لکھ یار

آج کا منٹو۔۔۔اور میں!

تحریر اویس احمد!

          Manto-Main  پچھلے ہفتے مجھے حکم ملا کہ آپ منٹو کے حوالے سے کچھ کریں۔۔۔۔ اور میں پورا ہفتہ یہ ہی سوچتا رہا کہ میں منٹو پہ کیا کر سکتا ہوں۔۔؟ پہلے میں نے سوچا کہ چلو منٹو کہ کسی ڈرامے، افسانے ، خاکے یا خط کی ڈرا میٹک ریڈ نگ کرتا ہوں۔۔۔ کچھ سال پہلے کی پڑھی منٹو کی تمام تحاریر نکالی، انہیں پھر سے پڑھا۔۔ اور پڑھ کے مجھے احساس ہوا کہ شاید میں منٹو کی تحریر کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔۔۔۔

پھر سوچا چلو منٹو کے کام پہ لکھتا ہوں، منٹو کی کہانی، اسکی بنت، اسکا کرافٹ، اسکے کردار، اسکا نان فکشن، اسکاسٹائر، اسکے جملے کی کاٹ۔۔۔ ان سب پر لکھتا ہوں۔۔۔ اور میں نے لکھنا شروع کر دیا۔۔۔ تھوڑا سا لکھ کر جب میں نے اسے پڑھا تو میرے ذہن سے بہت سی ایسی کتابیں گزر گئیں جو مریدین اپنے پیروں کے لئے لکھتے ہیں، جن میں عقیدت ہی عقیدت ہوتی ہے، کرامات ہی کرامات ہوتی ہیں، تعریف ہی تعریف ہوتی ہے۔۔۔ لیکن وہ دلچسپ نہیں ہوتیں۔۔۔۔اور میری تحریر بھی ویسی ہی تھی۔۔ جس میں منٹو کی کرامات ہی کرامات تھیں۔۔۔ اور ویسے بھی منٹو کے کام پر اسکے دور کے بھی تمام بڑے لوگوں نے لکھا اور آج کے دور کے بھی تمام بڑے لوگ لکھ رہے ہیں۔۔۔ تو پھر اس میں میرا نیا کیا ہے۔۔۔؟ وہ ایسے ہی لگا کہ جیسے ان سے ادھار لی ہوئی تحریر ہے۔۔ اس میں میرا کچھ نہیں ہے۔۔۔

تو پھر اب کس پہ لکھا جائے۔۔۔۔۔؟ سوچا منٹو کی حالات زندگی پہ کچھ لکھتا ہوں۔۔۔۔۔ منٹو کی مسائل، تکالیف۔۔۔ خاص طور پر اسکی زندگی کے آخری چند سال۔۔۔

لیکن پھر ایک مسئلہ۔۔۔۔ میرے نز دیک منٹو نے جو مشکلات کا دور دیکھا ، جو سارے مسائل سے گزرا وہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔۔۔۔ وہ بہت ضروری تھے۔۔۔ وہ کسی مہان آدمی نے کہا تھا کہ

The best artistic lines in the history are written by the empty stomach…

اور میرے خیال میں ایمپٹیسٹمککے ساتھ ساتھ ایک بے چین روح کا ہونا بھی لازمی ہے۔۔۔۔ اگر بٹوارے کے وقت منٹو کی اپنی شخصیت بھی تقسیم نہ ہوئی ہوتی تو کہاں سے آتا ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کہاں سے آتا کھول دو۔۔۔۔ تو وہ حالات بھی اس کے لئے لازمی تھے ۔۔ اسکے ساتھ اس دور نے جو کیا، اس معاشرے نے جو کیا، اسکے پبلشرز نے جو کیا، ترقی پسند ادب کے نام لیواوں نے جو کیا، اسکے قارئین نے کیا، اسکے ہم عصروں کیا، منصفین نے کیا اور حکومت وقت نے جو کیا۔۔۔ ان سب لوگوں نے جو کیا اسکے جواب دہ وہ لوگ ہیں اور یہ انکا مسئلہ ہے۔۔۔ میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔

تو پھر میرا مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔؟

صاحب! میرا مسئلہ ہے آج کا منٹو۔۔۔!

اور آج کے منٹو سے ہر گز میری مراد یہ نہیں ہے کہ میں کسی فلاسفی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔ میری مراد واقعی آج کے منٹو سے ہے۔۔۔۔ اور آج کے منٹو سے مراد ہے منٹو کی قبر۔۔۔۔

صاحب ! یہاں پر جتنے بھی لوگ موجود ہیں۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ سو فیصد نہیں تو ننانوے فیصد ایسے ضرور ہونگے جو نان بلیور نہیں ہیں۔۔۔ جو کسی نہ کسی خدا پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو کسی بھی نام سے ہو، چاہے وہ اللہ ہو ، بھگوان ہو ایشور ہو کچھ بھی ہو۔۔۔۔ اگر ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ جو ہمارا مادی جسم ہے اس کے اندر ایک روح موجود ہے۔۔۔ اگر ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ہمارے اندر روح موجود ہے تو پھر ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ جب ہم مر جاتے ہیں تو وہ ’’دی اینڈ‘‘ نہیں ہوتا وہ ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔۔ جس میں روح زندہ ہوتی ہے۔۔ اگر ہم مانتے ہیں کہ روح زندہ ہوتی ہے تو آج منٹو کی روح زندہ ہے۔۔۔

میرا مسئلہ اس روح کا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔

صاحب! میں ساتویں کلاس میں تھا جب ایک شام بازار میں مجھے میرا کلاس فیلو ملا۔۔۔۔ خاصہ پریشان تھا۔۔۔ میں نے پوچھا کیا ہوا۔۔۔؟ کہنے لگا یار وہ۔۔۔ منٹو کی کتاب لایا تھا۔۔۔۔ اماں کو پتہ چل گیا۔۔۔

میں نے کہا پھر۔۔۔؟ کہنے لگا پھر بڑی ڈانٹ پڑی۔۔۔وہ تو ابا گھر پہ نہیں تھے نہیں تو مار پڑ جانی تھی۔۔۔۔

میں نے کہا، کیوں۔۔۔؟؟؟ کون ہے یہ منٹو۔۔؟؟؟

کہنے لگا، یار ایک رائٹر ہے۔۔۔۔ شہوت پہ لکھتا ہے۔۔۔

اب خدا جانے اس نے یہ لفظ کہاں پڑھا تھا منٹو کے بارے میں۔۔۔۔ اور مجھے بھی اس وقت نہیں پتہ تھا کہ یہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ خیر یہ تو پتہ تھا۔۔۔۔ لیکن اس لفظ کے مطلب کا نہیں تھا پتہ۔۔۔۔ لیکن یہ ضرور پتہ چل گیا کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے کہ جس سے روکا جارہا ہے تو یہ ضرور پڑھنی چاہئے۔۔۔۔

میں نے پوچھا، کتاب کدھر ہے۔۔؟

کہنے لگا، وہ میں کرائے پر لایا تھا، تو واپس کرنے جارہا ہوں۔۔۔

میں نے کہا کتنا کرایہ ہے۔۔۔؟ کہتا تین روپے۔۔

میں نے کہا، یہ تین روپے لو، کتاب مجھے دے دو۔۔۔

وہ شروع میں تھوڑا ساڈرا پھر اس نے کتاب دے دی۔۔۔۔ میں کتاب لیکر جانے لگا۔۔۔ تو کہتا، ٹھہرو، ٹھہرو بات سنو۔۔۔!

میں نے کہا۔۔۔اب کیا ہے۔۔؟

کہتا ، وہ میں نے پانچ، دس صفحے پڑھے تھے۔۔۔ تو۔۔۔ ایک صفحہ میں نے فولڈ کیا ہوا ہے۔۔۔ وہ پڑھنا۔۔

اب اور سسپنس بڑھ گیا کہ کیا چیز ہے۔۔۔؟
میں منٹو کو لیکر گھر آگیا۔۔۔۔ پوری رات میں نے منٹو کو پڑھا۔۔۔۔ اور پورا سرور لیکر پڑھا۔

اگلے دن میں کلاس میں پہنچا، پہلا لیکچر ختم ہوا، تو وہ کھسکتا کھسکتا میرے پاس آگیا۔۔۔

اوئے۔۔۔ کتاب پڑھی تھی۔۔؟

میں نے کہا۔۔۔۔ ہاں

پھر۔۔۔کیا تھا؟؟؟
اب ساری رات کے جو جو منظر میرے دماغ میں تھے میں نے ان میں اپنا مسالہ ڈالا اپنا تڑکا لگایا۔۔۔اور اسے پوری کہانی سنائی۔۔

اسکا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔۔ وہ دور ایسا تھا جب انٹرنیٹ اتنا عام نہیں تھا یا ہم لوگوں کی رسائی میں نہیں تھا۔۔۔ تو ایسی باتوں پر بچوں کے چہرے سرخ ہو جاتے تھے۔۔۔ آج کل شاید نہیں ہوتے۔۔۔۔

چھٹی تک وہ کہانی ٹکڑوں میں پوری کلاس میں پھیل چکی تھی۔۔۔۔   چھٹی کے بعد پوری کلاس اکھٹی ہوئی۔۔۔ تب تک میں اس میں اور کافی ساری چیزیں شامل کر چکا تھا۔۔۔ اور پھر میں نے سب کو منٹو سنایا۔۔۔۔

اس دن میری کلاس کا منٹو سے تعارف ہوا۔۔۔۔ اور مجھے لگتا ہے کہ جیسا تعارف میں نے منٹو کا کروایا تھا۔۔۔ ہماری پوری قوم کا منٹو سے کچھ ایسا ہی تعارف ہے۔۔۔۔

صاحب! وہ دن گزر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ دن بھی آئے جب میں نے ’کھول دو‘‘ کی آخری لائنز پڑھیں۔۔۔۔۔۔اور میں نے واقعی رونگھٹے کھڑے ہوتے دیکھے۔۔۔ میں نے واقعی روح کانپتی ہوئی محسوس کی۔۔۔۔ میں نے واقعی ساری رات گزار دی روتے ہوئے۔۔۔

اور اس دن مجھے منٹو سے محبت ہو گئی۔۔۔ اب میرا محبت کا ، عقیدت کا اپنا طریقہ ہے۔۔۔ مجھے جس سے محبت ہوتی ہے میں اس سے ملنے جاتا ہوں۔۔۔ تو میں نے پوچھنا شروع کیا کہ منٹو کہاں ہے۔۔۔؟ کچھ آرٹیکلز سے کچھ حلقہ احباب سے پتہ چلا کہ اسے میانی صاحب میں دفنایا گیا تھا۔۔۔ کچھ بڑے لوگوں کی صحبت میں تھا ان سے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے منٹو کی قبر کا۔۔؟ تو ایک، دو نے کہا کہ ہاں ایک آدھ دفعہ گیا تھا مگر کئی دہائیاں پہلے۔۔۔

میں نے کہا ٹھیک ہے چلو جا کر دیکھتے ہیں۔۔۔ میں میانی صاحب پہنچا۔۔۔ اب وہ کوئی ڈیڑھ سو ایکڑ کے رقبے پر پھیلا قبرستان ہے جس میں تین لاکھ سے زائد لوگوں کی قبریں ہیں۔۔۔۔۔ اب اتنے لوگوں میں میں منٹو کا کہاں ڈھونڈتا۔۔۔۔ میں نے منٹو کو ڈھونڈنا شروع کیا، میں نے میانی صاحب کے دفتر سے پتہ کیا، میں نے گورکن سے پوچھا، میں نے پھول والوں سے پوچھا میں نے ہر آنے جانے والے سے پوچھا۔۔۔۔۔۔منٹو کہاں ہے۔۔۔؟؟؟ کسی کو منٹو کا کوئی پتہ نہیں تھا۔۔۔۔

تین دن لگے مجھے۔۔۔ پہلا دن گزر گیا۔۔۔ میانی صاحب دفتر میں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔۔۔۔ دوسرا دن گزر گیا غازی علم دین سے لیکر آغا شورش تک کئی لوگ ملے۔۔۔ منٹو نہیں ملا۔۔۔ آخر تیسرے دن میانی صاحب دفتر میں ایک شخص ملا جس کے بقولاسکا بھی ادب سے لگاؤ ہے ۔۔۔اور تین سال پہلے اسی نے منٹو کی قبر کا کام کروایا تھا۔۔۔ بہت بری حالت میں تھی قبر۔۔۔۔

خیر، اس نے راستہ بتا دیا اور میں آہستہآہستہ منٹو تک پہنچ گیا۔۔۔۔ میں نے ڈھونڈ لیا منٹو کو۔۔۔۔ تے میں جا کے جپھی پا لئی۔۔

لیکن وہاں پہ کچھ اور تھا میں کچھ اور سوچ کے گیا تھا۔۔۔ کم ازکم میرے گھٹنوں تک جھاڑیاں تھیں قبر پہ۔۔۔ وہاں جو کتبہ تھا۔۔ میں نے جو کتبہ پڑھا تھا وہ کچھ اور تھا وہاں کچھ اور ہی تھا۔۔۔۔ میں نے جو کتبہ پڑھا تھا جو منٹو نے خود لکھا تھا جسکی عبارت کچھ یوں تھی۔۔۔۔

’’یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے۔۔۔ اسکے سینے میں فن افسانہ نگاری کے تمام اسرارو رموز دفن ہیں۔۔۔ وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار تھا یا خدا۔۔‘‘

صاحب! آپ چھوڑ دیں وہ مسلمان تھا، کافر تھا، فرشتہ تھا، پیغمبر تھا وہ خدا کو مانتا تھا یا نہیں۔۔۔۔۔ آپ صرف یہ دیکھیں کہ وہ ایک رائٹر تھا۔۔۔ اور ایک رائٹر کی اس سے بڑھ کر اور کیا معراج ہوگی۔۔۔ اور آپ ایک رائٹر سے کیا چاہتے ہیں۔۔۔ اسکی تمام تحاریر ایک طرف اور یہ تین سطری تحریر ایک طرف۔۔۔ جو اسکا کتبہ تھا جو اسکا شاہکار تھا۔۔۔جو وہاں پر نہیں تھا۔۔۔ وہاں ایک اور تحریر تھی جو کچھ اس طرح سے تھی۔۔۔

’’میری قبر کا کتبہ یہ لوح سعادت حسن منٹو کی قبر کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اسکا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں۔۔‘‘
بعد میں پتہ چلا کہ پہلا کتبہ اسکی تحریر نہیں تھی ، بعد والی اسکی تحریر تھی۔۔۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس نے دو کتبے لکھے تھے۔۔۔ اب دو کتبے کون لکھتا ہے بھائی۔۔۔؟؟
لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ جو پہلا کتبہ تھا یہ صرف سعادت حسن منٹو ہی لکھ سکتا ہے یہ کوئی اور نہیں لکھ سکتا۔۔۔

منٹو اس کتبے کا حقدار تھا کہ وہ کتبہ ا سکی قبر پر رہتا۔۔۔وہ شاہکار تھا اسکا۔۔۔۔ لیکن وہ ہم لوگوں نے اس سے چھین لیا۔۔۔ بعد میں پتہ چلا کہ اسکے گھر والوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ یہ لگایا جائے اور پھر وہ تبدیل کر دیا گیا۔۔۔

صاحب ! میرا مسئلہ وہ کتبہ ہے۔۔ اسکیتحاریر ایک طرف ہم نے اسکے ساتھ کیا کیا۔۔۔

ہم آج باتیں کرتے ہیں کہ جی سعادت حسن منٹو یہ۔۔۔۔ سعادت حسن منٹو وہ۔۔۔ منٹو کی شاہکار تحریروں کو آپ دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب کی شاہکار تحریروں کے مقابلے پر رکھ سکتے ہیں۔۔۔ وہ کسی صورت بھی ان سے کم نہیں ہیں یا ان سے بڑھ کے ہیں۔۔۔

صاحب ! آپ یہ دیکھیں کہ وہ جن کے شاہکار تھے انکی قوم نے انکے ساتھ کیا کیا۔۔۔ اور ہم نے کیا کیا۔۔۔؟ آپ گوگل کریں اور دیکھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ کن لوگوں کی قبریں وزٹ ہوتی ہیں۔۔۔شیکسپئرسےآسکروائلڈ تک ایک سیریز چلے گی، جہاں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ جاتے ہیں۔۔۔ اور یہاں منٹو کو آپ نے زبانی کلامی اٹھا کر کہاں بٹھا دیا ہے۔۔۔ کوئی جانتا نہیں اسے۔۔۔۔۔ اسکی قبر کا کسی کو نہیں پتہ۔۔۔

میرا مسئلہ اسکی قبر ہے۔۔

صاحب! ہم احسان فراموش نہیں ہم ذلیل لوگ ہیں۔۔۔ میں آج پورا دن منٹو کی قبر پر تھا۔۔۔ابھی وہیں سے ہی آرہا ہوں۔۔۔۔ بہت اکیلا ہے وہ۔۔۔۔!

کل منٹو کی برسی ہے۔۔ ۱۸ جنوری۔۔ کل کیا ہوگا میں آپ کو بتاتا ہوں۔۔۔ ہم ٹریبیوٹ پیش کریں گے سعادت حسن منٹو کو۔۔۔

باتیں ہیں جی وہ بہت بڑا رائٹر تھا کہ اردو جاننے والا ہر بندہ اسے جانتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا اسے۔۔۔

آپ ابھی سروے کریں۔۔۔ باہر نکلیں سڑک پہ پوچھنا شروع کریں سعادت حسن منٹو کا۔۔۔ کسی کو نہیں پتہ ہوگا۔۔۔ وہ جہاں دفن ہے وہاں اسکا کسی کو نہیں پتہ۔۔۔ اردو سمجھنے والا ہر بندہ اسے کہاں جانتا ہوگا۔۔۔

کل برسی ہے۔۔۔ کل ہم ٹریبیوٹ پیش کریں گے۔۔۔ اور وہ کیسے۔۔۔ ۹۸ فیصد آبادی کو پتہ نہیں۔۔۔ اور باقیوں میں سیلیبریٹ کریں گےآپ کے ادب کے نام لیوا۔۔۔۔ ادب کے فروغ کے لئے کام کرنے والی یہ تنظیمیں۔۔۔۔ حلقہ فلاں فلاں۔۔۔۔۔ اور انجمن فلاں فلاں۔۔۔۔۔

اور وہاں کیا ہوگا۔۔۔۔؟

اجلاس ہو گا۔۔ جس میں بڑے لوگوں کو بلایا جا ئے گا، پی آرایکٹیویٹزہونگی، منٹو کے دو افسانے پڑھے جائیں گے ، تعریفوں کے پل باندھے جائیں گے۔۔۔ اس کے بعد ہر بندہ اپنے کام کو منٹو کے کام سے کسی نہ کسی طرح سے جوڑنے کی کوشش کرے گا۔۔۔ منٹو کی خوش قسمتی بیچارہ پہلے آگیا نہیں تو وہ ثابت کرتے کہ منٹو نے جو کام کیا وہ دراصل انہی سے انسپائر ہو کے کیا تھا۔۔۔۔ پھر چائے کا ایک دور چلے گا جس میں جو لوگ اجلاس میں شامل نہیں ہیں۔۔ انکی چغلیاںہونگی، غیبتیں ہونگی، بد خوئیاںہونگی۔۔۔ اس کے بعد وہاں سے اٹھ کے باہر کسی چائے کے ڈھابے پہ جا کے بیٹھا جائے گا پھر ہوگا اصل منٹو ڈسکس۔۔۔ جس میں اسکے جنس سے جڑے ہوئے تمام جملے اور مناظر نکالے جائیں گے، وہ ڈسکس ہو نگےاسکے ساتھ ہر بندہ حسب توفیق اپنے گندے لطیفےسنائے گا۔۔۔ قہقہے لگیں گے، ہاتھ پر ہاتھ پھینکے جائیں گے اور یوں منٹو سیلیبریٹ ہو جائے گا۔۔۔۔

دوسرا ٹریبیوٹ پیش کرے گا ہمارا میڈیا۔۔۔۔ میرا تعلق بھی اسیمیڈیا سے ہے۔۔۔۔ نیوز چینلز پر ایک منٹ کا نیوز پیکج چلے گا منٹو پر۔۔۔ اور وہ کس طرح سے بنتا ہے میں نے ہزاروں پیکجز بنائے ہیں وہ ذرا سن لیجئے کہ وہ کیسے بنے گا۔۔۔۔

گوگل پر جا کر اردو میں منٹو کا نام ٹائپ کیا جائے گا۔۔۔۔ دس ، بارہ آرٹیکلز نکل آئیں گے۔۔۔۔ اوپر والی تین لائنز ایک آرٹیکلکھول کر اس سے لی جائیں گی، درمیان والی لائنز ایک اور آرٹیکل سے اور آخری تین، چار لائنز ایک اور آرٹیکل س لی جائیں گی۔۔۔۔ کاپی پیسٹ کیا جائے گا۔۔۔۔ اور لیجئے منٹو پر ایک انسٹنٹپیکج تیار۔۔۔۔ اور ہم نے منٹو کو سیلیبریٹ کر لیا۔۔۔۔

یہ ہمارا اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔۔۔۔۔

صاحب! میرا مسئلہ پھر وہیں ہے۔۔۔ منٹو کی قبر۔۔۔

اس نے اپنے زندہ رہنے کے لئے کافی لکھ دیا ہے۔۔۔۔ اور وہ اپنی تحاریر کے بل بوتے پر زندہ رہ لے گا۔۔۔۔ ہم نے کیا کیا۔۔؟ اور ہم کیا کر رہے ہیں۔۔۔ کیا ہم اس قابل تھے کہ منٹو ہمارے درمیان رہتا۔۔۔؟

ہم نے اسے جیتے جی مارا۔۔۔۔ جب وہ مر گیا تو ہم نے اس سے اسکا کتبہ بھی چھین لیا۔۔۔ اور یہ ہم ہر بڑے بندے کے ساتھ کرتے ہیں۔۔۔۔ چاہے وہ سعادت حسن منٹو ہو یا ڈاکٹر عبدایسلام ہو۔۔۔۔ ہم اسکا کتبہ اسکی قبر پر نہیں رہنے دیتے۔۔۔

صاحب مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ پم نے منٹو ساتھ کیا۔۔۔ آج میں ایک سو کالڈ رائٹر ہوں۔۔۔۔ میں منٹو نہیں ہوں ۔۔۔ اس جیسا ہو نہیں سکتا۔۔۔۔ میں اسکے پیروں کی خاک نہیں۔۔۔۔ لیکن آج۔۔۔۔ جب میں سچ بولنا چاہوں گا۔۔۔ ننگا سچ لکھنا چاہوں گا۔۔۔۔ جو منٹو نے ساری عمر کیا۔۔۔ جو اسکے نزدیک سچ تھا ساری عمر وہ بولا۔۔۔۔ آج۔۔۔۔۔ جو میرے نزدیک سچ ہے جب میں بولنے لگوں گا۔۔۔۔۔۔ تو۔۔۔ ایک دفعہ ضرور سوچوں گا۔۔۔

یا پھر کچھ ایسا انتظام کر کے جاوں گا کہ جب میں مروں۔۔۔ تو ایک ہاتھ اپنی قبر سے باہر نکال لوں اور اپنا کتبہ پکڑ لوں۔۔۔۔

میں اپنی تمام بات اپنی ہی ایک نظم کے ساتھ سم اپ کرتا ہوں۔۔۔۔ جو کہ آج منٹو کی قبر پر ہی بیٹھ کے لکھی گئی۔۔۔ یہ انداز میرا ہے، یہ لفظ میرے ہیں۔۔۔ لیکن یہ بات منٹو کی ہے۔

میں وڈالیکھت ہند دا

بنگال توں لے کے سندھ دا

میں اردو نمانی زندہ کیتی

لہو نچوڑ کے جند دا

کہانی میری ہتھی جائی

کردار نے میرے اگے پچھے

اوہ میں اافسانہ کی لکھنا

افسانہ مینوں لکھے

ہین شبد میرے غلام

میں جھوٹ نوں پائی لگام

میں قبلہ کعبہ جاننا

مسیت اپنی داامام

میں جھوٹ دے کپڑے لا کے

کیتاویچ بازاری ننگا

مینوں کافر کافرآکھدے

منافق نالوں کافر چنگا

مینوں غریب مظلوم دی سیک

میرا اندر بار ایک

میتھوںوی کج لکدا اے؟

میرا کوٹھا، مزار ایک

میں وریاں توں اڈیکدا

پیا مٹیاںتھلےچیکدا

میرا ہور کوئی جرم نئیں

میں مجرم اپنی لیکدا

میرے نام توں نام بنان والیو

کاروبار چلان والیو

وقت دی جان پچھان والیو

اردو پڑھن پڑھان والیو

ہند تے پاکستان والیو

میتھوں معافی منگو

تے ہتھوی جوڑو

میرا کتبہ مینوں

واپس موڑو۔۔۔

۱۷ جنوری ۲۰۱۵، سب منٹو، لاہور

Related Articles

5 Comments

  1. Apki tahreer mein wo ikhlas ar mohabat nzar ai jo apko Manto The Great sy hy
    Lkn agr ap Manto ki zindgi k unn pehlo’on py bat krty jo aam admi ki dastras sy bahir hy ta k us ki azmat ko ujagar Kia ja sakta hy
    Andaz e tahreer sada ar sehal hy:)

  2. Tehreer kamal ki hai aur Manto ki qabar pe beth k likhi gai nazm uss se b kamal…..
    Nice & different approach Awais bhai…. Jazak Allah

  3. I read it today…..tab 18 january thi next day…..or ab kal 6 november hai…..bht acha article hai….really hum beqadry log hen

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button