Samay Ka Bandhan

ایک ہاتھ کی تالی ۔ سمے کا بندھن

ایک ہاتھ کی تالی

چلتے چلتے میں رُک گیاہائیں یہ کیا ؟

میرے سامنے چھوٹی چار دیواری کے درمیان ایک درخت کھڑا تحا جس کی شاخیں ایک جانب کیکر کی تھیں اور دوسری جانب بیری کی۔

میں نے حیرت سے اس کا جائزہ لیا۔بظاہر تنا ایک ہی تھا۔ قریب سے دیکھنے کے لیے میں چار دیواری کے اندر داخل ہو گیا۔

چار دیواری کے اندر کھلی زمین تھی جس میں دو پختہ قبریں بنی ہوئی تھیں ۔ دونوں قبروں کے درمیان میں وہ درخت ایستادہ تھا۔ میں نے درخت کے ارد گرد گھوم پھیر کے دیکھا ۔ وہ ایک ہی درخت تھا لیکن اوپر دائیں ہاتھ کی ٹہنیاں کیکر کی  تھیں اور بائیں ہاتھ کی بیری کی ۔ کیکر کی ٹہنیوں پر جا جبا زرد رنگ کی ٹلیاں بندھی ہوئی تھیں اور بیری کی ٹہنیوں پر لال رنگ کی۔ میں حیرے سے بت بنا اُسے دیکھتا رہا۔

دفتعہ چار دیواری کے قریب حرکت سی ہوئی۔ میں چونکا۔ دیکھا ایک بوڑھی ضعیف عورت گٹھڑی بنی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی ہے۔ مجھے متوجہ دیکھ کر وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی کیا دیکھ رہا ہے تو؟

میں نے کہا مائی جی اس درخت کو دیکھ رھا ہوں۔ عجب درخت ہے یہ ۔ آدھا کیکر آدھا بیری۔

بڑھیا مسکرائی بولی یہ ان بابا لوگوں کا مجعزہ ہے ۔

کون بابا لوگ؟ میں نے پوچھا۔

اس نے ہاتھ ہلا کر دونوں قبروں کی طرف اشارہ کیا ۔ لیکن منہ سے کچھ نہ کہا ۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان قبروں کو دیکھتی رہی۔ عین اس وقت ایک عمر رسیدہ آدمی داخل ہوا۔ بولا یہ دائیں ہاتھ والا بابا کمال کا مزار ہے۔ اور بائیں والا بابا جمال کا مزار ہے ۔ یہ دونوں عشق و محبت کے بابے ہیں۔ بابوجی یہاں محبت کے مارے لوگ آتے ہیں منتیں مانتے ہیں۔ ٹہنیوں پر جو ٹلیاں بندھی ہوئی ہیں یہ سب محبت کی منتیں ہیں۔ بابا کمال کے دوار پر عورتیں آتی ہیں اور پیلی ٹلی باندھتی ہیں ۔بابا جمال کی خدمت میں مرد آتے ہیں اور لال ٹلی باندھتے ہیں ۔

مجھے بابوں وابوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی میں منتیں ماننے کو اہمیت دیتا ہوں۔ لیکن وہ آدھا کیکر آدھا بیری کا درخت۔۔۔۔۔۔ میں تحقیق پر مجبور ہو گیا۔۔۔ ورنہ کہانی اب کہی رہ جاتی۔

سردار بائی باہر میں نہیں بھتیت میں جیتی تھی۔ اس کی ہر بات میں رمز ہوتی۔ بھید اُچھلتا ضرور تھا پر ہونٹوں پر نہیں آتا تھا۔ گالوں ہر سرخی بن کر جھلکتا۔ آنکھوں میں پھوار بن کر اُڑتا ۔ لیکن کیا مجال کہ زبان میں حبنش پیدا کرے۔

ایک روز جب چاروں ناچیاں فراغت سے بیٹھی تھیں تُو سردار بائی نے برسبیل تذکرہ کہا لڑکیو ہم یہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں

یہ سن تینوں چونکیں ۔

بنیی کی بنھویں کمان بن گئیں۔ ماتھے پر وہ مخصوص گھوری پڑ گئی جو گھورتی بھی تھی ساتھ پچکارتی بھی۔ بنیی بولی کیا کہا ؟ یہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟

سردار بائی نے سر اثبات میں ہلا فیا ۔

چمکی کی ناک دھاڑ بن گئی۔ آنکھوں میں پھر کی سی چلی ۔ بولی کیوں جا رہے ہیں ہم؟

سردار بائی کی آنکھوں میں تبسم کی پھوار اُڑی لیکن اس نے منہ سے کچھ نہ کہا ۔

مینا چونکی۔ پھر خود کو سنبھال کر بولی کہاں جا رہے ہیں ہم ؟

سردار بائی کی آنکھوں میں پھر سے پھلجھڑی چلی لیکن خاموشی چھائی رہی۔

لڑکیوں کو پتا تھا سردار بائی کی آنکھوں میں پھلجھڑی چلے تُو سمجھ لو کوئی بات ہے۔ ضرور ہے۔ پر وہ بھید ہے ۔ زبان پر نہیں آئے گی ۔ لاکھ پوچھو کر یدو۔ ۔۔ بےکار۔

ایک ہفتے کے بعد جب اُن کو ڈیرہ دور کسی ریاست کے صدر مقام انگولا پہنچا تُ انہیں پتا چلا کہ یہاں قیام ہو گا۔ کہاں کا جواب تُو مل گیا کیوں بھید ہی رھا

نئی رہائش گاہ دیکھہ تُو حیران رہ گئیں ۔ وہ چوبارہ نہیں تھا بنگلہ تھی۔ تھی تُو رقص وسرور کے علاقے میں پر ذرا ہٹ کر ایک طرف۔ بنگلے کے دروازے پر آساوری کی۔نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی۔

چوبارے میں شوونڈو سے نکل کر بنگلے کی چار دیواری میں آ گئیں تُو انہیں وقار مل گیا۔

سٹیٹس حاصل ہو گیا۔ یوں ان کے ڈیرے جی ریاست میں دھوم مچ گئ۔

سردار بائی کے ڈیرے پر تین لڑکیاں تھیں بنیی چمکی اور مینا گُُونا گُوں تھیں ۔

ہر ایک اپنے ہی رنگ کی رنگی تھی۔ چھب اپنی اپنی انداز اپنا اپنا سبھاؤ اپناپنا۔

بنیی جسم ہی جسم تھی بلوری روغنی ریشمی جسم سنہرا روشن تناسب کا نمونہ۔ سارے گھر پر جسم نے قبضہ کر رکھا تھا ۔ بے چاری گھر والی ۔ بنیی باہر دہلیز پر پڑی تھی ۔

مشکل یہ تھی کہ جسم چھپائے سے چھپتا نہی تھا ۔ کپڑوں سے باہر نکل آتا۔ حواس پر چھا جاتا۔ گردو پیش کا سنہرا ریشمی کر دیتا۔ حالانکہ ناچ اور گانے میں بڑی دسترس رکھتی تھی۔ گنی تھی۔ لیکن جسم گُن کی برف متوجہ ہونے نہیں دیتا تھا۔

چمکی چمک کی لہر تھی۔ اتنی تیز تھی ۔ اتنی تُرت پھرت کہ یوں پھر جاتی جیسے خربوزے میں چھری ۔ آنکھوں میں دھار تھی ۔ ہونٹوں پر طنز۔ لیکن دبی دبی ۔ ہاتھ نربت سے بھرے ہوئے تھے۔ پاؤں میں گھنگھر پہنتی تُو وہ حرکت کےبغیر ہی چھن چھن کرتے۔ جسم میں حرکت مقید تھی یوں جیسے بوتل میں جن۔اب نکلا کہ اب نکلا۔ جیسے کمان میں تیر پھنسا ہو۔ اب چھوٹا کہ اب چھوٹا۔

پھر مینا تھی۔ اس کا رنگ ہی کچھ اور تھا بالکل ماروائی جیسے مندر میں جائے نماز بچھی ہو۔شخصیت میں دو عنصر نمایاں تھے۔ ایک طرف گرلیس کا دھارا جل رہا تھا۔ دوسری طرف تمکین کے پہاڑ تنے کھڑے تھے۔

حبنبش میں ربط تھا۔ روانی ایسی کہ کہیں دھوکا نہ لگتا تھا۔ بت اور چت میں کوئی ربط نہ تھا۔ بت بیٹھا رہتا تھا۔ چت کم نہ جانے کہاں منڈلاتا ۔دیکھنے والا ان جانے میں ڈھونڈ میں مبتلا ہو جاتا ۔

سردارب بائی کے انگولا میں آتے ہی ریاست کے امراج اور اہل کاروں کے نوجوان بیٹوں نے ڈیرے کو اپنا لیا۔

نوجوان مل۔کر شامیں مخصوص کرا لیتء۔ راگ رنگ کی محفلیں ہوتیں۔ گفتگو ہوتی۔ ہنسی مذاق ہوتا۔ کھانا پینا ہوتا۔ نہ تُو بدمستی ہوتی نہ ہی تخلیہ۔ سردار بائی نے آنے والوں پر واضح کر رکھا تھا کہ یہاں تفریح ہو گی تماش بینی نہیں ۔ اگر کوئی تخلیے کا خواہش مند ہو تو گھر بُلا لے ۔ ریاست کے نواب رحم اللہ بیگ ویسے تُو ماڈرن خیالات کے حامی تھےوسیع القلب تھے لیکن رکھ رکھاؤ کے شدت سے قائل تھے۔ ذرا سا وقار میں فرق آ جاتا تو ان کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا۔

انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کمال اللہ بیگ پر بار ہا واضح کر رکھا تھا کہ بیٹے جو چاہو کرو ہم پابندی عائد نہیں کرتے ۔ مگر وقارکو کسی صورت ہاتھ سے جانے نہ دینا۔ بیٹے چینی کے برتن میں ایک بار بال آ جائے تُو وہ ہمیشہ اُس کے مضراب ہو جاتا ہے ۔

وقار بھرے ماحول میں تیس سال گزار کر کمال میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہو گیا تھا۔ اس میں جذب کر لینے کی صلاحیت بیدار ہو چکی تھی ۔

کمال کے دوست اُسے بار بار مجبور کرتے تھے چلو بائی کے ڈیرے پر چلیں۔پہلے تُو وہ ٹالتا رہا ۔ لیکن مجبور ہو گیا روپ بدل کر جانے کے لیے تیار ہو گیا اور انہیں تاکید کر دی کہ بھید نہ کھولیں ۔

گیا تُو تفریح کے لیے تھا لیکن مینا کے ماورائی وقار نے پتا نہیں کیا کر دیا۔ دوستوں کے روبر خود کو سنبھالا۔ بڑی مشکل سے محفل میں حاضر رہا۔ اندر سے حاضر نہ تھا ۔

ادھر مینا بھی حاضر نہ تھی ۔ بُت تھا چت نہ تھا۔  اُس کا خیر یہی معمول تھا۔ کمال مینا کی چت کے ڈھونڈ میں کھو گیا ۔ اگلے روز رات کو خواب گاہ میں مینا کا بت پھر سامنے آ کر بیٹھ گیا ۔بول چت کو ڈھونڈ ۔ ساری رات ڈھونڈ میں بیت گئی۔  تین چار راتیں جب یونہی گزار گئیں تُو گھبرا گیا ۔ ایسا تُو کبھی نہ ہوا تھ ۔اگلی باز جب دوستوں کے ساتھ ڈیرے پر گیا تُو ساتھی بنیی اور چمکی میں متوجہ رہے اور کمال کو مینا سے بات کرنے کا موقعہ مل گیا ۔

زیر لب بولا آپ کہاں ہیں ؟

مینا نے چوک کر دیکھا لیکن کچھ نہ بولی

کمال نے کہا ایک لمحے کو یہاں آ جائیے نہ

وہ بولی کہاں آ جاوں ؟

کمال نے کہا  جہاں آپ بیٹھی ہیں ۔

وہ مسکائی بولی میں یہاں ہی تُو ہوں ۔

کمال نے کہا یہاں تُو خالی بت ہے ۔

وہ پھر مسکرائی بولی خالی بُت ہی تو ہوں

کمال نے کہا کتنا اچھا ہوتا خالی بت ہی ہوتیں

کیوں؟اس کی بھویں کمان بن گئیں

وہ بولا اگر اگر صرف بت ہوتیں تو میں ڈھونڈ میں نہ پڑتا

اس کے ہونٹوں پر ادھوری مسکان پھر آ ٹکی وہ بولی سامنے دھری کی ڈھونڈ کیسی ؟

کچھ دیر دونوں خاموش بیٹھے پھر کمال نے زہر لب پوچھا اگر گھر بلاؤں تُو آ جائیں گئیں؟

میں آنے جانے والی کون ہوں۔ بھیجنے والی سے پوچھیے اُس نے سردار بائی کی طرف اشارہ کر دیا ۔

چار ایک دن کے بعد محل سے دور پائی باغ کے دیوان خانے کے سامنے ایک بگھی رکی۔ سیاہ نقاب می ملغوف ایک خاتون نکلی ۔ برآمدے میں نوابزداے کمال منتظر کھڑے تھے ۔

نوابزداہ بولا ہمارا نام کمال ہے ۔

پتا ہے وہ بولی پہلے آپ رئیس زادے تھے اب آپ نوابزداے ہیں ۔

وہ اُسے کمرے مین لے گیا۔ چائے آ گئی وہ بہت دہر تک آمنے سامنے بیٹھے چائے پیتے رہے ۔

پھر وہ بولا ہم نے آپکو اس لیے زحمت دی ہے کیونکہ ہمارے لیے آپ سے دور رہنا مشکل ہو گیا ہے ۔

وہ مسکرائی بولی ہماری خوش قسمتی ہے ۔

اونہوں۔ رسمی باتیں نہ کئجیے وہ بولا بھول جائیے ہم کون ہیں آپ کون ہیں ۔

وہ شرارت سے مسکرائی بولی بھول گئی

وہ اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ بولا آپ کے علم میں نہیں ہم کتنی مشکل میں گرفتار ہیں ۔

کیون خریت؟ وہ بولی

وہ رک کر بولا خاتون ہمیں آپ سے محبت ہو گئی ہے ۔

وہ خاموش بیٹھی رہی نظریں جکھائے اُسکو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا جواب دے کیونکہ محبت کا اظہار اس سے پہلے بھی اس سے بہت سے کر چکے تھے پر نوابزادے کے اظہار کی سُر تال مختلف تھی ۔

آپ سُن رہی ہیں ؟وہ بولا

جی سن رہی ہوں۔

خدارا جواب میں کچھ تو کہیے ۔ وہ بولا

اُس نے سر اٹھایا اور کہنے لگی نوابزداہ صاحب جو خریدی جا سکے اُس سے محبت کیسی ؟

ہمیں بُت نہیں چاہیے وہ بولا

نوابزادہ صاحب چت کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔

سچ کہتی ہو آپ ۔ وہ بولا چت کسی کے بس میں نہیں ہوتا ہم خود بے بس ہو رہے ہیں ۔

بُت سے دل بہلائیے نواب زادہ صاحب بہلاتے رہیے جب تک دل نہیں بھرئے۔

چت کی ڈھونڈ نہ رہے ۔

دیر تک وہ چپ چاپ کھڑا رھا ۔پھر قریب آ کر مینا کا ہاتھ تھام کر بولا ہم نے کو دل بہلانے کے لیے نہیں بلایا ہم آپ کو دل بہلاوا نہیں سمجھتے ۔

اس کے ہاتھ میں عجب سے نگ تھا مدھم گرمی اس کے جسم اندر سرائیت کرتی جا رہی تھی۔اندر

دیر تک وہ خاموش بیٹھی رہی پھر بولی ایک بات پوچھوں ؟

پوچھیے۔

برا تُو نہیں مانے گے ؟

نہیں ۔

آپ کو پتہ ہے محبت کسے کہتے ہیں ؟

اس سوال نے اسے ڈنک مارا دیر تک خود سنبھالتا رہا پھر بولا پتہ نہیں پہلے کبھی ایسی کفیت نہیں ہوئی ۔ آپ کو پتا ہے محبت کسے کہتے ہیں ؟

ھاں پتہ ہے وہ بولی محبت سے جس قدر بائی واقف کوئی اور اتنا واقف نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ بائی ہوس کی بدروکو لت پت ہو کر پاٹ چکی ہوتی ہے ۔ کامنا سے بے زار ہو چکی ہوتی ہے ۔ جسم کے بندھن سے بے نیاز ہو چکی ہوتی ہے ۔

آپ کا مطلب ہے ہماری محبت جسم سے بندھی ہے ۔

پتا نہیں وہ بولی لیکن ظاہر ہے آپ ہوس سے لت پت نہیں ہوئے جسم سےبے نیاز نہیں ہوئے ۔

وہ سوچ میں کھو گیا اور دونوں دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔

پھر وہ بولا ایک بات پوچھوں ؟

وہ مسکرائی نہیں میں برا نہیں مانوں گی پوچھئے ۔

آپ کو کسی سے محبت ہوئی ہے؟

ہاں وہ بولی ہوئی ہے۔ ہے ۔ رہے گی ۔

وہ تڑپ کر اتھ بیٹھا اور بولا میں نے ناحق آپ کو زحمت دی ۔

خدار ناراض نہ ہوں ۔ مجھے آپ سے مل کر بے حد خوشی ہو رہی ہے ۔ آپ پہلے مرد ہیں جو مجھ سے دل کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ پہلے مرد ہیں جس سے میں دل کی بات کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہی ۔ آپ نے مجھے عورت کی حثیت دی ہے ورنہ بائی کو فرد کی حثیت کون دیتا ہے۔

جو بھی ملتا ہے ہوس کی ڈگڈگی بجانا شروع کر دیتا ہے ہوس کی ڈگڈگی پر ناچنا ہی ہمارا دھندا ہے ۔

پھر وہ سوچ میں کھو گیا ۔ دراصل وہ شرمندگی محسوس کر رھا تھا ۔ مینا ایک ساعت کے لیے ہچکچائی پھر بولی آپ ایک بار فیصلہ کر لیں آپکو مجھ سے محبت ہے یا درپردہ آپ یہ چاہتے ہیں میں آپ سے محبت کروں ؟ یعنی توجہ طلبی مقصود ہے ؟

اُسے شدید دھچکا لگا ۔

وہ اپنی دہن میں کہیے گئی ۔میری دانست میں محبت میں کوئی شرط نہیں ہوتی محبت صرف کی جاتی ہے ۔ چاہے دوسرا کرے نہ کرے محبت ایک ھاتھ کی تالی ہے ۔ اس میں نہ شکوے کی گنجائش ہے نہ شکایت کی ۔اس میں نہ وفا کی شرط ہے نہ بے وفائی کا گلہ ۔ پھر وہ رک گئی ٹھنڈی آہ بھری بولی محبت میں لین دین نہیں ہوتا صرف دین دین ہے ۔ ان جانے میں اُس کے منہ سے کراہ سی نکل گئی جیسے دم رک رھا ہو۔

اگلے روز کمال مینا کی باتوں کو سوچتا رہا سوچتا رہا عجیب زوایہ نظر تھا اُس نے کبھی ایسا نہین سوچا تھا ۔اُسکو مینا کی یہ بات کھا رہی تھی کہ آپ کو مجھ سے محبت کے یا میری توجہ کے طالب ہیں ۔

وہ محسوس کر رھا تھا وہ توجہ کا طالب ہے اُسکی محبت صرف دین دین نہیں لین دین ہے ۔

اس سے اُسکو ندامت محسوس ہو رہی تھی ۔ دفعتہ اس کے اندر سے جذبات کا ریلا ابھرا ۔ پھر زیر لب بولا نہیں میری محبت توجہ طلبی میں ملوث نہیں ہو گی ۔کبھی نہیں ۔

شام کو اُس کا دوست جاہ آ گیا ۔ بولا جی چاہتا ہے ایک بار پھر آساوری چلیں۔

نہیں بےکار ہے نواب زادہ بولا

بے کار ہے؟ جاہ چلایا اتنی رنگین محفل ہوتی ہے نشہ آجاتا ہے۔

کہیں تمہارا دل تُو نہیں لگ گیا؟

جاہ ہنسا ۔ اونہوں۔ یہ بائیاں دل لگی کی چیز ہوتی ہیں دل لگانے کی نہیں پھر اُسے دفعتہ یاد آ گیا پتا ہے جمال آیا ہوا ہے ۔

جمال ان کا ساتھی تھا

بڑا رنگین مزاج تھا۔ محفل میں جان ڈال دیتا تھا۔ لیکن طبعیت اوباشی کی طرف مائل تھی۔ کیونکہ تاجر تھا اس لیے ذہین پر تاجرانہ رنگ غالب تھا۔ کمال کو جمال کا کردار پسند نہ تھا ، اگرچہ اُس نے کبھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن دل ہی دل میں جمال کے نام پر ہی دل میں نفرت کی دھار چل جاتی تھی۔

مجھے ملا تھا جاہ نے کہا، آپ سے بڑا متاثر ہے، بڑا احترام کرتا ہے آپکا ۔ دراصل آپکو اپنا آئیڈیل مانتا ہے ۔ پجاری سمجھ لیجیے ۔ اب کی بار آساوری جائیں تُو اُسے بھی ساتھ لے جائیں ۔

ہوں کہہ کر کمال نے بات ٹال دی اور پھر بات کا رخ بدل دیا ۔

اُدھر آساوری میں اُسی روز مینا جب فراغت میں بیٹھی کمال باتیں سوچ رہی تھی ،  تُو سردار بائی آ گئی بولی می نے رات نوابزادے نے کوئی بات کی ؟

کیسی بات؟ مینا نے پوچھا۔

بائی بولی وہ تمہیں تماش بین نہیں دکھتا؟ ضرور کوئی بات کہنے کے لیے تمہیں بلایا ہوگا۔

بس وہی باتیں جو مرد کرتے ہیں مینا نے بائی کو ٹالنا چاہا ۔

سردار بائی مسکرائی، بولی می نے اُس بات کو کیا چھپانا جو ماتھے پر لکھی ہو ۔ بند بند میں ناچ رہی ہو ۔ تُو تو اس بات سے چھلک رہی ہے جو نواب زادے نے تجھ سے رات کو کی تھی ۔

مینا خاموش رہی ۔

بائی بولی مجھے پتہ ہے تو نے اپنے دل کا دوار بند کر رکھا ہے، اس لیے تجھے محبت کا روگ لگا ہے

ہم نے قاسم پور اس لیے ہی چھوڑا تھا می نے کیونکہ تیرا محبوب وھان رہتا تھا اور میں ڈرتی تھی کہ تو کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لے کہ تیرے لیے واپسی ناممکن ہو جائے ۔ اس لیے ہم قاسم پور چھوڑ کر یہاں آئے گئے تھے ۔

مینا نے حیرت سے بائی کی طرف دیکھا اور بولی اچھا تُو نقل مکانی کی یہ وجہ تھی ۔

دیکھ می نے بائی نے کہا تجھے دیکھ کر مجھے اپنی جوانی یاد آتی ہے میں بھی تیری طرح ہی تھی، بے پروا ، بے نیاز، نڈر، مجھے بھی محبت ہو گئی تھی ۔ مجھے پتہ تھا میری محبت ایک ھاتھ کی تالی ہے لیکن پھر بھی میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پاس آ گئی تھی ۔ پتہ ہے می نے اُس نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا اُس نے مجھے دھندے پر لگا دیا اور میرے پیسے سے اپنی محبوبہ کو عیاشی کروانے لگا ۔

سردار بائی، مینا بولی مجھے پتہ ہے میرا بھی یہی انجام ہو گا لیکن میں بہت دور نکل آئی ہوں۔ میں نے واپسی کی کشتیاں جلا دی ہیں مجھے پتہ ہے وہ اباوش ہے ہر جائی ہے ، لیکن سردار بائی عورت جب بھی کرتی ہے ذات سے محبت کرتی ہے صفات سے نہیں ۔

پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے سردار بائی نے لمبی آہ بھری لیکن ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ تقدیر کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے ، کل ہی میں نے تیرے محبوب کو دیکھا ہے۔ پوچھ گچھ کی تُو پتہ چلا وہ اسی شہر کا رہنے والا ہے۔ کیا اتفاق ہے آگ سے بچنے کے لیے بھاگے اور چولہے میں آ گرے ۔

مینا نے تڑپ کر بائی کی طرف دیکھا۔

فکر نہ کر وہ بولی آج نہیں تُو کل تجھ سے ملنے آئے گا ۔۔۔ ڈیرے پر ضرور آئے گا ۔ تیرے لیے نہیں تفریح کے لیے دل لگی کے لیے ۔۔

کمال نے بہت کوشش کی کہ مینا کی محبت سے بے نیاز ہو جائے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا اور جلد گھر بلانے پر مجبور ہو گیا ۔

اُس کے بعد وہ دو چار ملے ۔ جب بھی ملتے کتر کتر باتوں کا ڈھیر لگا دیتے ۔ تھک جاتے تُو تاش کھیلتے ۔ مینا کمال سے شطرنج کھیلنا سیکھتی ۔ بار بار چائے پیتے ، سگریٹ پھونکتے اور پھر باتوں میں لگ جاتے ۔ یوں ہی رات گزر جاتی مینا بار بار کمال سے پوچھتی آپ ڈیرے پر کیوں نہیں آتے ؟ کمال ہنس کر جواب دیتا می نے میں نے تمہاری خاطر سب کچھ چھوڑ دیا ہے ، احساسات، جذبات،خیالات ، اب صرف جھوٹا وقار باقی رہ گیا ہے ۔ وہ تُو مجھ سے نہ چھنیو۔

پھر ایک روز جب وہ دوپہر کے وقت کام میں مصروف تھا اُس کے ملازم الہی بخش نے اُس کو ایک خط کا لفافہ دیا ۔ یہ خط اُن کے ڈیرے سے آیا تھا اور خط میں لکھا تھا۔

میری خاطر ایک کام کیجئے بڑی بائی سے کہہ کر مجھے اپنے پاس بلوائیے آج ہی لیکن بگھی نہ بھجیئے میرا انتظار نہ کیجئے میں آؤں گی نہیں ۔

نیچے نام کی جگہ م لکھا تھا۔

یہ ایک عجیب خط تھا مجھے بلوائیے لیکن میں آؤں گی نہیں دیر تک سوچتا رہا اسکا کیا مطلب ہے ۔ پھر سینے پر چھری سے چل گئی وہ تڑپ کر رہ گیا ۔ نسیں ڈھنکی کی طرح بجنے لگی ۔ اچھا تُو میری محبت کو استعمال کیا جا رھا ہے ۔ میرے پردے میں کسی اور سے ملنے کا پروگرام بنایا جا رھا ہے ۔

اُس کی ذات کے وقار کو بری طرح ٹھیس لگی وہ سارا دن خود کو سمجھاتا رہا یہ ایک ہاتھ کی تالی ہے ٹھیک تُو ہے نہ شکوہ نہ شکایت نہ امید نہ توقع لیکن اندر ایک آگ سُلگتی رہی ۔ایک شعلہ دل کو چاٹتا رہا ۔ جو مزاج یار میں آئے ، کا بھرم ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا ۔ سارا دن وہ سوچتا رہا نہیں نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے ایسا نہیں ہو گا لیکن ایسا ہوتا رہا ایک بے چینی اُسے کھاتی رہی ۔

شام پڑی تُو وہ اور مضطرب ہو گیا ۔ اضطراب اس قدر چھلکنے لگا کہ چھنٹے اڑنے لگے ۔ وہ خوف زدہ ہو گیا کوئی کفیت دیکھ نہ لے اگر ابا حضور نے بلا لیا اگر امی جان آ گئیں تُو؟

اُس نے خود کو چغے میں لپیٹا، سر پر کنپوٹ پہنا اور بڑے سے رین کوٹ میں چھپ چھپا کر باہر نکل گیا ۔ اُسے پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں جا رھا ہے ۔

اُس روز ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی کبھی رک جاتی کبھی چلنے لگتی گلیوں میں کیچڑ رہا تھا ۔کیچڑ اوربارش سے بے نیاز ہو کر وہ چل رہا تھا ، اُس کا احساس وقار بری طرح مجروح ہو رہا تھا ۔ اندر سے وہ زخمی پرندے کی طرح تڑپ رہا تھا۔

گلیاں ویران پڑی تھیں ۔ لوگ سر شام ہی گھروں کے دروازے بند کرکے اندر بیٹھ گئے تھے ۔

دفعتہ وہ رک گیا گلی کے ایک چھجے کے نیچے ایک سیاہ نقاب میں لپٹی خاتون دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھی ۔ اُس نے محسوس کیا جیسے اُس کے کھڑے ہونے کا انداز مانوس سا ہے ۔

کیا میں آپکی کوئی خدمت۔۔۔۔؟

ارے! وہ چلائی آپ ہیں ، آپ ادھر ؟

اُس نے مینا کو پہچان لیا آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں ؟

بارش ہو رہی ہے وہ بولی۔

بارش بند کروا دیں کیا ؟

وہ ہنسی مجھے سامنے والی گلی میں جانا ہے ۔

تُو چلیے میں چھوڑ آؤں ۔

میں پھسل جاؤں گی وہ بولی میرا جوتا خراب ہو جائے گا۔

تُو چلیے میں اٹھا کر چھوڑ آؤں ۔

اُس نے بڑھ کر بازوؤں میں اٹھا لیا ۔

وہ گھبرا بولی لوگ دیکھ کر کیا سمجھیں گے ؟

سمجھیں گے کی خاتون بیمار ہیں معالج کے پاس لے کر جا رہے ہیں ۔

کچھ دیر کے بعد وہ بولی رک جائیے ۔

وہ رک گیا ۔

مینا اُس نے بازوؤں سے پھسل کر کھڑی ہو گئی جھک کر ادب بجا لائی بہت شکریہ خدا حافظ یہ کہہ کر وہ دروازے سے مکان میں داخل ہو گئی ۔

اتفاقا کمال کی نظرمکان میں لگی ہوئی نیم پلیٹ پر پڑی ، صاحبزداہ جمال، اُس کے سینے میں گویا کسی نے خنجر گھونپ دیا وہ لڑکھڑایا ، پھر شرمندگی اور خجالت کے پسینے سے شربوار ہو گیا ، یہ ذلت کی انتہا تھی۔

کوئی اور ہوتا تُو اتنی اذیت نہ ہوتی لیکن جمال اوباش خود غرض مطلب پرست چھوٹا آدمی ۔ اُس کا رہا سہا وقار خجالت کے پسینے میں بہہ گیا ۔ اُس نے محسوس کیا جیسے کسی نے اندھیرے کنویں میں دھکا دے دیا ہو ۔ گردو وپیش معدوم ہو گئے ۔ ایک مٹیالے درد نے اُسے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ پھر اُسے کچھ پتہ نہ رہا نہ سمت رہی نہ رخ نہ مینا رہی ۔

وہ چھوڑ گئے ہی گاڑی میں چھوڑ کر گئے ہیں کیا ؟

نہیں مینا نے جواب دیا گاڑی میں نہیں بانہوں میں اُٹھا کر چھور گئے ہیں ۔

بانہوں میں اُٹھا کر لیکن کون چھوڑ گئے ہیں ؟

نواب زادہ کمال وہ بولی۔

نواب زداہ کمال جمال کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔

نواب زداہ کمال اُسے دھچکا سا لگا تمہیں چھوڑ گئے ہیں میرے گھر بانہوں میں اٹھا کر !نواب زادہ خود! گردوپیش اُس کی نظروں سے دھندلانے لگا ، دھندلاتے گئے نواب زادہ کمال، وہ دیوانہ وار دھرتا گیا میرے گھر پھٹی پھٹی نگاہوں سے وہ مینا کو دیکھتا رہا ۔ اُس کی نگاہوں میں مینا دھندلاتی گئی ۔

دفعتہ ایک جھٹکا سا لگا اور مینا معدوم ہو گئی۔

اُس نے ایک قہقہہ لگایا !نواب زادہ کمال ! منہ سے جھاگ نکلنے لگے ۔ اور وہ دیوانہ وار کمرے سے باہر نکل گیا ۔

انگولا سےرخصت ہوتےوقت میں جب دوبارہ مزاروں پر گیا تُو میری توجہ کا مرکز وہ دو رنگا درخت نہ تھا۔ میری نگاہ دونوں مزاروں پر مرکوز تھی  ،جی چاہتا تھا میں بھی درخت کی ٹہنی سے سرخ ٹلّی باندھ دوں ۔

بوڑھی عورت بدستور چار دیواری سے ٹیک لگائے گٹھڑی بنی اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی، میں دیر تک کھڑا اُسے دیکھتا رھا۔

پھر دفعتہ میرے ذہین میں ایک کرن پھوٹی میں نے مدھم سے آواز میں کہا

می نے ۔

وہ یوں تڑپ کر مڑی جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگی ۔

میں نے کہا مینا، کیا تم ابھی تک ایک ہاتھ کی تالی بجائے جا رہی ہو؟

اس کی آنکھوں میں ایک طوفان اُبھر آیا  ہو جیسے سمندر کوزوں میں سما گیا ہو، لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button