اداس نسلیں ، عبداللہ حسین ، تبصرہ وقار کنول
اردو اگرچہ باقاعدہ ایک نوزائیدہ زبان ہے دنیا کا عظیم ادب جن زبانوں میں تخلیق ہوا ان کی تاریخ کئی صدیوں پر مشتمل ہے سو اگر بات کریں کہ اردو زباں میں لکھے گئے بہترین ناولوں کی جو ناول کے مروجہ اور عالمی اصولوں پر ناول ہونے کا حق ادا کرتے ہیں تو مقابلہ آگ کا دریا از قراۃالعین حیدر اور عبداللہ حسین کے ناول اداس نسلیں کے درمیان ہی ہے چند وجوہات کی بناء پر میں عبداللہ حسین کے اداس نسلیں کو آگ کے دریا پر فوقیت دے کر اسے اردو ادب کا سب سے بہترین ناول شمار کرتا ہوں اگرچہ ناقد عبداللہ حسین کے کام پر قراۃالعین کے کام کی چھاپ تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے۔
عبداللہ حسین نے یہ ناول ایک فیکٹری میں کام کرتے ہوئے وقت گزاری کے لیے ایک مختصر کہانی جس میں ایک امیر نواب زادی کو ایک غریب کسان کے بیٹے سے پیار ہو جاتا ہے، کے طور پر لکھنا شروع کیا لیکن بعد ازاں جب کہانی کا ٹیمپو اور پلاٹ عبداللہ حسین کے خیال سے زیادہ گہرا اور وسیع ہوا تو عبداللہ حسین لکھتے ہیں کہ میں سوچا یہ تو میرے گلے ہی پڑھ گیا ہے لہذا پھر میں باقاعدہ تحقیق اور وقت کے ساتھ اسے مکمل کیا اس میں تاریخ آ گئی تو میں نے اپنے کرداروں کو اپنے بس سے باہر ہوتے اور اپنی راہ خود بناتے ہوئے لکھا۔
بہترین ادب وہ ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنا وجود برقرار رکھے اداس نسلیں میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے آپ آج بھی اسے پڑھیں تو آپ کو ہر کردار آپ کے آس پاس سانس لیتا محسوس ہو گا جیسے یہ اس دور کی کہانی ہے اچھے ادب کی کہانی ہر دور کی کہانی ہوتی ہے۔
۔
اداس نسلیں کی کہانی برٹش انڈیا کی کہانی ہے جس کا دور جنگ آزادی سے لیکر قیام پاکستان تک ہے ۔ ناول کے بنیادی کردار نعیم احمد خان اور عذرا ہیں نعیم ایک کسان کا بیٹا جو اس دور کے ہر پڑھے لکھے نوجوان کی طرح تھوڑا سیاسی اور اپر سرکل میں پہچان بنائے پھرتا ہے عذرا سے ملاقات اور محبت کی اور سماجی فرق کی کہانی سے نکل کر نعیم کے برطانوی فوج میں بھرتی ہونے اور جنگ عظیم دوم میں خدمات سے ہوتی ہوئی دھیرے سے تاریخ ہندوستان کے سیاسی واقعات کو لپیٹ میں لے لیتی ہے ، واقعہ جلیانوالہ باغ ،تحریک آزادی اور قیام پاکستان سے ہوتی ہوئی جب ہجرت کے پیدل سفر تک پہنچتی ہے تو ایک عظیم ناول ایک بہترین ادب تشکیل پا چکا ہے جہاں عبداللہ حسین نے ایک جاٹ معاشرے کی تاریخ اور پنجاب کے صیح و اصل کلچر کو بیان کیا ہے وہیں برطانوی حکومت سے نفرت اور ہندوستانی مقامی لوگوں کے مذہبی و لسانی اختلافات بھی اس خوبی سے بیان کئے ہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ سب واقعات تو جیسے میرے آنکھوں کے سامنے پیش آئے ہیں ۔
ناول کا اسلوب اگرچہ سادہ اور کہانی کی گرفت بہت مضبوط ہے لیکن ناول کے اختتام پر جب کہانی و کردار فلسفیانہ گفتگو کرتے ہیں تو قاری کے لیے شاندار ذہنی مشق کا ساماں پیدا کرتے ہیں خاص کر نعیم و پروفیسر اور نعیم کی اپنے بھائی علی اور بیگم عذرا سے گفتگو اسے ایک بہترین ادبی تخلیق بناتے ہیں جس میں کردار نگاری کے ساتھ ڈائیلاگز اور مدبرانہ گفتگو اس کے حسن کو چار چاند لگاتے ہیں۔
عبداللہ حسین نے خود ہی اس ناول کا انگریزی میں the weary generations کے نام سے ترجمہ کیا ناول نے اردو کا سب سے بڑا ایوارڈ آدم جی حاصل کیا اور کئی نسلوں کے سفر کے بعد بھی ناول کا ادبی سفر جاری ہے۔
عبداللہ حسین نے جب یہ ناول لکھا تو اس سے قبل ان کی ایک کہانی جو کہ کینیڈا کے معاشرے سے متعلق تھی ہی شائع ہوئی تھی ادبی حلقوں میں پہچان بلکل نا تھی ایسے میں یہ ایک بہترین تجربہ تھا جو اردو ادب کے حصے میں آیا۔
کرشن چندر جی کا اس ناول کے چھپنے کے بعد عبداللہ حسین کو لکھا گیا ایک خط ادبی حلقے کی اس ناول پر حیرانی کو ظاہر کرتا ہے۔
کرشن چندر کاخط
’’ مکرمی ومحترمی عبداللہ حسین صاحب آپ کون ہیں؟کیا کرتے ہیں؟ادب کا مشغلہ کب سے اختیارکیا؟اور کس طرح آپ ایک شعلے کی طرح بھڑک اٹھے؟۔اپنا کچھ اتاپتاتوبتائیے۔’’اداس نسلیں‘‘پڑھ رہا ہوں۔لیکن اسے ختم کرنے سے پہلے یہ مجھے معلوم ہوچکا ہے کہ اردوادب میں ایک اعلیٰ جوہردریافت ہواہے۔ اس سے پہلے میں نے ایک کہانی پڑھی تھی، جس کا ماحول کینیڈا کا تھا۔ وہ کہانی بہت خوبصورت تھی اور عرصے کے بعد میں نے ایک ایسی کہانی پڑھی تھی، جس پرمجھے رشک آیا ہو۔وہ کہانی پڑھ کرمیں نے اسی دن آپ کو مبارکباددی تھی۔خط البتہ آج لکھ رہا ہوں۔آپ کی نثرمیں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مجھے پسند ہیں۔آپ کے لکھنے کا ڈھنگ، الفاظ کا انتخاب،سٹائل کی ایک سیال پگھلی ہوئی نیم گرم کیفیت جو فکراور جذبے کو ایک دوسرے میں تحلیل کردیتی ہے۔معلوم ہوتا ہے اس پیار میں آپ گہرے ڈوبے ہوئے ہیں۔اس عمل کا کرب بھی آپ کی تحریر سے نمایاں ہے۔ مگریوں تو ہوگا ہی،جو لوگ لفظوں سے پیارکرتے ہیں بہت دکھ اٹھاتے ہیں!
وقار کنول۔
it is really a great asset in urdu literature