علی پور کا ایلی 1961ء میں پہلی بار ایک ناول کی حیثیت سے شائع ہوئی اور آدم جی ادبی ایوارڈ کے حوالے سے اسے کافی شہرت حاصل ہوئی۔ بقول ابن انشا یہ کتاب اس لئے مشہور ہوئی کہ اسے آدم جی ایوارڈ نہ مل سکا لیکن اس کے باوجود اسے ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور ممتاز مفتی کی ادبی حیثیت پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہو گئی۔
اس داستان کے بیشتر واقعات اور مرکزی کردار حقیقت پر مبنی ہیں۔ باقی کردار حقیقت اور افسانے کی آمیزیش ہیں۔
تبصرہ : ہاروں حمید
علی پور کا ایلی پڑھنی شروع کرو تو لگتا ہے کہ بہت بور کتاب ہے۔ آگے پڑھتے جاؤ تو تھوڑی اچھی لگنی شروع ہوتی ہے۔ اور جیسے تیسے کر کہ دل پر پتھر رکھ کر تین چار دن میں ختم کرو تو لگتا ہے چلو جان چھوٹی۔ لیکن تھوڑے ٹائم کے بعد مفتی صاحب کی باتیں گھڑکی کی ٹِک ٹِک کی طرح آپ کے دل و دماغ پر دستک دیتی محسوس ہوتی ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ کچھ تھا اس کتاب میں جیسے کوئی دوائی تھوڑی دیر بعد اثر کرتی ہے اور انسان اپنی سدھ بدھ کھو دیتا ہے۔ یہ کتاب مجبور کر دینی ہے کہ اسے دوبارہ پڑھا جائے اور پھر تو قاری جیسے مفتی صاحب کے ساتھ شب و روز گزارنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر مفتی صاحب کا قلم اسکی کی آنکھیں بن جاتا ہے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں مگر قاری دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور قاری کا اپنا حال مفتی صاحب کے ماضی میں گُم ہو جاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ مفتی صاحب تالاب میں کنکر پھنیک رہے ہیں مگر لہریں اس کے اندر اٹھ رہی ہیں۔ آخر کسی کی زندگی بھرکی آپ بیتی کو کچھ روز میں جھیل لینا کوئی ایسا آسان کام بھی نہیں۔
mae socho ka mara hua phir in sochon mae uljhao phir r is uljhan ki chubhan sy chir chir krti meri shaksiyat…. ab mae ny ye book b parh li kdr jaon ? kuch sawa waqt k sath sath jinl k jawab khulna shuru ho gay thy… ye book prhny k bad sawalo jawab ki takhtee blank ho gae filhal khamoshi hy lekin mjhy maloom hy naiy sawalo ka tufan any laga hain or un k jawab na jany kasi azmaish k bad khuly gy…