خوب پھلتا پھولتا ہے لیکن اس سے پوچھیں تو وہ کہتا ہے نہیں میں تو دھوکہ ہوں دانشوروں میں ایلی ہوتا ہوں اور نوجوانوں میںممتاز مفتی اب کیا کہئے چپ ہی رہئے ہم اسے قائل تو نہیں کر سکتے منا نہیں سکتے کیونکہ یہ ہمالیہ جو ہوا۔
ممتاز مفتی جسے ناپسند کرتا ہے اس کے سامنے سراپا عجز بن جاتا ہے دشمن کو پیار سے بلائے گا مسند پر بیٹھا کر اس کے سر پرہاتھ پھیرے گا کنگھی پٹی کر کے اس کی آنکھوں میں سرمہ لگائے گاپھر ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہوجائے گااور کہے گا مہاراج سارے جہاں میں آپ ہی ہیں آپ کا یہ داس آپ کے سامنے کیا ہے،ہاتھی کے سامنے چیونٹی اور جب دشمن کا سینہ غرور سے پھول جائے گاگردن فخر سے تن جائے گی تو مفتی کو ایک عجیب تسکین محسوس ہوگی جو صرف مفتی کو محسوس ہوسکتی ہے کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں لیکن جب مفتی کسی سے متاثر ہوتا ہے تو اس کے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اسے خوب ڈانٹے گابھری محفل میں اس کی بے عزتی کرے گا نکتہ چینی کرے گااور بات بات پربگڑے گااس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ شخص اس سے ناراض ہوجائے۔ بھاگ جائے دور ہو جائے اور ہاں ایک اور بات جس سے جتنا اختلاف ہوگا اسے اتناہی دوست سمجھے گا۔خود کہتا ہے وہ فکری طور پراشفاق احمد اوربشیر کا سخت دشمن ہے لیکن پچھلے چالیس برس سے وہ جب بھی لاہور گیا صرف انہی دونوں کے گھرٹھہرا،پوچھا جائے تو کہے گا میں کسی دوسرے کے پاس ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ہے نہ ٹیڑھی لکیر،پر ہم کیا بگاڑ سکتے ہیںکیونکہ یہ ہمالیہ جو ہوا۔
ممتاز مفتی پچھلے۶۰ برسوں سے لکھ رہا ہے ان ۶۰ برسوں میں اسے پڑھنے والوں کواردو آگئی لیکن وہ آج تک اردو نہ لکھ سکا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے آج تک اردو ادب نہیں پڑھا اسے اردوسرے سے نہیں آتی۔ وہ صبح بیدارہونے سے رات سونے تک پنجابی بولتا ہے انگریزی ادب پڑھنے کی وجہ سے ہمیشہ انگریزی میں سوچتا ہے لیکن جب لکھنے بیٹھتا ہے تو سوچ ایک اجنبی زبان میں ترجمہ ہوکرکاغذ کا حصہ بن جاتی ہے۔
جو اس کی اپنی ایجاد کردہ ہے وہ زبان کیا ہے اسے صرف ممتاز مفتی کے چاہنے والے جانتے ہیں کیونکہ وہ چاہت سادگی ابلاغ اور احساس کی زبان ہے۔مفتی نے ہمیشہ کہنے کے لئے نہیں پہچاننے کے لئے لکھا چنانچہ اس کا ایک ایک لفظ وہاں پہنچ گیا جہاں اسے پہنچنا چاہئے تھا اس نے کبھی لکھ کر نہیں کاٹا کیونکہ اس کا خیا ل ہے کہ اس سے بات کا فطری پن مجروح ہوتا ہے،بات وہ نہیں رہتی جو اسے ہونا چاہئے اس لئے ممتاز مفتی کہتا ہے اس نے ادیب بننے کے لئے اپنے لئے لکھا لہذا جو پڑھے اس کا بھلا جو نہ پڑھے اس کا بھی بھلا۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ ممتاز مفتی کہنے سے قبل اس پر کچھ پڑھ کر پھونکتا ہے اس لئے اس کے فقرے آگ ہوتے ہیں ایسی آگ جو اندر کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور راکھ بھی وہ جس میں ہر لمحہ چنگاریاں سلگتی رہتی ہیں۔ اسے پڑھنے والا یا اس کے قریب رہنے والا وہ نہیں رہتا کچھ اور ہو جاتا ہے میں نے خود کئی لوگوں کو اور ہوتے دیکھا لیکن جب اس سے پوچھا جائے تو وہ آنکھیں میچ کر کہتا ہے”میں بابا نہیں ہوں میں نے اپنے بابے سے کہا تھا مجھے بندر بنا دینا لیکن بابا نہ بنانا۔“مجھے یقین ہے ممتاز مفتی نے اپنے بابے سے یہ ضرور کہا ہوگا کیونکہ اگر یہ شخض اس طرح بات نہ کرتا تو ممتاز مفتی نہ ہوتا کوئی اور ہوتا لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے بابے کی اس درخواست کو حکم الٰہی سمجھا ہو لہذا لوگوں کو ممتاز مفتی میں وہ سب کچھ نظر آتا ہے جو بابوں میں ہوتا ہے یا پھر بابوں میں ہونا چا ہیے تاثیر کی بھیگ برابری کا مزا اور کبھی کبھار کشف کے چھینٹے اس میں سب کچھ ہے۔ لیکن کون ہے جواس سے یہ راز اگلوا سکے کیونکہ ممتاز مفتی ہمالیہ ہے اور ہمالیہ کا کام راز اگلنا نہیں دفن کرنا ہے۔
ممتاز مفتی کا نام ممتاز ہے لہذا اس کی شخصیت سے انوکھا پن نکا ل دیا جائے تو کچھ نہیں بچتا۔اس کی ہر بات نرالی ہے اسے کوئی ابا نہیں کہتا۔بچے تو ایک طرف رہے پوتے اور نواسے تک یار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اسکا کہنا ہے کہ وہ پاکستان بننے سے قبل باپ بن چکا تھا لیکن یہ حرکت جسم کی حد تک محدود رہی کیونکہ وہ آج تک ذہنی طور پر باپ نہ بن سکا اس کا بیٹا جوانی میں اس سے وہ ہر بات ببانگِ دہل کہہ دیتا جو عموماً نوجوان اپنے قریبی راز دار سے کہتے ہیں اور وہ بھی کان میں۔اس حرکت کو بعد میں پیدا ہونے والے بچوں نے خاندانی روایت جانالہذا آج اس کے پوتے اور نواسے اس سے ان”دو طرفہ امور“پر گفتگوکرتے نظر آتے ہیں جن کا کوئی باپ متحمل نہیں ہوسکتا لیکن کیا کیا جائے ممتاز مفتی اپنی عمر کے ہاتھوں مجبور ہے کیونکہ جب یہ ۶۱ سال کا تھا تو اس کا جذباتی ارتقاءرک گیا تھا آج اس سانحہ کو۴ ۷ برس گزر چکے ہیں وہ اپنی جوانی کو اس طرح اٹھائے لئے پھرتاہے جس طرح ہابیل قابیل کو مارنے کے بعد لئے پھرتا تھا۔اس کی محفل میں کسی دور میں جنریشن گیپ مسئلہ نہیں بنا اور ہر دور میں نوجوان اس کے یار رہے آج سے پچاس سال پہلے بھی اور اب بھی۔دوسروں کے بر عکس(جن میں تارڑ سمیت بے شمار لوگ ہیں جو دوسروں کے بچوں کو ”خراب“ کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں)ممتاز مفتی کا پہلا وار ہمیشہ اپنے گھرپر چلا۔ عکسی جب جوان ہوا تو ممتاز مفتی نے اسے فوراََ کر پٹ کر دیااسے سارا دن کراچی کی سڑکوں پر لئے پھرتا فلموں کی ترغیب دیتا شرطیں لگاتا اور ہر فحش بات پر ہاتھ پر ہاتھ مارتا۔جب تک عکسی جوان رہا مفتی اس کا سب سے گہرا اور اچھا یار رہا پھر عکسی میں سنجیدگی آگئی جو عموما ادھیڑ عمر میں آجاتی ہے تو ممتاز مفتی نے ایک سعادت مند برخودار کی طرح اس کا ادب شروع کر دیا۔اس کی موجودگی میں نہ سگریٹ پیتا اور نہ اونچی آواز میں بات کرتا۔ ” چُپ بابا سو رہے ہیں۔“ ممتاز مفتی ہونٹوں پر انگلی رکھ کر پوتوں کو سمجھاتا۔
ان دنوں ممتاز مفتی بہت اُداس رہتا تھا اسے رہنا بھی چاہئے تھا کیونکہ وہ کون جوان ہے،جو ایسے بزرگ کے ساتھ ایک گھر میں سہولت کے ساتھ رہ لے جو ۰۵ برس قبل اس کا بیٹا اور۳ سال پہلے دوست تھا۔یہ اداسی فراریت بنی اور ممتاز مفتی گھر سے باغی ہوگیا ان دنوں اس نے اداس نوجوانوں کی طرح دو ایک معاشقے بھی کئے جو روایتی بندشوں کے باعث ناکام ہوگئے۔چنانچہ مجبوراََ صبح کا بھولا شام کو واپس آگیا لیکن گھر میں اس کے لئے سر پرائز تھا۔ اس دوران اس کے پوتے جوان ہو چکے تھے۔ممتاز مفتی اپنے ہم عمر دیکھ کر کھلِ اُٹھا۔اب وہ خوش ہے،محفلیں سجتی ہیں،باتیں بنتی ہیں اور قہقہے لگتے ہیں لیکن جب یہ نوجوان اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو ممتاز مفتی اچانک خاموش ہو جاتا ہے۔مجھے پتہ ہے یہ خاموشی دانشور ممتاز مفتی کی خاموشی نہیں ایلی کی چپ ہے اور اس وقت ایسی ترکیب سوچ رہا ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ ان نوجوانوں کی ”فریز “ کر سکے یہ بڑے نہ ہو سکیں۔ یہیں رک جائیں ،ان کے چہر ے پر شرارت ٹھہر جائے اور ان کے بالوں میں کبھی متانت کا سفید بال نظر نہ آئے کیونکہ اسے خدشہ ہے اگر ایسا ہوگیا تو اس کے گھر میں دو تین بزرگوں کا اضافہ ہو جائے گا جس کے بعد اس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی اسے بیک وقت چار چار بوڑھوں کو سنبھالنا پڑے گا۔سب کا خیا ل رکھنا پڑے گا۔ادب کی وجہ سے کسی کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکے گا اور یہ سب کچھ نوجوانوں کے بس کی بات نہیں اور نوجوان بھی وہ وہ جس کی عمر ۹۰ سال ہو اور خواہ وہ ہمالیہ ہی کیوں نہ ہو۔
meri sari awara mizajion , nadar pan , batmeezion or ajeeb o agreeb zehni istarahon ka zumedarr mumtaz mufti ha , lakin is k sab gunah maaf kun k meri ALLAH sy muhabt b sirf isi shaks k marhon e minat ha,,,,,,.