آوازِ دوست… تبصرہ: احتشام رسول
مختار مسعود
اشاعت
جنوری 1973ء
اکتالیسواں ایڈیشن
اکتوبر2018 ء
“اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ایک طویل مختصر اور دوسرا طویل تر۔ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔فکر سے مراد فکر فردا ہے اور خون سے خون تمنا”۔
یہ وہ منفرد اور واحد کتاب یے جسکا ہر لفظ ، فقرہ ،صفحہ حکمت و دانائی کے نگینوں سے جڑا ہوا ہے ۔ اسکے مطالعہ کے بعد میرا جب بھی دل چاہا کے اہل ذوق کو اس خوبصورت شاہکار کے حسن کا جلوہ دکھاوں تو یوں محسوس ہوا کے میں انصاف نہیں کر سکوں گا کیونکہ مختار مسعود صاحب نے اس خوبصورت انداز میں سوفکلیس، ارسطو ،سکندر ،جولیس سیزر ،ٹائن بی ،برناڈ شا،ٹیگور،ٹالسٹائی الغرض تاریخ ،واقعات ،حکمت و دانشمندی کو اپنے قلم میں یوں مقید کیا ہے کے کوئی بھی حسن پرست و حسن نظر رکھنے والا کتاب کے کسی ایک حصے پر اکتفا نہیں کرے گا کیونکہ یہ وہ شاہکار ہے کے جو ناظر کو مکمل طور پر اپنے حسن میں یوں قید کر لیتا ہے جیسے کسی دیوی کا حسن دیکھنے والے کو اسکے نین و نقش کے سحر میں جکڑ لے ۔۔۔!!!
مصنف کتاب میں فاسٹر کے متعلق کہتے کے ،”ہر شخص کو نہ وہ نظر ملتی جو ایک جھلک میں سب کچھ دیکھ لے اور نہ وہ دل میسر آتا ہے جسے ہر دھڑکن کے ساتھ القا ہوتا ہے” ۔مگر آواز دوست کے مطالعہ کے بعد مجھ پر منکشف ہوا کے یہ بات مختار مسعود صاحب پر بھی صادق آتی ہے ۔زندگی کو بامقصد اور بااصول بنانے کیلے جو اصول اور مثالیں مصنف نے بیاں کی ہیں وہ قاری کے لیے زندگی میں کامیابی کے لیے مشعل راہ ہیں۔
آواز دوست میں مصنف وطن کے ساتھ محبت کو اپنی آٹو گراف بک سے بڑی زہانت کے ساتھ یوں مربوط کرتے کے قاری کو زندگی میں ایمانتداروں اور ہنر مند افراد کی قدر کرنے کیطرف راغب کرتے اور بے ہنر ، غداروں اور مطلب پرست لوگوں سے کنارہ کشی کا درس دیتے ییں۔مصنف کو جب بھی کسی بڑے آدمی میں ملک سے مخلص پن کی کمی کی بو آتی تو وہ اپنی آٹو گراف بک کو واپس جیب میں لے جاتے ۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کے بظاہر یہ صرف 231 صفحات پر مشتمل اور صرف 180روپے میں ہے مگر علم کے جوہرات کو خود میں یو ں قید کیے ہوئے جیسے محبوب صرف ایک مسکراہٹ پہ آپکا ہو جائے حلانکہ کے یہ کتنا مشکل ہے یہ اہل عشق ہی بتا سکتے۔۔!!!