ممتاز مفتی نے 1968 ء میں قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ اس سفر کے تقریباً چھ سال بعد 1975ء میں ان کے حج کے سفر کی روداد ایک رپوتاژ کی شکل میں التحریر، لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ اس پہلے یہ روداد قسط وار سیارہ ڈائجسٹ میں چپ چکی تھی۔
لبیک ممتاز مفتی کی سب سے زیادہ تہلکہ خیز اور رجحان ساز کتاب ثابت ہوئی اور اس نے اردو ادب میں ایسی سنسنی کو جنم دیا جس کی باز گشت دیر تک دنیائے ادب کی فضائوں میں گونجتی رہی۔ یہ کتاب ممتاز مفتی کی سب سے زیادہ پڑھے جانے والی کتاب ثابت ہوئی۔ ممتاز مفتی نے اس کتاب کے حقوق عام کر دیئے اوررائلٹی کی مد میں کوئی رقم حاصل کرنے کا حق تلف کر دیا۔
تبصرہ : حمزہ رحمٰن
“لبیک” ایک ادیب کی لکھی ہوئی کتاب نہیں اورنہ ہی ممتاز مفتی کے ذاتی اور مذھبی زندگی کے تجربات کا تذکرہ ہے بلکہ یہ کتاب معاشرے کے مذہبی اور معاشرتی طورپر کمزورلوگوں کے لئے ایک گائیڈ ہے جسے پڑھ کر لوگ عام زندگی میں بالعموم اورعازمین حج و عمرہ بالخصوس ایک خاص قسم کی تربیت سے گزرتے ہیں. اس تربیت کا اثرگھر سے لے کر مکّہ ومدینہ میں حاضری اور پھر واپس گھر تک کے سفر میں محسوس ہوتا ہے۔.
٢٠١٠ میں الله نے مجھے حج کی سعادت بخشی اور میں نے عام عازمین سےبالکل مختلف ماحول میں مناسکِ حج ادا کیے.آج تک یہی کہتا ہوں اگر لبیک نہ پڑھی ہوتی اورقدرت الله شہاب صاحب کا سفر نامہ حج نہ پڑھا ہوتا تو میں بھی صرف رسومات تک خود کو محدود کر لیتا اور حج کے حقیقی مفہوم سے نا آشنا رہتا۔ میں لبیک کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ جیسے ممتاز مفتی کو فوارہ چوک میں مست ملا تھا، لبیک میرے لیے اسی مست کا اوتار ثابت ہوئی ہے۔ عجیب اتفاق تھا کہ تکبیر تشریک میں بار بار ‘لبیک’ کا لفظ آتا تھا اور ادھر مفتی صاحب کی لبیک یاد آجاتی تھی. رب کی وحدانیت کا اقراربالسان ضروری ہوتا ہے اس لیے تکبیر بلند آواز میں کہی جاتی ہے مگر مجھے وہ چہرے اب بھی یاد ہیں جوجہاز میں صرف زبانی اقرار تک ہی محدود محسوس ہوتے تھے، جیسے رب کعبے کی عمارت میں رہائش پزیر ہے اور اسے ملنے کے لئے جاناتھا. ایسامحسوس ہوتا تھا میں کوئی بہت بڑا کام کرنے جا رہا تھامگر مفتی صاحب نے سرگوشی کی، “بالکل غلط، بھائی تم کوئی کارنامہ کرنے نہیں جا رہے بلکہ الله تہمیں اپنے پاس بلا رہا ہے۔.”
لیبک نے ایسی تربیت کی کہ احرام میں کیا اور طواف میں کیا جب بھی الجھن ہوتی تو لبیک ڈھال بن جاتی۔ منیٰ میں چاۓ پیتے ہوئے کپ سے کچھ قطرے احرام پر گر گۓ شیطان نے وار کر دیا کہ جناب آپکا احرام داغدار ہو چکا ہے کفارہ نکالو. لبیک نے کہا جی نہیں یہاں احرام دھونے نہیں بلکہ اپنا من دھونے آۓ ہو.من پر لگے داغ دھل گۓ سمجھو مکمل صفائی ہو گئی۔.
میری راہنمائی کے لیے مفتی صاحب نے خصوصی طور پر حاجی جہانگیر صاحب کی تصاویری البم کا ذکر بھی کیا ہے. مفتی صاحب نے کہا تھا “میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اگر آپ حج یا عمرہ پر جا رہے ہیں تو الله کا واسطے آپنے ساتھ کیمرہ ہ نہ لے جائیے گا”. میرے لئے یہ مشورہ تھا جس پر میں نے عمل کیا۔.
مدینے میں نبئ کریم صلی الله علیہ واآلہ وسلم کے دربار پر حاضری دینے میں بھی لبیک کی راہنمائی. مفتی صاحب نے واضح طور پر گائیڈ کیا ” یا رسول اللهمیں یہاں جنت حاصل کرنے کی خاطر نماز پڑھنے نہیں آیا۔ میں تو اس لیے یہاں نماز پڑھنے آیا ہوں کہ آپ کی دہلیز پہ کھڑا ہوکر آپکو سلام کروں کہ آپکو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کس کا سلام کیوں قبول کیا…..یا حضور صلی الله علیہ واآلہ وسلم آپکی کتنی کرم نوازی ہے کہ مجھ جیسےکا سلام قبول کیا…….یا حضور صلی الله علیہ واآلہ وسلم میری باتوں کا برا نہ مانئے گا میں بے وقوف ہوں جاہل ہوں”۔
میں یہ بات پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ لبیک کی دی ہوئی تربیت حج کمپلیکس اور مراقبوں کی تربیت سے ہزاروں گنا بہتر ہے. جس میں آپکو معلومات کا خزانہ بھی ملتا ہے اور آداب بھی سکھائے جاتے ہیں، مکمل ترتیب بھی موجود ہے اور آپکی روحانی و با طنی طہارت کے گرُبھی ملتے ہیں. میرا یہ مشورہ ہے کہ آپ لبیک کو ضرور پڑھیں یقیناً آپکی زندگی میں وہ تبدیلیاں رونما ہوں گی جو آپکو فوارہ چوک کے مست تک لے جائیں گی۔
میں وی جانڑا ڈھوک رانجھن دی نال میرے کوئی چلے۔
راقم کا تعارف: حمزہ رحمٰن ملک صحافی ہیں اور قومی خبر رساں ادارے اے-پی-پی سے وابسطہ ہیں۔
تبصرہ: وقار احمد
لبیک کی صدا کاںوں میں گونجتے ہی ذہن میں حج بیت اللہ کا تصور ابھرتا ہے- اس سفر کی سعادت حاصل کرنے کا شرف قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ ممتاز مفتی کے حصے میں آیا اور اسی لبیک کی صدا کو اپنی کتاب کا نام دے کر اپنے سفر حج کی تمام رپوتاژ لکھ دی- اس کتاب میں ممتاز مفتی نے اللہ سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار کیا جس کی جھلک ان کے سفر حج میں نمایاں طور پر ملتی ہے- یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گا کہ حج کی اصل روح کیا ہے- ممتاز مفتی کا سفر حج دوسرے عازمین حج کی نسبت قدرے مختلف تھا جنھوں نے باقی عازمین کی طرح اپنا سارا وقت طواف کے دوران دعایئں پڑھنے اور کعبے کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے کے بجائے اللہ کے ساتھ بے تکلف ہوکر لاڈ اور پیار میں گزارا- اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اللہ اور بندے کے درمیان تمام حجابات دور ہو جاتے ہیں اور وہ کہہ اٹھتا ہے۔۔
میں باہو کی جانا مکے
جدوں حج ہوے وچ گھر دے ہو
تبصرہ: نوشین نواز
”اگر آپ اپنے دل میں یہ یقین پیداکر لیں کہ یہ appreciation اللہ کی جانب سے ہے،آپکی تحریر کی وجہ سے نہیں تو مزید برکت پیدا ہوگی لیکن اگر آپ نے سمجھا کہ زورِ قلم کا نتیجہ ہے تو برکت رُک جائے گی۔“
قدرت اللہ شہاب کے ممتاز مفتی کو لبیک کے بارے میں کہے ہوئے یہ الفاظ ہی لبیک کو اتنی پذیرائی دے گئے کہ یہ ممتاز مفتی کی پہچان بن گئے ورنہ سرِعام ایک محبوبہ سے پیار کا یہ اندازتو کسی کو بھی برداشت نہ ہوا تھا ایک بار تو لبیک پر بین بھی لگ گیا مگر چند اہل ِ نظر شخصیات کی بدولت اور خصوصاََاللہ کو مفتی جی کے لاڈ کا یہ انداز اس قدر پسند آیا کہ جس کسی نے بھی اسے پڑھا اور سمجھاعشق اور سر مستی میں ڈوبتا چلا گیا۔
ممتاز مفتی کا اس حد تک سچ لکھ دینا اور اتنی آسانی سے لکھتے چلے جانا ہم جیسوں کے سینے کھولنے میں نہایت ممد و معاون ثابت ہوا۔ایک عام آدمی کے جذبات کو مفتی نے الفاظ کی شکل دے کر اس طرح پیش کیا ہے کہ اسے مکمل پڑھ لینے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی او ر دنیا میں پہنچے ہوئے ہیںایک ایسی دنیا جہاں صرف پیار اور محبت بانٹا جا رہا ہے اور سرِعام تقسیم ہورہا ہے ۔راہ گزرتا ہر فقیر اپنااپنا دامن بھرتا جائے۔
تبصرہ: مریم ایمان
تبصرہ: خاور فرید بلوچ
ایک مفتی کا سفر جو دین کے ٹھیکیداروں کی جانب سے لگاۓ گۓ فتووں کی زد میں آیا۔ اِس سفر نے مفتی جی کو “کفر اور گستاخی” کی حد سے بے حد کر دیا۔ ان فتووں کی بوچھاڑ نے کہیں مجھے بھی بھگو دیا اور سوچا کہ دیکھوں تو سہی کہ ہے کیا اِس سفر میں؟
“نام کا مفتی اور کالے کوٹھے کو جپھے”
آخر اِس بوچھاڑ میں اور اس کی طلب میں شرابور ہو کر میں نے پہلی دفعہ اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے یہ سفر نامہ خریدا اور اِس کو پڑھنے کی جسارت بھی کر ڈالی۔
یوں تو کتاب کا نام لبیک ہے اور لکھا مفتی صاحب نے ہے اس کو، لیکن مفتی جی کی حاضری کہیں نظر نہیں آتی۔ عہد کی حاضری ہے ہی نہیں جہاں دیکھو بس معبود ہی حاضر ہے اپنے بندے کے پاس— بالکل اس کے سامنے !
مذہب کے ٹھیکدار دانتوں میں انگلیاں دباۓ حیران ہیں یہ کیسا بندہ ہے جو اللہ سے بالکل بھی نہیں ڈرتا اور جو دل میں آۓ بول دیتا ہے بغیر کسی ادب اور لحاظ کے۔ اپنے خالق کو انگلی لگاۓ “بیلی” بناۓ جگہ جگہ بنجاروں کی طرح گھما رہا ہے۔ خود تو ڈرتا نہیں اُس “جبار و قھار” سے اور جو ڈرتے ہیں اُن کو بھی ڈرنے سے روکتا ہے اور اللہ سے محبت کرنے اور دوستی لگانے کی تلقین کر رہا ہے۔۔۔ بے تکلف دوستی۔
“کفر” کے فتووں کے پیچھے پتہ نہیں ان نام نہاد علماء کی کیا سوچ کار فرما ہے شاید انہوں نے مفتی جی کی اپنے رب سے بے تکلفی کو اللہ کی شان میں “گستاخی” گردانا ہے۔
لیکن اس بے تکلفی میں چھپی ہوئی اللہ کے لیۓ مفتی جی کی محبت نظر نہیں آئی اُن کو کیونکہ انہوں نے تو ہمیشہ لوگوں کو اللہ سے ڈرنے اور فاصلہ رکھنے کا درس دیا ہے۔ یہ کبھی نہیں بتایا کہ رب جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے تو بندہ بھی جواب میں اُس سے پیار کر سکتا ہے۔۔۔ لیکن نہیں اللہ کو تو صرف وہ لوگ پسند ہیں جو اُس سے ڈرتے اور فاصلہ رکھتے ہیں۔ محبت کرنے والے اُس کے قرب کے خواہش مند اور اُس کو بیلی بنانے والے تو پسند ہی نہیں اللہ کو۔
کاش۔۔۔! یہ عقل کے اندھے لوگوں کو اُس سے عشق کرنے کی ترغیب دیتے اور بتاتے کہ اللہ کتنا “غفور و رحیم” اور “کریم” ہے کہ ساری عمر گناہوں میں گزارنے والے کو بھی صرف ایک بار سچے دل سے توبہ اور ندامت کے صرف ایک آنسو کے بدلے میں معاف کر دیتا ہے۔ وہ تو بس بخشنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے کوئی معافی اور بخشش کا خواستگار تو ہو۔
لبیک نے مذہب اور اللہ سے تعلق اور محبت کو سمجھنے کے لیۓ ایک نئی جہت سے متعارف کروایا جہاں صرف محبت ہی محبت ہے پیار ہی پیار ہے اللہ سے اور اللہ کی مخلوق سے۔ محبت اور پیار صرف محبت اور پیار!
Good efforts. Much appreciated. Labbaik should be a part of brochures distributed for Manasak e Hajj.
No words for this book.
Bht hi zbardast…. Aik se brh kr aik…. Masha Allah
Bht hi zbardast…. Aik se brh kr aik…. Masha Allah
میرے لیے یہ بات قابلِ فخر ہے کہ مجھے ممتاز مفتی کی شھرہ آفاق تصنیف پر لکھنے کا موقع دیا گیا.آفیشلز کا شکریہ. کاش مجھے مزید جگہ فراھم کی جاتی تو بہت کچھ اور بھی لکھتا.
حمزہ رحمٰن
mistake in 1st line of Khawar’s writing….. لگاۓ گے
السلام علیکم سب دوستوں نے بہت اچھی باتیں لکھیں میری تو بس سب کے لیے یہی دعا ہے کہ اللہ سوہنا ہم کو مفتی صاحب کی بک پہ تبصرہ لکھ کے اپنے ۤپ کو مفتی سمجھنے کی بجائے مفتی صاحب والی کیفیت عطا فرمائے ۤآمین
لسلام علیکم سب دوستوں نے بہت اچھی باتیں لکھیں میری تو بس سب کے لیے یہی دعا ہے کہ اللہ سوہنا ہم کو مفتی صاحب کی بک پہ تبصرہ لکھ کے اپنے ۤپ کو مفتی سمجھنے کی بجائے مفتی صاحب والی کیفیت عطا فرمائے ۤآمین